افغا نستا ن کی دن بدن بگٹرتی ہو ئی صورتحا ل امر یکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جا نب سے کا نگریس کو حا ل ہی میں لکھے جا نے والے ایک مکتو ب کے تنا ظر میں مزید پیچیدہ رخ اختیا ر کر تی جا رہی ہے۔ اس مکتو ب میں صدر ٹر مپ نے کا نگریس کو آ گا ہ کیا ہے کہ افغا ن حکو مت کو درپیش خطرات کے پیش نظر امر یکی افواج نہ صر ف افغا نستا ن میں دہشت گردی کے ٹھکا نوں کے خا تمے تک مو جو د رہیں گی بلکہ جنگ میں مزید وسعت اور تیزی بھی لائی جا ئے گی۔ متذکرہ خط میں کانگر یس کو با ور کرا یا گیا ہے کہ امریکی افواج کی جا نب سے افغا ن فوج کی جنگی صلاحیتوں میں اضا فہ اور ان کی تر بیت اب بھی تر جیح میں شامل ہے لیکن دہشت گردوں کا صفایا کر نے کے لیے جنگی مشن میں مزید تیزی بھی لا ئی جا ئے گی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خط میں داعش اور القا عدہ کا خصو صی ذکر کر تے ہوئے کہا ہے کہ ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کر نے کیلئے افغا ن فو ج کی تر بیت بہت ضروری ہے۔ انھو ں نے کا نگریس پر واضح کیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحا دیوں بشمول افغا ن سیکیو رٹی فو رسز کے خلاف بر سر پیکار القا عدہ اور دیگر جنگجو تنظیموں اور ان کو سپورٹ کرنے والوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کر نا ابھی با قی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے اس خط میں تسلیم کیا ہے کہ افغا نستا ن میں اب بھی دہشت گردوں کے محفو ظ ٹھکانے مو جو د ہیں جہاں سے دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔ امریکی صدر نے اپنے مکتوب میں واضح کیا ہے کہ اس سال 21اگست کو امریکی انتظا میہ نے اپنی جس نئی افغا ن پا لیسی کا اعلان کیا ہے اس میں طالبا ن کو مذاکرات کے میز پر لاتے ہوئے انہیں جنگ میں شکست دینا شا مل ہے۔ افغا نستا ن میں امریکہ کی بڑھتی ہو ئی بو کھلا ہٹ کا اندازہ جہاں طالبا ن کے ہو نے والے حملوں میں اضافے سے لگایا جا سکتا ہے وہاں افغا نستان کے شما لی علاقوں میں داعش کی مو جو دگی اور یہا ں بڑے پیما نے پر مقا می افراد کو بھر تی کر نے اور انہیں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں تر بیت دینے کی اطلاعات سے بھی یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے کہ افغا نستا ن کو ایک با ر پھر جنگی تھیڑ بنا نے کی بین الاقوامی سا زشیں اپنے عروج پر ہیں۔ افغا نستان میں داعش کی بڑھتی ہو ئی سر گرمیو ں نے پچھلے دنوں افغا ن معا ملات میں دلچسپی رکھنے والی قو توں کو اس وقت چونکا دیا تھا جب افغا نستان کے شما لی علا قوں میں داعش سے وابستہ سینکڑوں غیر ملکی جنگجوئوں کی مو جو دگی کی اطلاعا ت سامنے آئی تھیں جن میں بعض عرب اور مسلمان افریقی مما لک کے علا وہ یو رپ اور وسطی ایشا ئی ریا ستوں سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں کی مو جو دگی کا انکشا ف ہو ا تھا۔ افغا نستا ن میں داعش کی بڑھتی ہو ئی سر گر میوں اور خا ص کر اس حوالے سے میڈیا کے ذریعے کیے جا نے والے پرو پیگنڈے سے صا ف ظاہر ہوتاہے کہ بعض قو تیں افغا نستان میں داعش کے وجود کو نہ صر ف پنپتاہوا دیکھنا چاہتی ہیں بلکہ یہ قو تیں داعش کے ذریعے طالبا ن کا قلع قمع کر تے ہو ئے اسکی اہمیت کو بھی ختم یا پھر کم کر نا چا ھتی ہیں۔ افغا ن وزارت دفا ع کے تر جما ن دولت وزیری کا یہ کہنا کہ افغانستا ن کے شمالی صوبو ں فاریاب، جو ز جا ن اور سر پل میں داعش کے جنگجوئوں کی بڑھتی ہوئی سر گر میوں کے خلاف عنقریب ایک بڑا آپر یشن شروع کیا جا ئے گا اس بات کا واضح ثبو ت ہے کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران شما لی افغا نستان میں داعش کی سر گر میوں میں اضا فہ ہوا ہے۔ افغا نستا ن سے طالبا ن اور داعش کے درمیا ن جھڑ پوں سے متعلق اطلا عا ت بھی اس با ت کا پتادیتی ہیں کہ بعض خفیہ ہا تھ داعش کی ا فغا نستا ن منتقلی میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ یہ قو تیں داعش اور طالبا ن کو با ہم دست گریبا ں کر کے لڑائو اور حکو مت کرو کی بر طا نوی پا لیسی پر بھی عمل در آمد کی خو اہشمند ہیں۔ داعش جس کا مشر ق وسطیٰ میں وجود بھی تا حا ل سو پر دوں میں چھپا ہو ا ہے اور اس کے حوالے سے یہ عقدہ بھی ابھی کھل نہیں سکا ہے کہ آخر اس کو آکسیجن کہا ں سے مل رہی ہے اور اس نے اپنی سر گر میوں کا محور اور مرکز صر ف اسلامی علاقوں کو ہی کیو ں بنا رکھا ہے اور اسکے بغل میں فلسطینیوں پر جا ری اسرائیلی مظا لم پر وہ کیوں خا مو ش ہے نیز شا م اور عراق کو اپنا دائرہ عمل بنا تے ہوئے مشرق وسطیٰ میں اپنے اہداف کے حصو ل کے لیے بر سر پیکار تنظیم کو ایک ایسے ملک میں اپنی جڑیں پھیلانے کی ضرورت کیو ں کرلا حق ہے جہا ں پہلے ہی سے طالبا ن نہ صر ف تو انا وجو د رکھتے ہیں بلکہ وہ یہا ں چھ سا ل تک بر سر اقتدار رہ کر شر عی قو ا نین کے نفا ذ کا عملی تجر بہ بھی کر چکے ہیں۔ داعش اور طالبا ن کے اہداف میں کا فی حد تک یکسا نیت کے با وجو د یہ نمایا ں فر ق پا یا جا تا ہے کہ طالبا ن افغا ن سر زمین کی پیداوار ہیں اور ان کی جدوجہد کا مرکز اور دائرہ کار صر ف افغا نستان تک محدود ہے جبکہ طالبا ن کے بر عکس داعش نہ صر ف عر ب سر زمین کی پیداوار ہے۔ اس بحث کے تنا ظر میں یہ با ت وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ داعش کو افغا نستا ن میں پا ئوں جما نے کا مو قع وہی قو تیں دے رہی ہیں جو افغا نستان سے طالبا ن کا وجود ختم کر نا چا ہتی ہیں ۔طالبا ن سے متعلق امر یکہ کی سو چ کا اندازہ صدر ٹر مپ کے امر یکی کا نگر یس کے نا م لکھے گئے اس مکتو ب سے بھی لگا یا جا سکتا ہے جسمیں انھو ں نے ایک ہی سا نس میں جہا ن طالبا ن سے مذاکرات کی با ت کی ہے وہا ں مذاکرات کی آڑ میں ان کے خا تمے کی خواہش کا اظہا ر بھی کیا ہے۔ طالبا ن سے متعلق امریکہ کے پا لیسی سا ز اداروں کی کج فہمی اور اس پیچیدہ مسئلے کو مذاکرا ت اور با ت چیت کی بجا ئے طا قت کے استعما ل کے ذریعے حل کر نے کی کو ششوں کا سوائے تباہی اور بربادی کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا اور شاید اس مکروہ پالیسی کا مقصد بھی یہی ہے کہ امریکہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجھا کر افغانستان اور افغان ملت کو ان کی اسلام پسندی اور شوق شہادت اور جذبہ جہاد کی سزا دینا چاہتا ہے۔ طا لبا ن کو مذا کرات کی آڑ میں نشانہ بنانے کی ایک زندہ مثال ملا محمد عمر کے جانشین ملا اختر منصور کا ایک امریکی ڈرون حملے میں پاک،ایران اور افغان سرحد کے قریب نشانہ بنایا جانا ہے۔سوال یہ ہے کہ امریکہ کے اس بزدلانہ اور ظالمانہ اقدام کے بعد طالبان سمیت کیا کوئی بھی طاقت مذاکرات کے ضمن میں امریکہ یا اس کے کسی بھی اتحادی پر اعتماد کرسکے گی۔ لہٰذا ایسے میں امریکہ کی جانب سے پاکستان سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا اور دوسری جانب پاکستان پر اپنی شکست کا ملبہ ڈالتے ہوئے افغانستان میں بھی اسی کردار کی توقع رکھنا جو وہ اپنے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے سلسلے میں ادا کر چکا ہے اور جس کی پاکستان نے اقتصادی اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں ایک بھاری قیمت ادا کی ہے پاکستان محض امریکی خوشنودی کی خاطر وہی کردار افغانستان میں کیوں کر ادا کر سکے گا۔در اصل اس سوال کے جواب پر ہی پاک امریکہ کے مستقبل کے تعلقات کا انحصار ہے۔