مدیر ’’جسارت‘‘ سید مظفر اعجاز کے کالموں کے مجموعہ ’’قلم رو‘‘ کی لاہور میں تقریب پذیرائی کے خیال پر ابتدائی کام کا آغاز کیا تو فکر یہی تھی کہ لاہور میں اہل دانش میں مظفر اعجاز کے شناسا تلاش کرنا خاصا مشکل مرحلہ ہو گا۔ کیونکہ لاہور میں مظفر اعجاز کا ورود مسعود کبھی کبھار ہی ہوتا ہے اور وہ بھی محض ایک آدھ دن کے لیے مہمانوں کی طرح۔ مگر جب تقریب کے مہمانوں اور مقررین کی فہرست تیار کرنا شروع کی تو وہ طویل سے طویل تر ہوتی چلی گئی، جس سے اندازہ ہوا کہ دور رہ کر بھی مظفر زندہ دلان لاہور میں معروف و مقبول ہی نہیں ان کے دلوں میں بستے ہیں بہرحال یہ طے پایا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی زیر صدارت تقریب برپا کی جائے گی، جس کے مہمان خصوصی روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے مدیر اعلیٰ مجیب الرحمن شامی ہوں گے۔ تاہم 18 دسمبربروز پیر، نماز مغرب کے بعد تقریب کے آغاز کا مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ سرگودھا میں جماعت اسلامی کے ہر دلعزیز بزرگ رہنما عبدالعزیز ہاشمی وفات پا گئے ہیں اور جناب لیاقت بلوچ کو ہنگامی طور پر ان کے جنازہ میں شرکت کے لیے روانہ ہونا پڑا ہے، جب کہ شامی صاحب کو ایوان وزیر اعظم سے بلاوا آ گیا ہے اور وہ عازم اسلام آباد ہو گئے ہیں… تاہم اس کے باوجود مایوسی اور پریشانی والی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ وقت مقررہ پر اہل فکر و دانش اور سامعین کی معقول تعداد لاہور پریس کلب کے آڈیٹوریم میں جمع ہو چکی تھی…!!!
تقریب کا آغاز فرحان شوکت صاحب کی تلاوت کلام حکیم سے ہوا… صدارت ملک کے ممتاز اور مایہ ناز سینئر اخبار نویس کالم نگار اور ٹی وی کے اینکر پرسن جناب سجاد میر کر رہے تھے جب کہ لیاقت بلوچ صاحب کی کمی کو جماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات جناب امیر العظیم نے محسوس نہیں ہونے دیا… دیگر مقررین میں جسارت کے سابق ساتھی اور آج کل روزنامہ دنیا کے کالم نگار عبدالرئوف طاہر، روزنامہ ایکسپریس اور ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد، سید مظفر اعجاز کے جدہ کے دنوں کے رفیق جناب ریاض فاروق ساہی، لاہور پریس کلب کے سیکرٹری روزنامہ جنگ کے جناب عبدالمجید ساجد اور تجربہ کار صحافی، ابلاغیات کے استاد سید تاثیر مصطفی شامل تھے…!!!
صدر محفل سجاد میر کہ جنہوں نے کم و بیش نصف صدی قبل اپنے دور کے مقبول ترین ہفت روزہ ’’زندگی‘‘سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا، اس دوران لاہور کے علاوہ سالہا سال کراچی میں بھی دشت صحافت کی سیاحی کی اور طویل عرصہ تک روزنامہ نوائے وقت کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔ اور یوں کراچی میں مظفر اعجاز کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع انہیں خوب ملا… ان کا کہنا تھا کہ مجھے کراچی میں کئی مراحل پر مظفر اعجاز کے ساتھ اکٹھے رہنے کا اتفاق ہوا ہے، اس لیے مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ نظریاتی محاذ پر کام کرنے والوں کو کتنے مشکل اور کٹھن حالات سے گزرنا پڑتا ہے تاہم مقام شکر ہے کہ روزنامہ جسارت میں با صلاحیت اور صاحبان بصیرت صحافیوں کا ایک گروہ جمع ہو گیا ہے، جو اطہر ہاشمی، مظفر اعجاز اور شاہنواز فاروقی جیسے مردان کار کی قیادت میں نظریاتی محاذ پر سرگرم عمل ہے یہ لوگ اگرچہ بخوبی جانتے ہیں کہ شہرت اور دولت کہیں اور سے ملیں گے مگر اس کے باوجود وہ انتہائی کٹھن حالات میں اپنے مورچے پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے نظریات کی خاطر یہ قربانی یقینا معمولی نہیں…
اللہ تعالیٰ ’’جسارت‘‘ کی اس قوت کو مجتمع رکھے اور ’’کوہستان‘‘ کے تلخ تجربہ کے بعد طویل عرصہ تک سرد و گرم حالات سے گزرنے کے بعد ’’جسارت‘‘ آج ایک کامیاب تجربہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور اسے ملک کے سنجیدہ اور راست فکر طبقات کا اعتماد حاصل ہے… ’’قلم رو‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے سجاد میر صاحب نے کہا کہ یہ کالم پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مظفر اعجاز کو ہر قسم کے حالات میں اپنی بات مؤثر انداز میں کہنے اور صحیح جگہ پر چوٹ لگانے کا ڈھنگ آتا ہے، ان کے کالم اس بات کا ثبوت ہیں کہ شائستہ، شستہ اور شگفتہ زبان میں بھی سخت سے سخت بات کہی جا سکتی ہے، اپنا موقف زور دار انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے… زبان و بیان کی شائستگی کا مطلب بزدلی یا کمزوری ہر گز نہیں… مظفر اعجاز کی کتاب پڑھ کر میرا بھی دل چاہنے لگا ہے کہ اپنے کالموں اور تحریروں کو کتابی شکل میں جمع کر دوں… !!!
صاحب کتاب سید مظفر اعجاز کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی تو انہوں نے مختصر الفاظ اور جامع انداز میں اپنی گفتگو کو کوزے میں بند کرتے ہوئے صرف حاضرین کا شکریہ اداکیا کہ ’’قلم رو‘‘ کی تقریب پذیرائی میں آنے کی زحمت کی، جس سے بہت سے پرانے اور اچھے ساتھیوں اور دوستوں سے ایک چھت تلے ملاقات ہو گئی، جہاں تک کتاب کا تعلق ہے وہ میں نے لکھ دیا ہے اور وہ سب کے سامنے ہے…!!!
جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم صاحب نے کہا کہ ملک میں طویل عرصہ سے سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ سیڑھی پیش کرنے والے جب سیڑھی پر چڑھاتے ہیں تو بہت اچھے لگتے ہیں، پھر جب کہیں سانپ ڈستا ہے یا سیڑھی قدموں تلے سے کھینچ لی جاتی ہے تو پھر قوم کی خدمت اور تاریخ میں نام رقم کرانے کا خیال ستانے لگتا ہے۔ سید مظفر اعجاز کے کالموں میں اکثر جگہ توجہ دلائی گئی ہے کہ ملک کی اساس کو درست کئے بغیر پاکستانی قوم سیاست، معیشت اور معاشرت کے میدانوں میں ترقی نہیں کر سکتی اور یہاں سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری رہے گا… ممتاز کالم نگار عبدالرئوف طاہر نے کہا کہ ’’قلم رو‘‘ مظفر اعجاز کے کالموں کا نہایت اعلیٰ انتخاب ہے اور اس کے آغازمیں محترم اطہر ہاشمی کا ’’بہت خوب‘‘ واقعی بہت خوب ہے۔ ’’جسارت‘‘ ایک خاندان کی طرح ہے جس کے کارکنان ایک مقصد کی خاطر باہر شیر و شکر اور محبت و یگانگت کے مثالی ماحول میں مل جل کر کام کرتے ہیں… سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد نے کہا کہ کراچی کے مشکل حالات اور شدید دبائو کے باوجود مظفر اعجاز نے جرأت و استقامت سے اپنا موقف اپنے کالموں میں بیان کیا اور ہمیشہ اپنی بات دلیل اور سلیقے سے پیش کی، خصوصاً انہوں نے ابلاغیات پر جو کالم لکھے ہیں وہ ہمارے دور کے ذرائع ابلاغ کے رویہ اور طرز عمل کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ ریاض فاروق ساہی نے کہا کہ مظفر اعجاز نے کراچی میں رہتے ہوئے ایم کیو ایم اور دوسری طاغوتی قوتوں کے دبائو کے باوجود پوری قوت سے کلمہ حق بلند کیا، وہ استقامت اور ارادے کی پختگی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کبھی اپنی نظریاتی سوچ پر آنچ نہیں آنے دی۔