تبدیل شدہ اسکرپٹ میں پیپلزپارٹی کا کردار کیا ہے؟۔

سندھی تحریر؍ سہیل سانگی
’’ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اب سیاسی کھیل میں بھی ڈانس متعارف کرادیا ہے۔ اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈمیں ایک پنجابی گیت پر بھنگڑا ڈانس کرتے ہوئے بظاہر موصوف نے سیاست میں عوامی رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ انہیں یہ ڈانس پنجاب یا سندھ کے کسی گائوں میں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے یہ رقص اقتدارکے ایوانوں کے سامنے کرنا بہتر سمجھا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈانس کرتے ہوئے وہ دو دن بعد لاہور میں علامہ طاہر القادری کے ہاں جا پہنچے۔ قبل ازیں یوں ہواکرتا تھا کہ حکومت مخالف جماعتیں لوگوں تک پہنچنے کے لیے شہر شہر جایا کرتی تھیں۔ جلسے جلوس اور ریلیوں کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ لیکن اب یہ سب کچھ نہیں کیاجاتا۔ لوگوں کو سیاسی پارٹیاں اسلام آباد بلوا رہی ہیں اور اسلام آباد پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنے سیاسی شو کا انعقاد بھی یہیں کررہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی 50ویں سالگرہ پر شہر اقتدار میں منعقدہ جلسۂ عام محض پیپلز پارٹی کی طاقت کا مظاہرہ نہیں تھا بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا۔ یہ درست ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے پہلی مرتبہ یہاں اتنا بڑا اجتماع کیا ہے، ورنہ ساڑھے چار برس تک اسلام آباد اور جی ٹی روڈ پر نواز لیگ اور تحریک انصاف ہی حاوی تھیں۔ جو سیاست ہو رہی تھی اس میں گویا پیپلز پارٹی کا کسی طرح کا کوئی کردار تھا ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنی سیاست کو زیادہ تر پارلیمنٹ تک ہی محدود کرنے کی کوشش کی۔ کئی مواقع پر راستوں پر ہونے والی سیاست کو پی پی نے واپس اسمبلی کے ایوان میں آن پہنچایا اور اس پالیسی نے زیادہ تر حکمران جماعت نواز لیگ کی مدد کی۔ جس کاآج کل آصف علی زرداری نواز شریف کو اکثر طعنہ بھی دیتے رہتے ہیں۔ بعض مواقع پر پیپلز پارٹی نے آگے آنے کی بھی کوش کی۔ تب اس پارٹی کو سندھ میں حکومت کی عدم کارکردگی اور خود پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کے سبب پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ پیپلز پارٹی نے صوبائی خود مختاری سے متعلق معاملات ضرور اٹھائے لیکن سندھ کے اندر عوام کو کوئی بھی ریلیف مہیا نہیں کرسکی۔ 2013ء کے الیکشن میں جب پیپلزپارٹی محض سندھ تک ہی محدود ہوگئی تو اس نے نواز لیگ اور وفاقی حکومت سے دوستانہ رویہ اختیار کیا۔ پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ وہ نواز لیگ کی حکومت کو گرا سکتی ہے کیوں کہ اس پارٹی کا بیس پنجاب تھا۔ پیپلز پارٹی کو یقین تھا کہ جلد یا بہ دیر نواز لیگ اور اسٹیبلشمنٹ باہم دست و گریباں ہوجائیں گے۔ وہ اس وقت کا انتظار کرتی رہی کہ نواز لیگ اپنی غلطیوں اور اپنے ہی بھاری بوجھ تلے دب جائے۔ دیر تو لگی اور ہوا بھی یوں ہی کہ بالآخر نواز لیگ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو میں آگئی۔ تحریک انصاف کے دھرنوں کے ذریعے لگاتار حملوں اور بعد میں پاناما کیس میں نواز شریف کو نا اہل قرار دیے جانے کے فیصلے، ایسی صورت حال پیدا کرڈالی۔ یہاں تک کہ خود نواز لیگ کو بطورپارٹی منظم اور متحد رکھنا مشکل ہوگیا۔ نواز شریف کی پالیسیوں نے اسٹیبلشمنٹ کو مشتعل کردیا۔ اس محاذ آرائی میں نواز لیگ کی پوزیشن کمزور پڑی۔ لیکن جمہوری عمل جاری رکھنے اور سویلین بالادستی کے نعرے نے اسے عوام میں پذیرائی بخشی۔ اگرچہ اس قدم کو پورے ملک کے جمہوریت پسند حلقوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا لیکن کیوں کہ یہ فیصلہ پنجاب اور جی ٹی روڈ پر ہونا تھا اس لیے یہاں کی قبولیت اہم تھی۔ تمام تر ٹکرائو کے باوجود نواز شریف پنجاب میں مقبول رہے۔ یوں کہا جائے کہ وہ اسلام آباد میں تو کمزور ہوئے ہیں لیکن پنجاب پر جمہوری سوچ اور فکر کا غلبہ رہا ہے۔ اس تبدیلی کو مجموعی طور پر ملک کے لیے مثبت قرار دیا گیا ہے۔ کیوں کہ اچھا فیصلہ تب اچھا سمجھا جائے گا اور تب اس پر عمل ہو پائے گا جب پنجاب اس کی حمایت کرے گا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا پنجاب میں مقبول ہونا یا پھر قیام بنگلا دیش کے بعد باقی رہے سہے پاکستان میں جمہوری نظام کا آنا اس کی دو بڑی مثالیں ہیں ۔ ایسی صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ نواز لیگ کو اور خود پنجاب میں جمہوری اور لبرل سوچ کو ابھر کر اوپر آنے سے روکے۔ فیض آباد کے دھرنے اور پھر اس کے بعد لاہور والے دھرنے کو اسی پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان دھرنوں کو جتنی ڈھیل دی گئی اور ریاست نے ان کے ساتھ جو حوصلہ افزائی پر مبنی سلوک روا رکھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کی سیاست میں مذہبی بیانیے کو مضبوط کیا جارہا ہے۔نواز شریف کیوں کہ جنرل ضیاء اور آئی جے آئی کی پیداوار تھے۔ اس لیے ان کا ووٹ بینک دائیں بازو سے واسط رکھتا رہاہے۔ ان دھرنوں کے ذریعے نواز شریف کے ووٹ بینک پر وار کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف مضطرب اور پریشان ہیں اور اس حوالے سے وہ پارٹی کے اندر بھی سخت دبائو کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
نواز لیگ حکومت دھرنے کا سامنا کرنے میں سخت الجھن کا شکار رہی۔ اس کا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو تھا۔ اس وقت حکمران جماعت سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ایسی صورت حال میں ایک خلا پیدا ہوا۔ جسے پیپلز پارٹی نے اپنی ایک نئی حکمت عملی کے توسط سے بھرنے کی سعی کی ہے۔ اس حکمت عملی کا اظہار پارٹی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پراسلام آباد میں منعقدہ جلسہ عام میں آصف زرداری نے کیا۔ اس ریلی کے دوران آصف علی زرداری نے یہ پیغام دیا کہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف گامزن سیاست کے ماحول میں کوئی لبرل آواز بھی اٹھائی جاسکتی ہے۔ اس مذہبی بیانیے کے بارے میں کوئی اور حلقہ آگے آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سابق صدر زرداری نے نواز شریف کو اپنی شکست ماننے اور قبل از وقت انتخابات کروانے کامشورہ دیا، نہ صرف یہ بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کسے خبر نگراں حکومت تک نواز لیگ حکومت میں رہ پائے یا نہیں ؟ اور یہ بھی کہ پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کے خلاف باقاعدہ مہم کا اعلان بھی کرڈالا۔ جس کا واضح مظہر دو دن بعد علامہ قادری کے ساتھ آصف علی زرداری کی ملاقات ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے سیاسی مارکیٹ میں نگران حکومت کے قیام کی باتیں ہو رہی تھیں، جس کے جواب میں آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ یہ قدم ماورائے آئین ہوگا۔ کیوں کہ آئینی طور پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو نگراں حکومت کے لیے کسی کو نامزد کرنا ہے۔ کوئی تیسرا فریق اگر یہ کرتا ہے تو وہ آئین سے ماورا بات ہوگی۔ اسی طرح سے آئین کا یہ بھی تقاضا ہے کہ نگراں حکومت صرف مقررہ میعاد میں الیکشن کروائے۔ اس سے زیادہ اس کا اور کوئی بھی مینڈیٹ نہیں ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کے تازہ موقف سے پتا چلتا ہے کہ اس نے اب اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے اور وہ کسی نئے طریقے سے بھی نگراں حکومت کے قیام کے لیے راضی ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی گزشتہ ہفتے نواز لیگ کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی اور اب وہ اس کے خلاف جا کھڑی ہوئی ہے اور نواز لیگ مخالف حلقوں کو باہم یکجا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے گزشتہ سارے اسکرپٹ نہیں چل سکے۔ عمران کا دھرنا ہو یا علامہ قادری کا دھرنا، اسٹیبلشمنٹ دفاعی پوزیشن پر چلی گئی تھی لیکن مولانا خادم حسین رضوی نے کام کردکھایا۔ ماضی کے اسکرپٹ اس لیے بھی نہیں چل پائے کہ پیپلز پارٹی سمیت تمام اہم سیاسی جماعتیں اس سے باہر تھیں۔ آصف علی زرداری کی اسلام آباد پریڈ گرائونڈ تقریر، وہاں کیا گیا رقص اور بعد ازاں علامہ طاہر القادری سے ملاقات سے یہ امر واضح ہوگیا ہے کہ اب اسکرپٹ میں بعض ترامیم کردی گئی ہیں ۔ اور پیپلز پارٹی دیگر باتوں کے علاوہ دوسرے کچھ حلقوں کی طرح نہیں چاہتی کہ سینیٹ میں نواز لیگ کواکثریت حاصل ہو۔
یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ علامہطاہر القادری، نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کی طرح کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ کیا سیاسی جماعتیں ان پر اعتماد کرسکتی ہیں ؟ یہ صحیح ہے کہ علامہ طاہر القادری ایک ایسی زبان بول رہے ہیں جس کا اپنا وجود کمزور ہے لیکن وہ پیپلز پارٹی کو ایک مذہبی چھتری فراہم کرسکتے ہیں ۔ ایک زمانے میں بے نظیر بھٹو نے بھی علامہ طاہر القادری سے معاہدہ کیا تھا تاکہ مذہبی سیاست کرنے والے حلقے انہیں مذہبی نعرہ سے اکیلا نہ کردیں، موجودہ حالات میں علامہ طاہر القادری کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے مابین پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے سیاسی درجۂ حرارت میں کچھ اس طرح سے اضافہ ہوجائے گا کہ سارے ملک کو جام کرجائے، احتجاج ہونے لگیں۔ جس کے بعد کوئی نہ کوئی سپریم کورٹ میں چلا جائے گا اور ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے قومی حکومت کا فارمولا سامنے آجائے گا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ اس سے پیشتر جنرل مشرف کو بھی رعایت دے چکی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر اسٹیبلشمنٹ کا مناسب حد تک اعتماد حاصل کرلیتی ہے تو بجٹ سے قبل کافی تبدیلیاں آسکتی ہیں ۔