ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم

احمد حاطب صدیقی
کتاب : ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم
اعلیٰ عدالتی فیصلہ
مصنف : جسٹس شوکت عزیز صدیقی
مرتب : سلیم منصور خالد
صفحات : 347
قیمت : 480روپے
کراچی کے بین الاقوامی میلۂ کتب میں شرکت کرکے ۱۴؍دسمبر ۲۰۱۷ء کو واپس اسلام آباد پہنچا تومطالعے کی میز پر ایک کتاب دھری ہوئی تھی اور ایک دعوت نامہ۔ دعوت نامہ راولپنڈی اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے کے زنجیری سلسلے کی طرف سے تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ہم اپنے تمام تعلیمی اداروں کا ایک مشترکہ سالانہ جلسہ راولپنڈی آرٹس کونسل میں منعقد کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ۱۷؍دسمبر کو منعقد ہونے والے اجلاس میں آپ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرکے طلبہ اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس سال ہم نے سالانہ اجلاس کے لیے بچوں کو جو مرکزی موضوع دیا ہے، وہ ہے: ’’ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلّم سے محبت کرتے ہیں‘‘۔دعوت نامہ پڑھ کر ’مدعو‘ سوچ میں پڑ گیا۔ بچوں سے گفتگو کے لیے یہ موضوع اچھی خاصی تیاری کا تقاضا کرتا تھا۔
کتاب برادر سلیم منصور خالد نے بھیجی تھی۔پارسل کھولا تو اندر سے نہایت دیدہ زیب، باوقار اور دل کش سرورق والی ایک پُرکشش کتاب نکل آئی۔ عنوان تھا: ’’ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلّم‘‘۔ ذیلی سرخی: ’’اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘‘۔ مصنف کانام: ’’جسٹس شوکت عزیز صدیقی‘‘۔
یہ تو ایک غیر متوقع امداد تھی۔ فوراً کتاب کا مطالعہ شروع کردیا۔
دل موہ لینے والے سرورق پر ،’’برعظیم پاک و ہند میں آٹھ سو سال سے قائم، مسلمانوں کی پہلی سدا بہار تعمیر قطب مینار دہلی‘‘ کے ایک حصے کی، بہت قریب سے لی گئی تصویراپنی خطاطی کی بہار دکھا رہی ہے۔کتاب کی لوح چمکتے ہوئے حروف میں ’’خط نستعلیق شکستہ‘‘سے مزین ہے۔ یہ کتاب مؤقر طباعتی، اشاعتی اور دعوتی ادارے ’’منشورات‘‘ نے شایع کی ہے۔یہ ادارہ عالم اسلام کے معروف دانش ور خرم مراد مرحوم نے پروفیسر خورشید احمد اور انصار احمد علوی کے تعاون سے ۱۹۹۳ء میں قائم کیا تھا۔خرم مراد مرحوم کے انتقال (۱۹۹۶ء) کے بعد سے پروفیسر مسلم سجاد مرحوم اپنی وفات (۲۰۱۶ء) تک اس ادارے کے نگراں رہے۔ اب یہ ذمے داری برادر سلیم منصور خالد کو سونپ دی گئی ہے۔ کتاب نہایت عمدہ کاغذ پر بہت صاف ستھری طباعت سے شایع ہوئی ہے۔کُل صفحات (بشمول اِشاریہ) ۳۴۷ اور قیمت =/۴۸۰ روپے۔
اس کتاب کے مُرتِّب خود جناب سلیم منصور خالد ہیں۔’’گزارشات‘‘ کے عنوان سے اپنی تعارُفی تحریر کے بعد انھوں نے کتاب کو تین عنوانات کے تحت تین حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ پہلے حصے کا عنوان ہے: ’’اعتراف‘‘۔ اس حصے میں چار تحاریر ہیں۔
۱۔ حرفِ سپاس: از چیف جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری
۲۔ تقریظ: از مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
۳۔ تاریخی فیصلہ، منفرد کتاب: از جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان
۴۔ حرفِ سعادت: از عرفان صدیقی
دوسرے حصے کا عنوان ہے: ’’فیصلہ‘‘۔ اس حصے میں اُس تاریخی فیصلے کا مکمل متن مع تفاصیل شامل کیا گیا ہے، جو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ۳۱؍مارچ ۲۰۱۷ء کو سنایا تھا۔ سماجی ذرایع ابلاغ پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ اقدس کے خلاف مغلظات سے پُر ویب سائٹس ’’بھینسا‘‘، ’’مچھر‘‘، ’’موچی‘‘ اور اسی طرح کے دیگر صفحات اور IDsپر گستاخانہ الفاظ، خاکوں اور وڈیوز کے ذریعے سے توہین رسالت، توہین صحابہ ، توہین امہات المومنین اور توہین کتاب اللہ حتیٰ کہ اللہ کی ذات کی توہین کے مرتکب مجرموں کے خلاف سنایا جانے والا یہ فیصلہ ایسا جامع و مانع فیصلہ ہے کہ اب ان شاء اللہ کم ازکم پاکستان میں کسی کو ایسی گھناؤنی، غلیظ اوربے ہودہ مجرمانہ حرکتوں کے ارتکاب کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔ تیسرے حصے کا عنوان ہے: ’’بنیاد و تائید‘‘۔ اس حصے میں سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تقریر جو انھوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے آئینی فیصلے کے بعد ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی میں (انگریزی زبان میں) کی تھی، شامل کر دی گئی ہے۔ اس کا عنوان ہے:’’یہ ایک مذہبی فیصلہ ہے اور سیکولر بھی‘‘۔بھٹو صاحب کی اس تاریخی تقریر کے ساتھ ساتھ ممتاز اہل علم و دانش کے اکیس اخباری مضامین بھی اِس حصے میں شامل کیے گئے ہیں۔مضمون نگاروں کے اسمائے گرامی پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے: مولانا مفتی منیب الرحمٰن (دو تحریریں)، علامہ سید ساجد نقوی، آغا سید حسین مقدسی، الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر محسن نقوی، انصار عباسی (دو تحریریں)، مولانا زاہد الراشدی، ہارون الرشید، اوریا مقبول جان، جاوید صدیق، خورشید احمد ندیم، جاوید چودھری، حفیظ اللہ خان نیازی، بابر اعوان، محمد اعجاز الحق، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، ارشاد بھٹی، اسلم خان اور اسراراحمد کسانہ۔ کتاب کے آخر میں ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر کا اصل انگریزی متن، ناموسِ رسالت کے موضوع پراُردو میں شایع ہونے والی کتب کے حوالے اور کتاب کا اِشاریہ شامل ہے۔
اپنی ’’گزارشات‘‘ میں جناب سلیم منصور خالد، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اس تاریخی فیصلے کی بابت، لکھتے ہیں:
’’یہ فیصلہ ایمانی غیرت، قانونی گرفت اور عملی وقار کی زندہ مثال ہے۔ جسٹس صدیقی صاحب کے اس فیصلے سے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی خوشبو پھوٹتی ہے۔اس فیصلے میں وہ حقیقت بیان کرتے ہیں، گمراہوں کو خبردار کرتے ہیں، انتظامیہ کو ہوشیار رہنے کی ہدایت کرتے ہیں اور خود قانون ہاتھ میں نہ لینے کا درس دُہراتے ہوئے راست فکری اور جرأت کا کوہِ گراں دکھائی دیتے ہیں‘‘۔ (ص:۹)
وزیر اعظم پاکستان کے خصوصی مشیر جناب عرفان صدیقی کا ’’حرفِ سعادت‘‘ نہایت دلچسپ چیز ہے۔اپنی تحریر میں وہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’شوکت عزیز کو ’مسٹر جسٹس‘ کے پُر تکلف سابقے کے ساتھ پکارنا مجھے کچھ کچھ اجنبی سا لگتا ہے۔اس کی کئی وجوہ ہیں۔ شوکت میرا چھوٹا بھائی ہے، ماموں زاد بھائی۔ ماموں بھی وہ جنھوں نے میری بلکہ ہم سب بہن بھائیوں کی پرورش و تعلیم میں اتنی ہی دلچسپی لی، جتنی شوکت اور اپنے بچوں کے معاملے میں لی۔ اللہ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ بلاشبہ وہ پورے خاندان پر ایک مہربان سائبان کی طرح تھے۔سو عملاً میرے اور شوکت کے بہن بھائی ایک ہی گھر بار میں پلے بڑھے۔شوکت سے میرا دوسرا رشتہ یہ ہے کہ وہ اسکول کے دور میں میرا شاگرد بھی رہا ہے۔اور شوکت سے میرا سب سے محترم رشتہ یہ ہے کہ برسوں پر محیط ہمارے باہمی ربط و ضبط اور اُنس و محبت میں کبھی خلا نہیں آیا۔بہت کم گھرانوں اور بہت کم لوگوں میں اب ایسی روایتیں زندہ رہ گئی ہیں‘‘۔ (ص ص:۲۲۔۲۳)
اپنے مضمون میں جناب عرفان صدیقی نے دو عاشقانِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلّم) کی داستان بہت دِل کش اُسلوب میں تحریر کی ہے۔ان میں سے ایک ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے محمد رمضان عطائی تھے، جنھیں علامہ اقبالؒنے (تحریری طور پر) اپنی ایک رُباعی بخش دی تھی۔دوسری داستان بلریا گنج (اعظم گڑھ، اُتر پردیش، غیرمنقسم ہندوستان) میں پیدا ہونے والے ایک برہمن بانکے لال کی ہے۔ یہ برہمن زادہ اب پورے عالمِ اسلام میں پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی کے نام سے مشہور ہے۔
جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا لکھا ہوا عدالتی فیصلہ بجائے خود ایک تحقیقی مقالہ اور مبسوط کتاب ہے۔جسٹس صدیقی اپنے فیصلے کے پیرا نمبر ۲ میں لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ عدالت ہٰذا کے روبرو ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کی تفصیلات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ آنکھوں کی اشک باری تو ایک فطری تقاضا تھا، میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل و دماغ پر گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔قانون کے طلبہ کی نظر میں ایک جج کی ایسی کیفیت کچھ نرالی تصور کی جاتی ہے اور یہ خدشہ رہتا ہے کہ جذبات میں شاید انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ لیکن یہ مقدمہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ذرا مختلف ہے،کیوں کہ اس مقدمے میں عدالت کو کسی فریق کے ذاتی جھگڑے یا حق کا تصفیہ نہیں کرنا، بلکہ اپنے نظر ثانی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے، ریاستِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقا، سلامتی اور تحفظ کے ضمن میں اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے‘‘۔ (ص ص: ۴۸۔۴۹)
مقدمے کی ہر سماعت کی مفصل رُوداد کے ساتھ ساتھ، فیصلے میں عدالت کے حکم پر کیے جانے والے سرکاری اقدامات کی تفصیل (باتصویر) بھی پیش کی گئی ہے۔جناب جسٹس نے عدالتی فیصلے میں اپنا یہ مشاہدہ بھی درج کیا ہے کہ:
’’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کو بطور سربراہ حکومت اس مواد سے مکمل آگاہ کیا جاتا، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاحال یہ مواد وزیراعظم کو نہیں پہنچا، حالاں کہ اس سنگین مواد کی وجہ سے پوری قوم کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور قوم، انتظامیہ کے عملی جمود کے باعث خود کو بے یار و مددگار پاتی ہے‘‘۔ (ص ص:۵۴۔۵۵)
فیصلے میں نہ صرف قرآنی آیات، احادیثِ نبوی ،کتب فقہ اور کتب سیرت وغیرہ کے حوالے دیے گئے ہیں، بلکہ کلامِ منظوم سے بھی مثالیں دی گئی ہیں۔ نیز دنیاکے مختلف ممالک کے مقدمات میں ہونے والے فیصلوںکے نظائر بھی پیش کیے گئے ہیں۔جناب سلیم منصور خالد نے فیصلے کے اندر دیے جانے والے عربی اور انگریزی متون کے تراجم اور حوالہ جات کی صحت پر خصوصی توجہ دی ہے۔ جناب سلیم منصور خالد لکھتے ہیںکہ:’’فیصلے میں مذکور اکثر افراد کی تاریخ انتقال درج کر دی ہے، تاکہ قاری ان کے زمانۂ حیات کا اندازہ کر سکے۔ایسی تمام چیزوں کو قلابین [] میں درج کیا گیا ہے‘‘۔(ص:۹)
توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بھی فیصلے کے (پیرا: ۲۴کے) اندر یہ ہدایت کی گئی ہے:
’’قانون کا غلط استعمال روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ توہین رسالت کالگایا گیا الزام غلط ثابت ہونے پر، الزام لگانے والے کو وہ سزا دی جائے، جو کہ توہین رسالت کے قانون کی صورت میں موجود ہے۔ اس لیے یہ معاملہ مقننہ کے پاس لے کر جانا ضروری ہے، تاکہ ضروری قانون سازی کی جا سکے‘‘۔ (ص:۲۱۳)
اس کتاب میں ایک قیمتی عدالتی دستاویز کو عدالتی فیصلوں کی کتاب سے باہر بھی عوام النّاس کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔کتاب میں اس اہم عدالتی فیصلے کی اہمیت سے متعلق نہ صرف معاصر قانونی ماہرین کی آرا جمع کی گئی ہیں، بلکہ عصر حاضر کے دانشوروں کے تبصرے اور تجزیے بھی عوامی رہنمائی کی غرض سے شامل کر دیے گئے ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ ہر صاحبِ ایمان یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے محبت کا دعویٰ رکھنے والے ہر مسلمان کو کرنا چاہیے اور اسے آنے والی نسلوں تک منتقل بھی کرنا چاہیے تاکہ ناموسِ رسالت ؐ کے تحفظ کے لیے مسلمانوں نے جو حصار قائم رکھا ہے وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہے۔