نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت

مولانا عبدالمالک
حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔(متفق علیہ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت جزوِ ایمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کی مظہر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عبدیت میں تمام مخلوق سے بلندوبالا ہیں اور جِنّ و انس اور کائنات پر آپؐ کی نوازشیں بھی سب سے بڑھ کر ہیں۔ آپؐ کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کا دین ملا جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمۃ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ہے۔ آپؐ سے توحید و سنت کا درس ملا۔ آپؐ سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام ملا۔ آپؐ نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا راستہ بتلایا۔ آپؐ نے انسانوں کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کے روشن راستے پر ڈالا۔ دنیا لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا شکار تھی، لوگوں کے لیے دنیا جہنم بن چکی تھی، لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ بھوک، ننگ اور ذہنی پستی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ ، ’’اے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو‘‘۔ قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا ، ’’لا الٰہ الا اللہ کہو، کامیاب ہوجاؤ گے‘‘۔آپؐ نے یہ نسخۂ کیمیا انسانوں کے سامنے پیش کیا۔ لوگوں نے اس پر آمنا وصدقنا کہا تو ان کو زندگی مل گئی۔ وہ امن و سکون اور راحت سے سرفراز ہوئے۔ وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے، ایک دوسرے کے غم گسار اور مددگار ہوگئے۔ ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت و آبرو کے محافظ بن گئے۔ ایک دوسرے کے لیے ایثار کرنے والے بن گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک ہرلحاظ سے محبت کی مستحق ہے، اور محب اپنے محبوب کی مرضی پورا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعوری محبت ہو تو مومن آپؐ سے محبت کے ساتھ ساتھ آپؐ کی اطاعت بھی کرے گا۔ آپؐ کے دین سے بھی محبت کرے گا، آپؐ کے مقصدِ بعثت سے بھی محبت کرے گا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ آپؐ کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا(التوبہ ۹:۳۳)’’اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے کہ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعوری محبت رکھنے والا اسلامی احکام کا پابند ہوگا، فرائض و واجبات اور سنن کو ادا کرنے والا اور منکرات اور مکروہات سے بچنے والا ہوگا۔ اس کی زندگی ایک پاک باز انسان کی زندگی ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے داروں کو سوچنا چاہیے کہ آیا وہ آپؐ کی محبت کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں؟ کیا قرآن و سنت کے مطابق دن رات بسر کر رہے ہیں؟ کیا اس مشن کے لیے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں تکلیفیں اُٹھائیں، مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی، بدرواُحد، اَحزاب اور حنین اور تبوک کے معرکوں میں جان کی بازی لگائی، اس کے لیے وہ پُرجوش اور پُرعزم ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں؟ کیا اپنے آپ کو مکہ کی گلیوں، طائف کی وادیوں اور بدر و اُحد اور تبوک کے پُرمشقت راستوں میں پاتے ہیں؟ کیا اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ سود، جوے، شراب، فحاشی و عریانی اور دین کی تذلیل کے خلاف جہاد کر رہے ہیں؟ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے منظم ہو رہے ہیں؟ یہ ہمارے سوچنے کی باتیں ہیں۔ اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کر رہے ہیں تو اس پر شکر بجا لانا چاہیے اور اتباع میں آگے بڑھنا چاہیے اور اگر کچھ کمی ہے تو اس کا ازالہ کرنا چاہیے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی فکر کرنا چاہیے۔ اور اپنے ملک کو اسلامی بنانے کے لیے بھرپور جدوجہد کرنا چاہیے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا کرسکتے ہیں اور آپؐ کے احسانات کی قدر اور شکرانہ ادا کرسکتے ہیں۔