سیاسی بحران اور اصلاحات کی سیاست کا المیہ

کیا پاکستان میں اصلاحات کی سیاست کا ایجنڈا ایک مضبوط شکل میں طاقت پکڑ سکے گا؟ یہ ایسا بنیادی نوعیت کا سوال ہے جو ہر سطح پر اٹھایا جاتا ہے،پاکستان کو اپنے نظام میں اصلاحات کی اس وقت جتنی ضرورت ہے، ماضی میں نہ تھی۔ پاکستان میں عوام تبدیلی اور اصلاحات کے حوالے سے بڑی امید رکھتے ہیں۔
کسی بھی جمہوریت میں تبدیلیوں کا عمل اصلاحات کی سیاست سے جڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ سیاسی حکومتیں جمہوریت کو بنیاد بناکر نہ صرف سیاست کو مؤثر اور شفاف بناتی ہیں بلکہ معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلیوں کو سامنے لاتی ہیں۔ کیونکہ جمہوری معاشروں میں کوئی بڑے انقلاب نہیں آتے، بلکہ انقلاب کے بجائے سیاسی طبقات اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھتے ہیں، کیونکہ جمہوریت میں عمومی طور پر اصلاحات کا عمل کلید ی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اصلاحا ت کی سیاست کو طاقت فراہم نہیں کرسکے۔ کیونکہ اگر اصلاحات کی سیاست میں عوام اہم نہ ہوں اور اُن کی جگہ افراد یا خاندانوں کے مفادات بن جائیں تو پھر اصلاحات کے ایجنڈے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے! یہی وجہ ہے کہ عوام، ریاست، حکومت اور اس کے اداروں کے درمیان ایک خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ یہ خلیج پر ملکی مفادات کے بھی خلاف ہے، اور اس عمل سے ایک مضبوط ریاست کا تصور بھی ممکن نہیں ہوگا۔
ایسا نہیں کہ یہاں اصلاحات کا عمل نہیں ہوتا، یہ عمل کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے کئی اہم مسائل ہیں جو ہمیں کسی بڑی کامیابی سے روکنے کا سبب بنتے ہے۔ اوّل: اصلاحات میں عوام کو بنیاد بنانے کے بجائے ایک مخصوص طبقے کے مفادات کو تقویت دی جاتی ہے۔ دوئم: اصلاحات داخلی اور خارجی دبائو پر کر تو دی جاتی ہیں لیکن ان پر ہماری ریاست، حکومت اور اداروں کی سیاسی، انتظامی اور قانونی کمٹمنٹ کمزور ہوتی ہے۔ سوئم: اصلاحات کو باقاعدہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس کو بنیاد بنا کر عام آدمی کا ہر سطح پر استحصال کیا جاسکے۔ چہارم: جو اصلاحات ہوتی ہیں ان پر عملدرآمد کے کمزور نظام، نگرانی کے فقدان اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے حقیقی ترقی کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ پنجم: کرپشن، بدعنوانی اور ادارہ جاتی کمزوری کا عمل بھی اصلاحات میں وہ نتائج نہیں دے سکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے سیاسی نظام میں فریقین نے جو گندا کھیل کھیلا ہے اور اس میں سیاسی اور فوجی دونوں شامل ہیں، اس سے نظام کی بہتری کی بات بہت پیچھے چلی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک بڑی مافیا نے ہماری اصلاحات اور جمہوریت کو حقیقی معنوں میں اپنی جکڑ میں لے لیا ہے، جو تبدیلی کے عمل میں رکاوٹ بن گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اصلاحات کا عمل محض سیاسی حکومتوں کی ذمہ داری ہے؟ یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔ کیونکہ یہاں یہ المیہ محض سیاست دانوں یا سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہماری سیاست اور ریاست سے متعلقہ اداروں اور افراد کی ناکامی کا ہے۔ اصلاحات کا مطلب محض اصلاحات کرنا یا اس کا اعلان کرنا، قانون سازی کرنا، پالیسی بنانا ہی نہیں ہوتا، بلکہ اصل مسئلہ اس کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کا نظام بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا مجموعی جائزہ لیں تو آپ کو سیاسی، قانونی، معاشی، انتظامی اور ادارہ جاتی سطح پر بے تحاشا قانون سازی اور پالیسیوں کا جم غفیر نظر آئے گا، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم بطور ریاست ان تمام تر اقدامات کے نتائج کو اپنے حق میں کرنے میں ناکام ہوئے؟ عمومی طور پر ہمارا ملک Over Legislative and Policy پر مبنی ملک ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ قانون سازی اور پالیسیاں بنانے سے ملک کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا علاج ممکن ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیونکہ کوئی بھی فریق براہِ راست ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جو ہماری ترقی اور شفاف نظام میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جو بھی اصلاحات کی سیاست پر زور دیتا ہے اس سے اُس کی کیا مراد ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر ہم عام اور متوسط یا محروم طبقات کو پسِ پشت ڈال کر اپنے لیے یا اپنے مخصوص طبقات کے مفادات کو تقویت دینے کے لیے اصلاحات کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم بطور قوم بداعتمادی کا شکار ہیں اور کوئی بھی فریق دوسرے فریق پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایسی بداعتمادی کی فضا میں لوگ کیونکر اصلاحات کے عمل میں اپنی ملکیت کا احساس پیدا کریں گے! کیونکہ یہ بات سچ ہے کہ لوگوں کو اصلاحات کا عمل طاقت دیتا ہے، لیکن یہ طاقت بہتر نتائج کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ عمومی طور پر اصلاحات کے عمل میں سب سے اہم پہلو عوام ہوتے ہیں۔ اگر عوام کی حالت نہ بدلے اور ان پر ایک بڑی، منظم اور شفاف سرمایہ کاری نہ کی جائے تو پھر انہیں استحصال پر مبنی سیاست کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
جب ہم اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو اس میں دو پہلو اہم ہوتے ہیں۔ اول: لوگوں کی بنیادی ضروریات، جن میں تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، ماحول، انصاف، نقل وحمل، وسائل کی منصفانہ تقسیم شامل ہیں۔ دوئم: ادارہ جاتی عمل میں اصلاحات کی مدد سے اداروں میں شفافیت، لوگوں تک رسائی کو آسان بنانا، پولیس، بیوروکریسی، عدالتی نظام کو مؤثر بنانا۔ لیکن ان دونوں معاملات کا اگر دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو ہمیں نتائج کی صورت میں زیادہ مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں اصلاحات کے عمل میں نہ تو لوگ مضبوط ہوسکے اور نہ ہی ادارے مضبوط بن سکے۔ یاد رہے کہ اداروں کی مضبوطی کا عمل براہِ راست لوگوں کی طاقت سے جڑا ہوتا ہے۔ اگر ادارے کمزور ہوں گے یا ان میں سیاسی مداخلتیں یا اقربا پروری ہوگی تو اس کا بڑا نقصان کمزور لوگوں کی مزید بدحالی کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا۔
یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ ہم ابھی تک اصلاحات میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکے؟ جب ہم اداروں اور نظام کو قانون کی حکمرانی کے بجائے افراد کے تابع بناکر چلائیں گے تو اچھی اصلاحات بھی سوائے بربادی کے کچھ نہیں دے سکیں گی۔ پاکستان میں لوگوں کو فوجی نظام، آمریت اور بادشاہت کے مقابلے میں جمہوری نظام سے زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں، کیونکہ جمہوری نظام لوگوں کو ترقی کے زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن جو نظام جمہوریت کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے اُس سے لوگ نالاں ہیں، کیونکہ اس نظام میں عام لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں، اور وہ اپنے آپ کو اس نام نہاد نظام میں لاتعلق سمجھتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا جو سیاسی نظام قومی، صوبائی، سینیٹ اور مقامی نمائندوں پر مشتمل ہے اور جس نظام کو وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں قیادت فراہم کرتی ہیں، ان کی ترجیحات میں اصلاحات اہم نہیں۔ یہ سب لوگ ترقیاتی منصوبوں کو بنیاد بناکر فنڈ کے حصول کی سیاست کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر قانون سازی، پالیسی سازی اور نظام کو مؤثر اور شفاف بنانا ان کی اس نام نہاد جمہوری سیاست کا حصہ نہیں۔ یہ لوگ محض ترقیاتی بجٹ کی سیاست کرتے ہیں۔ جب سب وفاقی، صوبائی اور مقامی ادارے محض بجٹ کی سیاست کریں گے تو اس سے اداروں میں ٹکرائو پیدا ہوگا اور وہ ایک دوسرے کے دائرۂ کار سے باہر نکل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ قومی اصلاحات توکجا خود اپنی سیاسی جماعتوں میں بھی وہ تبدیلی نہیں لاسکے جو جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ سیاسی اور فوجی نظام ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست کو بنیاد بناکر آگے بڑھے، اور کہا جائے کہ ناکامی کے ذمہ دار ہم نہیں بلکہ دوسرا فریق ہے۔ اپنی داخلی اور خارجی ناکامیوں کو قبول کرنے کا رجحان بھی ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں، کسی بھی معاشرے میں اپنی پالیسیوں کی بنیاد پر اصلاحات کے ایجنڈے کو کمزور کیا جاتا ہے تو اس سے سیاسی نظام میں ایک بڑا خلا پیدا ہوتا ہے۔ اس خلا کا فائدہ پٖھر غیر جمہوری طاقتیں اٹھاتی ہیں۔ غیر جمہوری قوتوں پر ضرور الزامات لگنے چاہئیں، لیکن خود جمہوری قوتوں کو بھی اپنا احتساب کرنا ہوگا کہ وہ کیوں اصلاحات کی سیاست میں ناکام ہوئیں؟ ہماری ناکامی کی ایک وجہ وہ اہلِ علم اور اہلِ دانش طبقہ بھی ہے جو اصلاحات کی سیاست کو مضبوط بنانے کے بجائے طاقت ور طبقات کی سیاست کا حصہ بن کر اُن کے مفادات کو تقویت دے کر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتا ہے۔
یاد رکھا جائے کہ اگر ملک میں اصلاحات اور ان پر عملدرآمد کی سیاست کو طاقت فراہم نہیں کی گئی تو ریاست لوگوں میں اپنی اہمیت کھودے گی اور ہمیں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سوائے رسوائی کے کچھ نہیں ملے گا۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ تمام فریق سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور سمجھیں کہ ہم جس جانب جارہے ہیں وہاں سے ہمیں سوائے بربادی کے کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی قیادتیں یہ فہم رکھتی ہیں کہ اس وقت ان کی اصل ضرورت کیا ہے؟ اور تبدیلی کا عمل ان سے کیا توقعات رکھتا ہے؟ عمومی طور پر ہمیں اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔یہی وہ مایوسی ہے جو اس وقت پاکستان کی سیاست پر غالب ہے، اور اس کو توڑے بغیر ہم اپنی اصلاح اور اصلاحات کے عمل میں عملاً کچھ نہیں کرسکیں گے۔