عبدالصمد خان اچکزئی کی 44ویں برسی

’’پاکستان کے سب سے پاپولر، اور پنجاب کے سب سے ہردلعزیز لیڈر کی حیثیت سے نوازشریف یہ کہتے ہیں کہ میں یہ عَلم اُٹھا کر آیا ہوں کہ پارلیمان کی بادشاہی، آئین اور قانون کی بالادستی ہوگی۔ جو پشتون اُن (میاں نوازشریف) کا ساتھ نہیں دے گا وہ بے غیرت ہے۔‘‘
یہ الفاظ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے چیئرمین، رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی کے ہیں جو انہوں نے 2 دسمبر کو کوئٹہ میں اپنے والد عبدالصمد خان اچکزئی کی 44 ویں برسی پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ادا کیے۔ جیسا کہ ہم گزشتہ شمارے میں بھی لکھ چکے ہیں کہ اس عوامی اجتماع میں میاں نوازشریف خصوصی دعوت پر شریک ہوئے تھے اور تقریر بھی کی تھی۔ جلسے میں مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنا حصہ بقدرِ جُثہ ڈال رکھا تھا۔ لفظ ’’بے غیرت‘‘ کی ادائیگی محمود خان اچکزئی کے گلے پڑ گئی ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، خلیجی ممالک اور جہاں جہاں اُن کی تقریر کا یہ حصہ دیکھا یا سنا گیا، وہاں سے چند ہی لمحوں میں شدید ردعمل کا اظہار بھی ہوا۔ یہ زمانہ سوشل میڈیا جیسے آزاد و غیر سنجیدہ فورم کا ہے، اس فورم کے ذریعے ہر شخص کے الفاظ آن کی آن میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس حملے کے بعد محمود خان اچکزئی اور اُن کی جماعت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی نے اس بیان پر خفگی کا اظہار کیا۔ اس ذیل میں لوگوں نے مغلظات بھی بکیں، بڑے عجیب اور نازیبا الفاظ بھی ادا ہوئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ گالم گلوچ اور بُرے القابات بالخصوص کسی قومی و سیاسی رہنما کے بارے میں، مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کو زیب نہیں دیتے، البتہ اختلافِ رائے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ محمود خان اچکزئی پر تنقید ہونی چاہیے تھی مگر اخلاق و تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ محمود خان اچکزئی کے ان الفاظ سے ہمیں بھی اختلاف ہے، ان کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، کیونکہ ہر شخص سیاسی فیصلہ اپنے فہم و ادراک کے مطابق کرتا ہے۔ لہٰذا ہونا یہ چاہیے تھا کہ پشتون عوام سے اپیل کی جاتی کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی کے لیے میاں نوازشریف کا ساتھ دیں۔ یقینا پارلیمان کی حکمرانی، آئین و قانون کی بالادستی ہر چیز پر مقدم ہے، اس کے خلاف کوئی بھی اقدام ناروا ہے۔ آمریت جمہوریت کی ضد ہے۔ غیر جمہوری حکومتوں اور رویوں سے ملک کو نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے، سیاست و سیاسی نظام آلودہ ہوا ہے۔ بلاشبہ ایسی کسی کوشش و اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی جو جمہور کی رائے و منشاکے خلاف ہو۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت پارلیمان کی بادشاہی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے معیار پر پورا اُترتی ہے؟ میرے خیال سے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا پھر تحریک انصاف… کسی نے بھی اس ضمن میں اپنا فریضہ کماحقہٗ ادا نہیں کیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتیں اور شخصیات کیا کیا گل کھلا رہی ہیں۔ اس بارے میں بلوچستان کی حکومت کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات و امور میں کتنی شفاف اور کہاں تک آزاد ہے؟
محمود خان اچکزئی نے اس جلسے میں آئی جے آئی کے قیام کے دنوں میں اس کے قائدین کی کوئٹہ آمد کے موقع پر کالی جھنڈیوں سے استقبال کی وضاحت بھی پیش کی ہے، کہ تب اور آج کے نوازشریف میں بڑا فرق ہے۔ گویا آئی جے آئی خفیہ اداروں کا بنایا ہوا انتخابی اتحاد تھا۔ یہ اتحاد یقینا مشتبہ تھا، مگر اس میں شامل دوسری جماعتوں کی نیت، آئین و جمہوریت پسندی پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ کیا پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے افغانستان کے بارے میں جنرل پرویزمشرف کی پالیسیوں کی امریکی حمایت نہیں کی؟ جس نے پاکستان کو افغانستان کے خلاف جنگ کا اتحادی بنایا اور ملک کے ہوائی اڈے امریکیوں کے حوالے کردیے، ہزاروں حملے افغانوں پر پاکستان کی سرزمین سے ہوئے اور افغان کٹتے اور مرتے رہے۔ جب عوامی نیشنل پارٹی میاں نوازشریف کے ساتھ اتحاد میں تھی تب پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے ان کے اس فیصلے کو پشتون دشمنی کہہ ڈالا تھا۔ مجھے وہ نعرہ یاد ہے کہ جب اُن دنوں ایک احتجاجی جلوس میں ’’د پنجاب سرہ یاری، د پشتون سہ بیزاری‘‘ یعنی پنجاب سے یاری اور پشتون سے بیزاری کا نعرہ لگایا بلند کیا گیا تھا۔ پنجابی سامراج و استعمار کا نعرہ ویسے بھی ان پشتون و بلوچ جماعتوں کے ذریعے بڑا معروف بن چکا ہے۔ ان نعروں کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ بلوچستان کے درو دیوار صوبائی و نسلی تعصبات کے الفاظ سے رنگین تھے۔ 1970ء کی دہائی میں بلوچ قوم پرست تحریک کے ذریعے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نکالنے کی مہم بھی شروع کی گئی تھی۔ ایسے رویّے پشتون قوم پرستوں میں بھی بدرجہا پائے جاتے تھے۔ 1958ء کے مارشل لا میں عبدالصمد خان اچکزئی گرفتار ہوئے، جو 1968ء میں رہا کیے گئے۔ یعنی ایک لمبا عرصہ وہ پابندِ سلاسل رہے۔ رہائی کے بعد بذریعہ طیارہ کوئٹہ پہنچے،جہاں ایئرپورٹ پر ان کا شاندار استقبال ہوا۔ عبدالصمد خان اچکزئی جلوس کی شکل میں شہر لائے گئے۔ شرکاء شہر میں ’’پنجابی سامراج مُردہ باد‘‘ اور ’’پنجابیو بلوچستان سے نکل جائو‘‘کے نعرے لگاتے رہے۔ غرضیکہ سیاست میں کوئی کسی بھی وقت کسی بھی سیاسی جماعت سے انتخابی و سیاسی اتحاد کرسکتا ہے، اور ایسا ہونا بھی چاہیے، تاہم ایسا نہ ہو کہ جب دوستی ہو تو دنیا جہاں کی خوبیاں دوست میں ڈھونڈی جائیں، اور دوری ہو تو اُس سے برا کوئی نہ ہو۔ سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ساتھ کام کیا ہے اور ان کے اختلافات بھی ڈھکے چھپے نہیں۔ جیکب آباد میں ہونے والی تین روزہ (27،28،29 دسمبر 1932ء) کُل ہند بلوچ کانفرنس کی صدارت عبدالصمد خان اچکزئی نے کی تھی۔ اس کانفرنس کی صدارت خیرپور کے حاکم میر علی نواز خان تالپور کو کرنی تھی۔ وہ بوجۂ علالت نہ آسکے، یوں یہ ذمہ داری عبدالصمد خان اچکزئی کو دی گئی۔ عبدالصمد خان اچکزئی 1933ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ اُس وقت علامہ محمد اقبال ؒ اس کانفرنس کے صدر تھے۔ 1938ء میں انجمن وطن کے نام سے الگ جماعت قائم کی۔ اس جماعت کا مطالبہ ہندوستان میں قومی و لسانی بنیادوں پر وحدتوں کا قیام تھا۔ اور ’’ورورپشتون‘‘ کے نام سے بھی عبدالصمد خان اچکزئی نے سیاسی تحریک چلائی۔ ان کی قیدو بند کا دورانیہ تقریباً بائیس سال ہے۔ ون یونٹ کے خلاف نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے مؤثر تحریک چلی۔ اس تحریک کے سرکردہ رہنمائوں میں عبدالصمد خان اچکزئی شامل تھے۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبے کے پشتون آبادی والے علاقے بلوچستان میں مدغم کردیے گئے۔ یہ فیصلہ عبدالولی خان کی رضا و مرضی سے ہوا، جس پر عبدالصمد خان اچکزئی شدید برہم ہوئے۔ وہ الگ پشتون صوبے یا وحدت کے خواہش مند تھے، کہ بلوچستان کے پشتون علاقے یعنی برٹش بلوچستان اور صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) پر مشتمل پر ایک صوبہ بنایا جائے۔ یہاں سے عبدالصمد خان اچکزئی کا بلوچ قوم پرستوں اور خان عبدالغفار خان کے خاندان سے سیاسی، فکری اور ترجیحات کا اختلاف پیدا ہوا۔ اس طرح انہوں نے پشتون خوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے اپنی الگ جماعت بنائی۔ میں ذاتی طور پر عبدالصمد خان اچکزئی کا مطالبہ درست سمجھتا ہوں جس کی تائید آج خود عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کے اس اعلان سے بھی ہوئی ہے کہ فاٹا کے خیبر پختون خوا سے انضمام کے بعد وہ بلوچستان کے پشتون حصوں کو بھی خیبر پختون خوا میں شامل یا ضم کرنے کی تحریک چلائیں گے۔ بلوچ سیاسی جماعتیں بھی گاہے گاہے الگ پشتون صوبے کے قیام کی حمایت کرتی رہتی ہیں، مگر وہ کوئٹہ کو اس وحدت کا حصہ نہیں سمجھتیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئٹہ کو پشتون وحدت سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ عبدالغفار خان کانگریس میں باضابطہ طور پر شامل ہوگئے تھے، البتہ عبدالصمد خان اچکزئی کانگریس سے فکری اشتراکِ عمل رکھتے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی یعنی نیپ کی بھی انڈین نیشنل کانگریس سے سیاسی ہم آہنگی تھی۔اس تعلق کی بنیاد پر عبدالغفار خان کے لیے’’ سرحدی گاندھی‘‘ اور عبدالصمد خان اچکزئی کے لیے’’بلوچی گاندھی‘‘کے القابات وضع کیے گئے ہیں۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی کے ’’بے غیرت‘‘ والے الفاظ قطعی نامناسب ہیں۔ اور وہ حلقے و افراد جنہوں نے بے لگام ہوکر دُشنام طرازی کی، ان کا فعل اور حرکت بھی قابلِ مذمت و نفرت ہے۔