وکلا برادری کا شمار ملک کے باشعور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات میں ہوتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا تعلق بھی اس برادری سے تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کے لیے وکلا برادری نے ہمیشہ فعال کردار ادا کیا ہے۔ وطنِ عزیز آج جن حالات سے دوچار ہے اس پر غور و فکر اور مؤثر لائحہ عمل کی تلاش کے ضمن میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہفتہ 9 دسمبر کو جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال ہال میں ایک بھرپور کانفرنس کا اہتمام کیا، جس میں وکلا نمائندوں کے علاوہ اہم سیاسی جماعتوںکے رہنمائوں نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ اس کانفرنس کی نمایاں بات یہی تھی کہ اس میں شریک تمام مکاتبِ فکر کے سیاسی قائدین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک میں جمہوریت کے سوا کوئی دوسرا راستہ قابلِ قبول نہیں، حکمرانی کا حق صرف اور صرف عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو ہے، اور تمام سیاسی قوتیں اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کی کسی بھی کوشش میں غیر سیاسی قوتوں سے تعاون نہیں کیا جائے گا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ کرپشن کے نظام کا خاتمہ کیے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا، جو رکن اسمبلی نہیں اُسے سیاسی جماعت کا سربراہ بنانا لمحۂ فکریہ ہے، جمہوریت میں عدم برداشت کے رویوں کا پیدا ہونا مثبت چیز نہیں، اس وقت ملک میں سیاسی بحران ہے، وکلا موجودہ سیاسی حالات کا ادراک کرتے ہوئے اس کا حل پیش کریں۔ سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے کہا کہ جمہوریت کرپٹ وزیروں کو پھانسیاں دینے پر ہی بچے گی، موجودہ دورِ حکومت میں جتنا قرضہ لیا گیا اتنا ستّر برسوں میں نہیں لیا گیا، ملکی سیاسی حالات بہت خراب ہیں، کرپشن تب ختم ہوگی جب کرپٹ افراد کو پھانسی دی جائے گی، اسلام آباد میں کوئی وزارت نہیں چل رہی، جو بھٹو کے ساتھ تھے وہی مشرف، قاف لیگ اور نون لیگ کے بھی وزیر ہیں، جمہوریت پر ڈاکا مارنے والے ہی جمہوریت کے چیمپئن بنے، ہم سب کو آئین کی حفاظت کرنی ہے، سپریم کورٹ کو پاکستان کا سب سے اوّل ادارہ سمجھتا ہوں، اگر گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس ملے تو جمہوریت قائم رہے گی، 60 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنے پیش رو مقررین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خود کو فرشتہ اور ٹھیک سمجھنے کا رویہ درست نہیں، سب کو پتا ہے چابی دی جا رہی ہے، ٹریلر چلائے جارہے ہیں تو پھر ہم مزاحمت ضرور کریں گے، ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانی ہے تو انتخابات کرانا ہوں گے، اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو ذمہ دار بڑی سیاسی جماعتیں ہوں گی۔ سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے مطالبات کو پارلیمنٹ کے فورم پر ہی پیش کرنا چاہیے، تنقید کرنا سب کا حق ہے۔ میاں نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک آمر کا قانون تھا جسے ہم نے تبدیل کیا، عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے کہا کہ شہبازشریف اچھا کام کررہے ہیں مگر کیا گلیاں بنوانا، سڑکیں اور پل بنانا وزیراعلیٰ کا کام ہے؟ یہ تو میئر کے کرنے کے کام ہیں، ملکی سیاست میں یہ تاثر ہے کہ وزیراعظم بننا ہے تو جی ٹی روڈ کی سیاست کرلو، اس روش سے ملک کے دوسرے حصے نظرانداز ہورہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ کسی طالع آزما کو جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دیں گے، سیاست دان مل کر پاکستان کو عظمت و بلندی پر لے جا سکتے ہیں۔ عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ مغربی ممالک نے انصاف قائم کرکے جمہوریت کو مضبوط کیا، جمہوریت کا بھاشن دینے والے بھول جاتے ہیں کہ انصاف کے بغیر جمہوریت کچھ نہیں ہے۔ کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام کے مولانا مصدق، قطب الدین پگاڑا، سینئر وکیل احسان وائیں، عبدالحئی بلوچ، مسلم لیگ (ق) کے چودھری ظہیر الدین، ریاض فتیانہ سمیت دیگر رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔
کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیے کی منظوری بھی دی گئی جس میں قومی اور بین الاقوامی صورتِ حال پر واضح مؤقف کا اظہار کیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا گیا کہ اسرائیل اور یہودیوں کے ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا اور قبلۂ اوّل کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ کانفرنس کا منظور کردہ اٹھارہ نکاتی مشترکہ اعلامیہ ہائی کورٹ بار کے صدر ذوالفقار چودھری نے پڑھ کر سنایا اور شرکاء سے اس کی منظوری لی۔ اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ وہ مارشل لا اور غیر سیاسی قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہیں اور ان قوتوں کا کسی صورت ساتھ نہیں دیں گی، کرپشن مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے لوٹی دولت ملک میں واپس لائی جائے۔ اعلامیے میں عدلیہ کے خلاف تنقید اور نااہل وزیراعظم کی عدلیہ مخالف مہم کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ختمِ نبوت کے قانون میں ترمیم کرنے والے چہروں کو سامنے لایا جائے اور ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ عام آدمی کو روزگار، تعلیم سمیت بنیادی حقوق دیئے جائیں، ماڈل ٹائون کے شہیدوں کے ورثاء کو انصاف فراہم کیا جائے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے، نئے انتخابات نئی حلقہ بندیوں اور تازہ مردم شماری کے مطابق کرائے جائیں۔ حکمرانی کا حق صرف پارلیمنٹ کا ہے، جمہوریت کے سوا کوئی اور راستہ قابلِ قبول نہیں، آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن قائم کرنا ہوگا، پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی بنانا ہوگی۔ ملک میں جمہوری اقدار اور بروقت الیکشن کو یقینی بنایا جائے۔ ملک میں فرقہ واریت، لاقانونیت، لسانیت اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے، آزادیٔ اظہار کو یقینی بنایا جائے تاہم منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف پیمرا قانونی کارروائی کرے، سیاسی جماعتیں پارٹی الیکشن کرائیں، تمام ادارے، پارٹیاں ایک دوسرے کا اور قانون کا احترام کریں، کیونکہ قانون سب کے لیے برابر ہے، پارلیمنٹ میں آئین کی روح کے منافی ترمیم کرکے آئین کا حلیہ نہ بگاڑا جائے۔