نام کتاب
:
شان و شوکت کی ہوس
STATUS GREED/PHOBIA
مصنف
:
ڈاکٹر محمد سلیم
صفحات
:
196 قیمت: 200روپے
ناشر
:
منشورات ، پوسٹ بکس 9093، علامہ اقبال ٹائون، لاہور
فون نمبر: 0320-5434909
042-35252210-11
فیکس: +92-332-003-4909
ای میل:
:
manshurat@gmail.com
یہ کتاب ہماری زندگی کے زندہ موضوعات سے بحث کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے سے اسلام کی ابدی تعلیمات کو قسطوں میں خارج کیا جارہا ہے۔ اہلِ علم کا فرض ہے کہ ان کی نشان دہی کریں اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو واضح کرکے پیش کرتے رہیں، اللہ جل شانہٗ کے ہاں ہم بری الذمہ اسی صورت میں ہوسکتے ہیں۔ جب کہ مغربی فلسفوں کا طوفان بدتمیزی سب کچھ بہائے لیے جارہا ہے۔ ڈاکٹر محمد سلیم شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس طرف توجہ کی، اور ادارہ منشورات توصیف و تعریف کا حق دار ہے کہ اس نے یہ گراں قدر کتاب شائع کی۔
ڈاکٹر محمد سلیم تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب پڑھنے سے پہلے ایک بات پیش نظر رہے کہ یہ کتاب، اُن مخلص مسلمانوں کے لیے نہیں لکھی گئی، جن کی گردن اللہ تعالیٰ کے احسانات کے سامنے ہر وقت جھکی رہتی ہے۔ جو حلال روزی پر قناعت کرتے ہیں اور پھر اس پیسے کو اپنی ملکیت کے بجائے اللہ کی امانت سمجھ کر میانہ روی سے خرچ کرتے ہیں۔ انکساری کی وجہ سے لوگوں کو اپنی امارت یا بڑے عہدے کا پتا نہیں چلنے دیتے اور اِس دنیا کو مسافر خانہ سمجھتے ہوئے ان کے دل آخرت کی تیاری سے غافل نہیں رہتے۔ ہاں ، تبلیغ کی نیت سے اس کتاب کو پڑھنا فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
یہ کتاب اُن طالب علموں کے لیے بھی فائدہ مند رہے گی، جن کے ذہن میں اسٹیٹس (Status) یعنی شان و شوکت کے بارے میں منصوبہ سازی ہوتی رہتی ہے۔ ماحول ہی ایسا بن چکا ہے یا بنادیا گیا ہے کہ اسلامی شعائر (Islamic Symbols) کو بنیاد پرستی (Fundamentalism) اور انتہا پسندی (Extremism)کی علامات سمجھا جانے لگا ہے۔ جبکہ شان و شوکت کے مظاہر کو عزت، وقار اور ترقی کی علامات سمجھا جاتا ہے۔ کامیابی اعمال کے بجائے مال میں سمجھی جاتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو غلامی جبکہ اپنی مرضی کی (Secular) زندگی کو آزادی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اور یہ کتاب اسی حقیقت کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ہے۔
اسلام کی نظر میں صاف ستھرا لباس اور اچھا رہن سہن مسئلہ نہیں، مسئلہ کچھ اور ہے۔ اس سلسلے کی تفصیل آپ کو مقدمے میں پڑھنے کو ملے گی۔ سردست ایک حدیث میں غور کرتے ہیں۔
’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مَثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلْ: اَنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوَنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنَۃٌ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ: اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ۔
’’جنت میں نہ جائے گا وہ شخص جس کے دل میں تکبر کا ایک ذرہ بھی ہوگا‘‘۔
ایک شخص بولا: ’’ہر ایک آدمی چاہتا ہے اس کا جوتا اچھا ہو اور کپڑے اچھے ہوں (تو کیا یہ بھی تکبر ہے)؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جمیل ہے، دوست رکھتا ہے جمال کو، تکبر حق کو نہ ماننا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان 265، ترمذی 1999)
اس حدیث میں بطرالحق کے الفاظ ہیں۔ بَطَرَہ کے اصل معنی چیرنے، شگاف دینے یا پھاڑنے کے ہیں۔ بَطَرَہ یعنی زیادتی نعمت کی وجہ سے حیران ہونا، اترانا، بہک جانا۔ بطرالحق یعنی حق کو خاطر میں نہ لانا، قبول نہ کرنا۔ یعنی جیسے نعمت کی فراوانی نے کسی کی آنکھیں پھوڑ دی ہوں اور وہ حق کو خاطر میں نہ لائے۔ (مصباح اللغات)۔
تو مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی کو اسٹیٹس ملتا ہے یا اسٹیٹس میں ترقی ہوتی ہے تو پھر صاحب کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا ہے۔ تکبر یہ ہے کہ اس حقیقت (حق) کو تسلیم نہ کرے اور کہے کہ ’’ یہ مال تو میں نے بڑی محنت سے کمایا ہے‘‘۔ دوسری حقیقت جو ’’صاحب‘‘ کو تسلیم کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ مال و دولت ایک امانت، ایک آزمائش ہے، کوئی انعام نہیں۔ اور حق یہ ہے کہ اس دولت کو میانہ روی سے صرف وہیں خرچ کرنا ہے جہاں شرعی ضروریات ہیں۔ تکبر اس دولت کو اپنی ملکیت سمجھ کر ’’میں جہاں چاہوں، جیسے چاہوں خرچ کروں‘‘ والی سوچ ہے۔ یہ ’’میں اور میری مرضی‘‘ تکبر کی علامات ہیں۔
اسٹیٹس میں آزمائش یہ ہوتی ہے کہ جیسے جیسے خوش حالی بڑھے، ویسے ہی شکریہ میں انسان کی گردن اور دل اللہ کے سامنے زیادہ جھک جائیں، مزاج میں زیادہ تواضع اور انکساری آئے۔ مگر یہاں تو ’’صاحب‘‘ کا مزاج ہی اونچا (Elite) ہوچکا ہے اور اب دوسروں سے ان کی حیثیت (Worth) کے مطابق برتائو ہوتا ہے۔ یہ بھی تکبر ہے۔ بس یہ کتاب قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک یاددہانی ہے۔ ہاں جو غور و فکر کرے اور شکر کے طور پر اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرلے تو پھر اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے:
(ترجمہ) ’’اور جب تمہارے رب نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔ (ابراہیم۔ 7:14 )
یہ کتاب کسی بھی فرد، ذات یا قبیلے کو ٹارگٹ بناکر نہیں لکھی گئی، اور نہ ہی کسی کی توہین مقصود ہے۔ بلکہ اصل نیت خیر خواہی ہے۔ چودھری، سیٹھ جیسے الفاظ محض سمجھانے کے لیے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ کتاب کو لکھنے والا پڑھنے والے سے زیادہ گناہ گار ہو۔ یہ کتاب ایک آئینہ ہے، مؤلّف کے لیے بھی اور قارئین کے لیے بھی۔ ہم سب ہدایت کے محتاج ہیں اور سبھی اللہ کے سامنے فقیر ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شرح صدر سے نواز دے اور ہدایت والے راستے پر چلا دے (آمین)۔
اس کتاب کے دو حصے ہیں:
٭ پہلا حصہ ’’مقدمہ‘‘ قدرے طویل ہے۔ یہ اسٹیٹس کی نقاب کشائی ہے۔
٭ دوسرا حصہ دنیا کے دھوکے اور آخرت (دارالقرار) کی حقیقت کے متعلق ہے۔
اس کتاب میں ’’دنیا دار‘‘ کے الفاظ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو زندگی گزارنے کے لیے قرآن حکیم کی رہنمائی کے بجائے اپنی عقل اور خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے بجائے زمانے کے چلن (رسم و رواج) کی پیروی کرتے ہیں‘‘۔
اور اس کتاب میں ’’دین دار‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عقل اور خواہشات کو فقیرانہ عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کیا ہوا ہے اور جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا ہادی و رہنما تسلیم کیا ہے۔‘‘
اس قسم کی کتابیں، خاص کر زیر نظر کتاب’’شان و شوکت کی ہوس‘‘ ہر گھر کی ضرورت ہے کہ وہ موجود ہو اور پڑھی جائے۔
کتاب خوبصورت طبع ہوئی ہے۔ دینی، تبلیغی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔
……٭٭٭……
نام کتاب
:
صوفیہ نقشبندیہ کا پہلا مربوط تذکرہ
’’حضرات القدس‘‘(فارسی)…جلد اوّل
مؤلفہ:
:
مولانا بدرالدین سرہندیؒ
تدوین،تحشیہ و مقدمہ: ڈاکٹر انجم رحمانی
صفحات
:
672 قیمت :1200 روپے
ناشر
:
محمدسعود سالک
سالک صوفی بک ہوم ، اردو بازار لاہور
ملنے کا پتا
:
مقصود پبلشرز‘ جیلانی سینٹر احاطہ شاہدریاں
اردو بازار لاہور۔فون :0333-4320521
’’حضرات القدس‘‘ نقش بندی صوفیہ کا تذکرہ ہے۔ یہ کتاب مولانا بدرالدین سرہندیؒ خلیفۂ راست حضرت مجدد الف ثانیؒ کی فارسی زبان میں سلسلۂ نقش بندیہ کا پہلا مربوط تذکرہ ہے۔ اس کتاب کی تالیف کا آغاز حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے زمانۂ حیات میں کیا گیا جس کے کچھ حصوں کا مطالعہ حضرت نے خود فرمایا اور اس بات پر اظہارِ مسرت فرمایا کہ یہ کتاب ہمارے بارے میں پہلی تالیف ہوگی۔ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اوّل میں خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ سے لے کر مولانا اللہ داد خلیفہ حضرت حسام الدین تک کے نقش بندی صوفیہ کے سلسلہ وار احوال، اقوال، تعلیمات و کرامات درج ہیں۔ جلد دوم حضرت مجدد الف ثانیؒ، ان کے اخلاف اور خلفاء کے احوال سے مزین ہے۔ مؤخرالذکر بیسویں صدی کے اواخر میں محکمہ اوقاف حکومتِ پاکستان کی طرف سے شائع ہوئی لیکن جلد اوّل اب زیورِ طبع سے آراستہ ہورہی ہے۔
یہ کتاب لاہور عجائب گھر میں محفوظ قلمی نسخے کی اساس پر ڈاکٹر انجم رحمانی سابق ڈائریکٹر لاہور میوزیم و حال وزیٹنگ پروفیسر جی سی یونیورسٹی لاہور کی ادارت، حواشی، مقدمہ کے ساتھ مرتب ہوئی ہے۔ ڈاکٹر انجم رحمانی نے اس کتاب کو انتہائی محنت و دقت، تجسس اور تحقیق کے بعد تیار کیا ہے۔ ڈاکٹر انجم رحمانی عالمی شہرت کے محقق ہیں اور ان کی متعدد کتابیں اردو، فارسی، پنجابی، انگریزی و دیگر زبانوں میں یونیسکو، آکسفورڈ، اور دیگر کئی نامور ملکی اور غیر ملکی اداروں کی طرف سے شائع ہوکر داد تحسین پاچکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب شاعر بھی ہیں، ان کی شاعری کا ایک مجموعہ بھی طبع شدہ نظر سے گزرا۔
ڈاکٹر معین الدین نظامی صدر شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا بدرالدین سرہندی کی کتاب ’’حضرات القدس‘‘ سلسلۂ نقشبندیہ کے اہم ترین منابع میں شمار ہوتی ہے اور اس موضوع پر کام کرنے والے بعدازاں کے محققین کے لیے ایک مستند مأخذ ہے۔ کتاب کے موجودہ ایڈیشن کی تدوین و تصحیح ڈاکٹر انجم رحمانی کی گرانقدر محنت کا ثمر ہے۔ محقق کی یہ کوشش اپنی جگہ انتہائی سودمند اور لائقِ ستائش ہے بلکہ ایک یادگار کام ہے۔
ڈاکٹر انجم رحمانی پاکستان کے ایک معروف محقق ہیں۔ موصوف نے تاریخ، تصوف، آثارِقدیمہ، اسلامی فنون بالخصوص برصغیر کی خوشنویسی اور فنِ تعمیر کے بارے میں کئی کتابیں اور مقالات لکھے ہیں۔ ان کی تالیفات میں سے ’’مرقع لاہور، تصحیح و انگریزی ترجمہ، نظام التواریخ بیضاوی، پنجاب: تمدنی و معاشرتی جائزہ، پاکستان میں تعلیم، ماسٹر پیسز آف لاہور میوزیم (انگریزی)‘‘ وغیرہ زیادہ مقبول ہیں۔
ڈاکٹر انجم رحمانی کی بعض تالیفات اور کئی مقالات غیر ممالک میں بھی چھپے ہیں جو تحقیقی حلقوں میں بے حد سراہے گئے ہیں۔ یقینا ان کی ایسی تالیفات ان کی محنتِ شاقہ، مستقل مزاجی اور تحقیقی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔
ڈاکٹر انجم رحمانی نے اس کتاب ’’حضرات القدس‘‘ کے آغاز میں مؤلف کتاب مولانا بدرالدین سرہندی کے شرح احوال اور آثار کے بارے میں جو مفصل مقدمہ لکھا ہے وہ نہایت جامع اور مستند معلومات پر مبنی ہے۔
ڈاکٹر انجم رحمانی نے مقدمہ میں کتاب کے منابع، محتویات، اسلوبِ نگارش، اہمیت اور نسخہ کے بارے میں بھی جامع گفتگو کی ہے۔ نیز انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے تحقیق پر مبنی ایک صحیح متن کی تدوین کی انتہائی ضرورت تھی جو انہوں نے بکمالِ مہارت پوری کردی ہے۔ محقق نے اس کتاب اور مؤلف کے بارے میں بعض سابقہ محققین کی آراء سے اختلاف بھی کیا ہے اور اس بارے میں اپنی آراء بھی پیش کی ہیں۔ ان کی صائب اور ٹھوس شواہد پر مبنی آراء بلاشبہ ان کے علمی مقام کی ترجمان ہیں۔
محقق نے کتاب کے آخر میں گوناگوں قسم کے اشاریے بھی مرتب کیے ہیں جس سے اس کتاب کی افادیت اور اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ایسے اشاریے یقینا سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ اور تصوف کے بارے میں دنیا بھر میں تحقیق کرنے والے اسکالروں کے لیے ایک گراں قدر رہنمائی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
ہم ڈاکٹر انجم رحمانی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس کتاب کی تصحیح اور تدوین کے لیے بے حد زحمت گوارا کی اور نہایت خلوص اور دل سوزی سے اس کام کو پایۂ تکمیل کو پہنجایا، ان کی یہ کوشش یقینا تحسین کے لائق ہے۔‘‘
کتاب بڑے سائز میں خوبصورت طبع کی گئی ہے۔ پاکستان کے فارسی ذخیرے میں وقیع اضافہ ہے۔ کتاب مجلّد ہے۔
………٭٭٭………
نام کتاب: عملِ صالح موسوم بہ شاہ جہان نامہ(فارسی) جلد دوم
تصنیف:ـ محمد صالح کنبو
ترتیب و تحشیہ: ڈاکٹر وحید قریشی
صفحات
:
432 قیمت :500 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلسِ ترقیِ ادب
کلب روڈ، لاہور
فون نمبر
:
042-99200856,042-99200857
ای میل
:
majlista2014@gmail.com
ویب سائٹ
:
www.mtalahore.com
کچھ عرصہ پہلے شاہ جان نامہ (فارسی) کی پہلی جلد آئی تھی جس کا تعارف ہم نے فرائیڈے اسپیشل میں کرایا تھا۔ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے اس پر مبسوط مقدمہ لکھا تھا۔ اب یہ جلد دوم آئی ہے۔ جلد اوّل اور جلد دوم کی یہ طبع سوم ہے۔ یہ شاہ جہان کے دور کی مستند تاریخ ہے۔ اس کا تیسری بار طبع ہونا اس کی اہمیت کو ثابت کرتا ہے۔ مجلسِ ترقی ادب کا علم و ادب پر احسان ہے کہ اس نے تمام ایسی کتابوں کو جو مجلس نے شائع کی تھیں اور نایاب تھیں، طبع کرکے ہر خاص و عام کی دسترس میں دے دیا ہے۔
کتاب مجلّد ہے اور سفید کاغذ پر ٹائپ میں چھپی ہے ۔