یہ 30اکتوبر 1973ء کی بات ہے اور مقام ہے جنیوا۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں اسرائیل اور عربوںکے جرنیل ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہیں۔ میجر جنرل ہارون یارو (Haron Yariv) اسرائیل، جبکہ مصری جرنیل میجر جنرل محمد الغنی الجمیسی عرب کی نمائندگی کررہے تھے۔ دونوں جرنیلوں نے اپنی اپنی فائل پر دستخط کیے، کھڑے ہوئے، ایک دوسرے کی طرف دیکھا، مسکرائے، فائلوں کا تبادلہ کیا اور یہ فائلیں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ دونوں جرنیل چائے کی میز پر دوبارہ اکٹھے ہوئے۔ اسرائیلی جرنیل نے مصری جرنیل سے ہنستے ہوئے پوچھا:
’’ ہم جتنے دن لڑتے رہے میں آپ کے لیے اللہ کی طرف سے نصرت کا انتظار کرتا رہا، لیکن ان بیس دنوں میں آپ کو اللہ کی طرف سے کسی قسم کی امداد نہیں ملی‘‘۔
صہیونی جرنیل مسکرایا اور اس کے بعد بولا ’’ جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو اسلامی فتوحات میرا خاص موضوع تھا۔ میں نے یونیورسٹی میں اسلامی فتوحات پر تحقیق کی تھی، جس کے بعد یونیورسٹی نے اس تحقیقی مقالے کے بدلے میں مجھے ایم۔ اے کی ڈگری دی تھی۔
اس تحقیق کے دوران مجھ پر منکشف ہوا تھا کہ اسلام کے شروع کے زمانے میں جب کفار اور مسلمانوں کی جنگ ہوتی تھی تو اہلِ ایمان تعداد، اسلحہ اور وسائل میں کافروں کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتے تھے لیکن جنگ کے اختتام پر مسلمان فتح یاب ہوتے تھے۔ اسلامی لشکر اپنی فتح کو ’’اللہ کی نصرت‘‘ کہتے تھے۔ مسلمانوں کا ایمان تھا، اللہ خفیہ انداز سے ان کی مدد کرتا ہے‘‘۔
جرنیل نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر گویا ہوا۔
جب 6اکتوبر 1973ء کو میری فوجوں کا آپ کی فوجوں سے سامنا ہوا تو میں دل میں بہت ڈر رہا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اسلامی لشکر تعداد، اسلحہ اور جذبے میں ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ مجھے محسوس ہوا اتنی بڑی طاقت کے ساتھ اگر مسلمانوں کو اللہ کی نصرت بھی مل گئی تو یہ لوگ پورے اسرائیل کو تباہ و برباد کردیں گے۔ لیکن جب جنگ کا نتیجہ نکلا تو میں حیران رہ گیا۔ اسرائیل کے چند ہزار فوجیوں نے مسلمانوں کے لاکھوں کے لشکر کو شکست دی۔ میں حیران ہوں آپ کے لیے اللہ کی نصرت آسمان سے کیوں نہیں اتری! اس جنگ میں اللہ نے آپ کی مدد کیوں نہیں!‘‘
جرنیل خاموش ہوا تو اپنی نظریں مصری جرنیل پر گاڑ دیں۔
مصری جرنیل نے سراٹھایا اور تھوڑا سوچ کر بولا:
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی نصرت آئی تھی۔ لیکن جب اس نے دونوں بارڈرز پر فوجوں کا معائنہ کیا تو اس نے دیکھا ہم مسلمانوں اور کافروں میں کوئی خاص فرق نہیں۔ ہم لوگ بھی اتنے ہی بدکردار اور منافق تھے جتنے آپ لوگ ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نصرت نے اُس وقت سوچا کہ ان دونوں لشکروں میں تکنیکی اور عسکری لحاظ سے کون سا ملک بہتر ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی نصرت کو محسوس ہوا کہ آپ لوگ ٹیکنالوجی، ٹریننگ اور جذبے میں ہم سے بہتر ہیں، لہٰذا وہ آپ کی صفوں کی طرف مڑ گئی‘‘۔
(مضمون ’’ جذبے کی طاقت‘‘ از یاسر محمد خان۔ ’’ضربِ مومن‘‘ شمارہ 31-25-36 ۔ اگست 2006ء)