قرضوں کا ریکارڈ بوجھ

سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں نوازشریف کا ایک ہی بیانیہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ اور پرویزمشرف غداری کیس کو حتمی فیصلے تک کیوں نہیں پہنچایا گیا؟ سطحی طور پر تو یہ بیانیہ خوش کن اور عوامی حلقوں کے لیے مقبول معلوم ہوتا ہے۔ ایک ایسے سیاسی رہنما کو جسے تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب ملا ہو، ضرور سیاسی اور حقیقی بیانیہ دیتے ہوئے حقائق کا ادراک کرنا چاہیے۔ اگر وہ خود اپنے چار سالہ دور کا تحمل سے جائزہ لیں اور ملک کی اندرونی سلامتی، خارجہ محاذ اور ملک کی معیشت کے لیے ان کے تمام اقدامات کا تجزیہ کیا جائے تو مسلم لیگ(ن) کے ان چار برسوں کے بخیے ادھیڑے جاسکتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں بجلی کا بحران ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کے دور میں صنعت کا پہیہ چلتا رہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو پھر بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بجلی سے ملک میں چلنے والے کارخانوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کہاں کھپائی گئی ہیں؟ ملکی صنعتیں چلتی رہنے سے برآمدات اور درآمدات میں بہت بڑا فرق کم یا ختم کیوں نہیں ہوا؟ فی کس آمدنی میں اضافہ کیوں نہیں ہوا؟ ملکی زراعت بجلی کی فراہمی کے باعث کتنی بہتر ہوئی؟ مسلم لیگ(ن) کو چاہیے کہ وہ اب دونوں شعبوں کی کارکردگی پارلیمنٹ میں پیش کرے، پارلیمنٹ میں بحث ہونے پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
ملک میں بجلی کی پیداواری گنجائش آج بھی 21 ہزار میگاواٹ ہے، لیکن حکومتیں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو ادائیگی نہیں کرتی تھیں لہٰذا بجلی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اب حکومت فرنس آئل بھی دے رہی ہے اور پیسہ بھی، لہٰذا بجلی بھی پیدا ہونے لگی ہے۔ حکومت کا انقلاب تو تب تسلیم کیا جاتا جب وہ ان پانچ برسوں میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کا کوئی ایک منصوبہ ہی مکمل کرکے دکھا دیتی۔ بجلی فراہم کرنے کی یہ شعبدہ بازی صرف نگران حکومت تک کام کرے گی، جس روز نگران حکومت آگئی بجلی کی قلت کا جن بے قابو ہوجائے گا، کیونکہ بجلی کی حالیہ فراہمی مصنوعی عمل ہے، جس روز یہ حکومت مدت پوری کرے گی اُس روز پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کے حوالے سے ملکی تاریخ کے بدترین حالات کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ نوازشریف کی اقتدار سے علیحدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس دور میں ریکارڈ قرض لیا گیا ہے، یوں سمجھ لیں کہ نوازشریف ملک کو عالمی ساہوکاروں کے ہاتھ گروی رکھنے کا منصوبہ مکمل کرنا چاہتے تھے اسی لیے پارلیمنٹ کو مسلسل بائی پاس کرتے رہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے پارلیمنٹ، ارکانِ پارلیمنٹ اور وزرا کو کتنا وقت دیا، یہ بہت اہم معاملہ ہے، اسے بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث آنا چاہیے۔ لیکن یہ دونوں اہم معاملات پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوں گے کیونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی کارکردگی بھی کوئی مثالی اور متاثر کن نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی دوسری بڑی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ان چار برسوں میں بمشکل آٹھ نو بار ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے ہوں گے۔ ان چار برسوں میں حکومت نے دو سال کی محنت کے بعد پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کا آئینی پیکیج ہی منظور کرایا، وہی اس کے گلے پڑا ہوا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے لیے صوبوں کے اعتراضات مسلسل اٹھتے رہے ہیں، فاٹا کے صوبۂ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کا معاملہ ابھی تصفیہ طلب ہے، مردم شماری کے نتائج پر عدم اتفاق ایک الگ مسئلہ ہے، اور اگلے عام انتخابات سر پر ہیں، اور جس طرح نوازشریف کے خلاف احتساب عدالت کی کارروائی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے، احتساب عدالت میں حسن نواز، حسین نواز کی جانب سے نوازشریف کو بھجوائی جانے والی رقوم کی تمام ٹرانزیکشن اور اس کی تفصیلات پیش کردی گئی ہیں۔ یہی وہ منی ٹریل ہے جس کا جواب نوازشریف کے دونوں بیٹوں کے پاس نہیں ہے۔ اس مقدمے میں اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ہائی کورٹ نے بھی ان کے ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے۔ امکان یہی ہے کہ انتخابات سے پہلے پہلے احتساب عدالت نوازشریف کو جیل بھجوا چکی ہوگی اور پھر یہ بیانیہ آئے گا کہ مجھے جیل کیوں بھیجا؟
ان تمام حقائق اور ان کے اثرات سے آگاہ نوازشریف اسی لیے بار بار عدلیہ پر تنقید کررہے ہیں، جب کہ انہیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ سعودی عرب میں ان کے خلاف کوئی تحقیقات شروع ہوئی ہیں۔ سعودی حکمران نے شاہ عبداللہ کے صاحب زادے کو بھی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ سعودی عرب میں ان کے خلاف یہ تحقیقات ہورہی ہیں کہ خالدہ ضیاء اور عرب شہزادوں کے ساتھ مل کر شریف خاندان نے مشترکہ کاروبار کیسے شروع کیا۔ نوازشریف پاکستان میں تو مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور پنجاب میں شہبازشریف کے بل بوتے پر جاندار سیاسی بیانات دے رہے ہیں، لیکن سعودی عرب میں ہونے والی تحقیقات کا سامنا کرنے میں انہیں بہت مشکل پیش آسکتی ہے، اسی لیے نوازشریف کی سیاست کے لیے آئندہ ایک دو ماہ نہایت کٹھن ثابت ہوں گے۔
گزشتہ عام انتخابات میں یہ امید کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ(ن) اقتدار میں آکر ملک کی معیشت بہتر کرے گی، لیکن یہ امید نقش بر آب ثابت ہوئی۔ اگر نوازشریف کے ان چار برسوں کے اقتدار میں صرف ایک وزارت، وزارتِ تجارت کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو نوازشریف کی تجربہ کاری کی ساری شعبدہ بازی کھل کر سامنے آجائے گی۔ وزیراعظم کی حیثیت سے نوازشریف نے ریکارڈ غیر ملکی دورے کیے، ان دوروں کا ملک کو جو ’’فائدہ‘‘ پہنچا وہ سب کے سامنے ہے۔ مسلم لیگ (ن) حکومت کے ان ساڑھے چار برسوں کے دوران اعلانات کے باوجود آزاد تجارتی معاہدوں کے سلسلے میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی، اور حکومت کاکسی بھی ملک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ نہیں ہوا۔ حکومت سی پیک کا بہت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے، اس منصوبے سے پاکستان کو کتنا مالی فائدہ ہوگا اس بارے میں ابھی تک ایک لفظ تک نہیں بولا گیا اور معاہدے کی تفصیلات پارلیمنٹ، صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور قوم سے چھپا کر رکھی جارہی ہیں۔ اور اگر پاک چین تجارتی معاہدوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک بہت بڑا قیاس ہے جس کی وجہ سے پاک چین آزاد تجارتی معاہدہ بھی مستقبل میں غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہونے کے قریب ہے۔ وزارتِ تجارت نے چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ دوم کے تحت پاکستان کو 90 فیصد اشیاء کی برآمد پر ڈیوٹی فری رسائی دینے کی پیشکش کی ہے اور 90 فیصد ہی چینی مصنوعات کی برآمد پر ڈیوٹی فری رسائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ چین نے بھی پاکستان کو مصنوعات کی برآمد پر 90 فیصد اشیاء پر ڈیوٹی فری رسائی دینے کی پیشکش کی ہے اور اس کے بدلے میں مرحلہ وار چین کو 15 سال میں 90 فیصد اشیاء کی برآمد پر ڈیوٹی فری رسائی دی جائے گی، لیکن فی الحال فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ آزاد تجارتی معاہدہ دوم کے تحت پاکستان چین کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اشیاء کی برآمد پر ڈیوٹی فری رسائی چاہتا ہے جبکہ چین کی برآمدی اشیاء کی ڈیوٹی فری رسائی میں کمی کا تقاضا کررہا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارتی معاہدوں میں پہلا آزاد تجارتی معاہدہ 2006ء سے 2014ء تک کارآمد رہا جس کا زیادہ فائدہ چین کو ہی پہنچا۔ اس معاہدے سے پاکستان کو سالانہ 22 ارب اور مجموعی طور پر 8 سال میں 176ارب روپے کے ریونیو کا نقصان ہوا، اس لیے پاکستان نیا معاہدہ کرتے وقت زیادہ مراعات اور مقامی مینو فیکچرنگ انڈسٹری کا تحفظ چاہتا ہے۔
ترکی نے پاکستان کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ترکی کی ٹیکسٹائل لابی پاکستان کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی مخالف ہے جس کے باعث ترکی ٹیکسٹائل شعبے میں پاکستان کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں، جبکہ حکومتِ پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے تحت 10 فیصد ٹیکسٹائل کی ڈیوٹی فری برآمدات چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت نے ترکی کو قائل کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی خدمات حاصل کی تھیں تاہم وہ بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ پاکستان اور ترکی نے 2004ء میں ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، مگر اب تک دونوں ملک آزاد تجارتی معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ ترکی آٹو سیکٹر اور پاکستان ٹیکسٹائل سیکٹر میں رعایت چاہتے ہیں۔ البتہ ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ پاکستان اور ایران کے درمیان دسمبر 2017ء تک آزاد تجارتی معاہدے پر اتفاق ہوگیا تھا لیکن ابھی معاہدہ نہیں ہوسکا ہے۔ 2006ء میں ہونے والے تجارتی معاہدے کے تحت پاکستان نے ایران کو 338، اور ایران نے پاکستان کو 309 اشیاء پر ڈیوٹیز میں رعایت دے رکھی ہے۔ اب دونوں ملک 80 فیصد مصنوعات پر ڈیوٹیز میں رعایت پر متفق ہوئے ہیں۔ دوطرفہ تجارت کا حجم صرف 30کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ہے جس کو آزاد تجارتی معاہدے کے تحت پانچ سال میں پانچ ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ گزشتہ سال مارچ میں ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان کے دوران میں دونوں ملکوں نے پانچ سالہ اسٹرے ٹیجک پلان پر دستخط کیے تھے جس کے تحت دونوں ملکوں کے مابین آزاد تجارتی معاہدے پر مذاکرات جون 2016ء میں شروع کیے جانے پر اتفاق ہوا تھا، تاہم دونوں آزاد تجارتی فریم ورک معاہدے کا مسودہ نہیں بھجوا سکے۔ پاکستان اور تھائی لینڈ کے درمیان بھی آزاد تجارتی معاہد ہ نہیں ہوسکا ہے۔ حکومت نے 2013ء میں جب اقتدار سنبھالا تو ملکی برآمدات کا سالانہ حجم 25 ارب ڈالر تھا جو اب کم ہوکر سالانہ 20 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔
نوازشریف کی اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی پالیسی پر اختلاف ہے۔ ادارے بھارت کے حوالے سے زیرو ٹالیرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جبکہ نوازشریف بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر خطے میں منڈلانے والے ایٹمی جنگ کے بادل ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن نوازشریف کا طریقہ، انداز اور رویہ مشکوک کن ہے۔ 2013ء میں وزیراعظم بننے کے بعد نوازشریف نے جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ کیا، وہیں سے مخالفین کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد مختلف عالمی فورمز پر نوازشریف اور مودی کی ملاقاتوں میں علاقائی امن اور خطے کی پسماندگی پر قابو پانے کے لیے باتیں ہوئیں، اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ملکوں کو آپس میں لڑنے کے بجائے اپنے لوگوں کی غربت کے خلاف لڑنا چاہیے۔ یہاں تک سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا، لیکن اس کے بعد دو اہم واقعات ہوئے جن پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا، پہلا واقعہ نوازشریف کی نواسی کی شادی میں بھارتی وزیراعظم مودی کی اپنے لوگوں کے ساتھ اچانک لاہور آمد اور نوازشریف کی جانب سے بھرپور استقبال… دوسرا واقعہ بھارتی بزنس ٹائیکون جندال کی پاکستان آمد اور مری میں نوازشریف سے ملاقات تھی۔ اس کے بعد حالات بتاتے ہیں کہ معاملات سنبھل نہیں سکے اور کوشش کے باوجود بگڑتے چلے گئے۔
آج کے سیاسی حقائق یہ ہیں کہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی مسلم لیگ(ن) کے دام میں نہیں آرہی۔ آصف زرداری نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اداروں کو بدنام کرنے کی سازش ہورہی ہے اور نوازشریف یہ سازش کررہے ہیں، لہٰذا ہم نوازشریف کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ جبکہ عمران خان نے اس صورتِ حال کے حوالے سے خود کو الگ پوزیشن پر رکھا ہوا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مجھے شریف خاندان سے تشبیہ نہ دی جائے۔ سب سے اہم بیان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا سامنے آیا ہے جو انہوں نے منگلا میں خطاب کرتے ہوئے دیا: ’’تمام اداروں کو ملکی مفاد میں کام کرنا ہوگا، ترقی کے لیے اتحاد ضرور ی ہے‘‘۔ ان بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کون کن حالات سے گزر رہا ہے اور کسے کیا پیغام دے رہا ہے۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے کیا کچھ ہوتا ہے، ہر آنے والا دن ملکی سیاست کے حوالے سے اہم نظر آرہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے اور پیپلزپارٹی سے رابطے کی ذمہ داری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سپرد کی گئی ہے جو قائدِ حزبِ اختلاف سے براہِ راست رابطے میں رہیں گے۔ حلقہ بندیوں کے لیے بل سینیٹ سے منظور کروانے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر اسپیکر اسمبلی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں سے بھی رابطے کیے گئے ہیں اور سینیٹ سے بل منظور کرانے کے لیے ان سے تعاون مانگا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔