اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو

کسی بھی زبان کے حسن و جمال میں چار چاند لگانے میں ضرب الامثال اور کہاوتوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر یونس اگاسکر نے اپنے تحقیقی مقالے کا موضوع ’’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی اور لسانی پہلو‘‘ چُنا اور اس پر کامیابی سے تحقیق کی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ تحریر فرماتے ہیں:
’’ضرب الامثال اور کہاوتیں کسی بھی زبان کے لسانی سرمائے میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ زبان کا وہ حصہ ہے جو اس کی عوامی جڑوں کو اس کے ادبی اظہار سے ملاتا ہے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ جس طرح اصطلاحات وضع کی جاتی ہیں یا بنائی جاتی ہیں، کہاوتیں یا ضرب الامثال گھڑی یا بنائی نہیں جاتیں، کوئی فردِ واحد یا ادارہ یا انجمن ان کے وضع کرنے یا بنانے پر مامور نہیں ہوتی۔ یہ ان خودرو پھولوں کی طرح ہیں جو نہ صرف دشت و بیاباں میں بلکہ چٹانوں کا سینہ چیر کر بھی نکل آتے ہیں اور اپنے حسن اور کشش سے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں۔ زبان کی زمینی تہوں سے نکلنے والی کہاوتیں اور مثلیں کہیں صدیوں کے عمل میں رواج اور چلن کے ذریعے اس مرتبے پر پہنچتی ہیں جہاں وہ تراشیدہ ہیروں کی طرح چمکنے لگتی ہیں اور ان سے کلام میں نہ صرف حسن اور زور بلکہ معنیاتی (معنوی) گہرائی اور تہ داری بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ یوں تو زبان کا ہر مظہر سماجی مظہر ہے، لیکن سماج کے نشیب و فراز، اس کے نظام ترکیبی، ثقافتی سطحوں، تہذیبی لین دین، رہن سہن، رسم و رواج، تیج تہوار اور طرزِ معاشرت اور اس کی گنگا جمنی بوقلمونی کیفیتوں کو جس طرح کہاوتیں اور مثلیں ظاہر کرتی ہیں، کوئی دوسری چیز ظاہر نہیں کرتی۔ ان امور کے پیش نظر تقریباً پندرہ برس پہلے ’’ نذرِ عابد‘‘ کے لیے راقم الحروف نے ایک مقالہ ’’اردو محاوروں اور کہاوتوں کی سماجی توجیہ‘‘ لکھا تھا، اور عرض کیا تھا کہ یہ موضوع پوری توجہ کا استحقاق رکھتا ہے اور اس پر مزید غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ دراصل یہ موضوع بنیادی طور پر سماجی لسانیات کا ہے۔ میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ خاکسار کا یہ مقالہ گویا بیج ثابت ہوا اس تناور پیڑ کا جو ڈاکٹر یونس اگاسکر کے عالمانہ مقالے کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔
ڈاکٹر یونس اگاسکر (شعبہ اردو، ممبئی یونیورسٹی) ان باصلاحیت نوجوان اساتذہ میں سے ہیں جو نہایت سنجیدگی سے زبان و ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ ادب کے ساتھ ساتھ سماجیات کے بھی سند یافتہ ہیں اور لسانیات کی باقاعدہ تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کا زیرنظر تھیسس ’’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘‘ سماجیات و لسانیات کا خوبصورت سنگم ہے۔ اردو میں ضرب الامثال اور کہاوتوں پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر و بیشتر کہاوتوں، محاوروں اور تلمیحوں کو ملا دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر یونس اگاسکر نے نہ صرف تمام مآخذ کو پوری دل جمعی سے کھنگالا ہے بلکہ تمام و کمال سعی و جستجو سے کام لیا ہے اور موضوع کے تمام گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ یہ اپنے موضوع پر پہلی جامع تصنیف ہے جس کے لیے مصنف خصوصی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ ڈاکٹر یونس اگاسکر کی لگن اور دل سوزی سے توقع ہے کہ وہ اردو ادب و تحقیق کی خدمت کی راہ میں کئی نئی منزلیں سر کریں گے۔
ممبئی یونیورسٹی کا شعبہ اردو اور اس مقالے کے نگران ڈاکٹر نظام الدین ایس گوریکر بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ایسا اچھا اور بنیادی کام ان کے یہاں تکمیل کو پہنچا۔‘‘
اردو کے مشہور محقق اور استاد جناب رشید حسن خاں نے کتاب پر ’’پیش گفتار‘‘ عنوان سے اپنی وقیع رائے تحریر فرمائی ہے، لکھتے ہیں:
’’مجھے کچھ کم تعجب نہیں ہوا تھا جب یونس اگاسکر صاحب نے یہ بتایا کہ ان کے تخلیقی مقالے کا موضوع اردو کہاوتوں کا سماجی و لسانی مطالعہ ہے۔ پچھلے آٹھ دس برس سے یہ سنتے سنتے کان پک گئے تھے کہ میرے تحقیقی مقالے کا موضوع فلاں صاحب کی ادبی خدمات ہیں۔ اور عموماً یہ صاحب وہ ہوتے تھے جو بفضلہٖ بہ قیدِ حیات ہیں اور جنہوں نے کسی وجہ سے کچھ سچی جھوٹی شہرت پالی ہے۔ یا پھر وہ اس ’’حیثیت‘‘ کے مالک ہیں جو اس بدنصیب طالب علم کے نہ سہی، اس کے دنیا دار اور معاملہ فہم نگران استاد کے کچھ نہ کچھ کام آسکتی ہے۔ تحقیق کے نام پر اس خفیف الحرکاتی نے ادبی تحقیق کی حرمت کوگویا تباہ کرکے رکھ دیا۔ ایسے ایسے بے تہ اور ادبی حیثیت سے کوتاہ قامت لوگ موضوعِ تحقیق بنا لیے گئے کہ آبروئے شیوۂ اہلِ نظر برباد ہو کر رہ گئی۔ ایسے ادب آشوب عالم میں، جب کہ آسان پسندی نے تحقیق کی مشکل پسندی کو بے نور کردینے کی ٹھان رکھی ہے، یونس اگاسکر صاحب نے اپنے مطالعے کے لیے ایسے موضوع کو منتخب کیا جو تلاش، فکر اور نظر ان سب کا طلب گار ہے، اور اس کام کو اس طرح انجام دیا کہ وہ کسی تکلف کے بغیر اپنے اس مقالے کو جو اب ’’اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘‘ کے عنوان سے زیر اشاعت ہے، اہلِ نظر کے سامنے اعتماد اور فخر کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر یونس اگاسکر تحریر فرماتے ہیں:
’’عربی کی ایک مشہور ضرب المثل ہے ’’المثل فی الکلام کا لملح فی الطعام‘‘ یعنی کہاوت روزمرہ کی گفتگو میں وہی اہمیت رکھتی ہے جو کھانے میں نمک کو حاصل ہے۔ عام طور پر ہر زبان کے بولنے والے کہاوتوں کو محض لطف ِ کلام ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ البتہ جو لوگ اپنی بات کو پُر اثر بنانے کا ہنر جانتے ہیں وہ کہاوتوں کا باموقع و برمحل استعمال کر کے نہ صرف سننے والے کو اپنا ہم خیال بنا لیتے ہیں بلکہ اپنے مخالف کو بھی چاروں خانے چت کردیتے ہیں، کیوں کہ کہاوت کو عموماً ایک آزمودہ سچائی کے طور پر سماج کے ہر طبقے میں مقبولیت و پذیرائی حاصل ہوتی ہے اور بزرگوں کے تجربات کے نچوڑ کو بھلا کون جھٹلا سکتا ہے؟‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا کہاوتوں کی اہمیت کا دائرہ محض روزمرہ کی گفتگو کی نمکینی یا کسی نکتے کے اثبات و انکار تک محدود ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس مقالے کا معرض تحریر میں آنا ہی ممکن نہ ہوتا۔ تقریباً ہر کہاوت کسی نہ کسی تاریخی، تہذیبی، سماجی یا لسانی پس منظر کی حامل ہوتی ہے۔ یہ پس منظر عام طور پر زبان کے بولنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ بعض کہاوتیں اپنے اندر بڑے دلچسپ واقعات یا حکایات کو سموئے ہوتی ہیں جن کے سہارے ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر قدیم سماجی و تاریخی حقائق کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ انسانی معاشرے کے فکری و اخلاقی ارتقا یا زوال کا اندازہ بھی کہاوتوں کے توسط سے لگایا جاسکتا ہے۔ زبان کی قدامت اور متروک الفاظ و تراکیب کے استعمال کا سراغ لگانے میں بھی کہاوتیں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں اور ان میں مستعمل تشبیہوں، استعاروں، قافیوں، ردیفوں اور دیگر صنعتوں کی روشنی میں زبان کا اسلوبیاتی مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے، گویا کہاوتیں کوزے میں دریا یا گاگر میں ساگر سمیٹے ہوتی ہیں جس کی تہ تک پہنچنے کے لیے اس میں ڈوبنا ضروری ہوتا ہے۔ زیر نظر مقالہ اسی کوشش کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔ آیا اس کوشش میں لعل وگوہر ہاتھ لگے ہیں یا خزف ریزے، اس کا فیصلہ علم و ادب کے جوہری ہی کرسکتے ہیں‘‘۔
یہ ایک عمدہ علمی کتاب ہے۔ اردو کے ہر استاد کے زیر مطالعہ ہونی چاہیے۔ اس کے علم کو طالب علموں تک منتقل کرنا چاہیے۔
کتاب مجلّد ہے اور نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہے۔
………٭٭٭……