مدیر:محمد طارق خاں
(معروف قلمی نام۔ اعظم طارق کوہستانی)
مجلسِ ادارت: عبدالرحمن المومن، حافظ جاوید، شہیر سلال
مقامِ اشاعت : ایف 206 سلیم ایونیو، بلاک 13۔بی، گلشن اقبال، کراچی،
فون نمبر:34976468
صفحات:288 قیمت: 80 روپے
بچوں میں ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں تعلیم یافتہ والدین اور گھرانے کے ماحول کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچوں میں علم، تعلیم، نصابی اور غیرنصابی مطالعے کا رجحان اور ذوق بیدار کرنے کے لیے انہیں مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں اور ان کے لیے کتابوں اور رسائل کا انتخاب کرتے ہیں۔ موجودہ دور اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کا دور ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے نت نئی ترجیحات سامنے آتی ہیں۔ علم و آگہی، سائنس اور ایڈونچر کے محیرالعقول واقعات اور کارنامے انسانی عقل کو دنگ کردیتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے رسائل شروع ہی سے نکلنے شروع ہوگئے تھے، جن میں بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، نونہال، بھائی جان، پھلواری، پھول، آنکھ مچولی، تعلیم و تربیت اور دیگر رسائل شامل ہیں جو کامیابی سے نکلے اور بچوں کے حلقوں میں مقبول ہوئے۔ کچھ جاری نہ رہ سکے اور کچھ اب بھی کامیابی سے شائع ہورہے ہیں۔ طالب علموں کی ادارت میں نکلنے والا منفرد رسالہ ’’ساتھی‘‘ اگرچہ 1977ء میں نسبتاً دیر سے نکلنا شروع ہوا لیکن اب تک بغیر ناغے کے یعنی بند ہوئے بغیر کامیابی سے جاری و ساری ہے اور معیار اور ضخامت اور زبان و ادب کی خدمت میں بلندی کی طرف گامزن ہے۔ ساتھی کا چالیس سالہ نمبر خاص شماروں کا خاص نمبر ہے۔ یہ ایک ایسا سنگِ میل ہے جسے ساتھی کے ادبی کارکنوں نے عمدہ کاوشوں، جہدِ مسلسل اور مستقل مزاجی کے ذریعے عبور کیا ہے۔ یقینا مدیر محمد طارق خاں اور ان کی مجلس ادارت کے معاونین عبدالرحمن المومن، ثاقب جاوید اور شہیر سلال، فنی معاونین حسام چندریگر، حمزہ منصور، محمد وجاہت خاں اور مارکیٹنگ اور سرکولیشن کے سید طلال علی اور اسامہ شیخ سب انتہائی ستائش اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اتنا دیدہ زیب، معیاری، ضخیم اور متنوع مضامین، افسانے، فکاہی مواد، منظومات اور بچوں کی دلچسپی کے پزل، تصویروں اور اچھے منظوم کلام کا حامل رسالہ ترتیب دے کر شائع کیا۔
ماہنامہ ساتھی کی اہم ترین اور منفرد خصوصیات اور روایات
٭ حاضر طلبہ کی ادارت میں شائع ہونے والا یہ ماہنامہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کی ایک اہم اور منفرد روایت کا امین ہے۔
٭ پاکستان کی دو قومی زبانوں اُردو اور سندھی میں برسوں سے مسلسل شائع ہونے والا واحد رسالہ ہے۔
٭ قلمی معاونین میں معروف ادیب اور طالب علم دونوں شامل ہیں اور نئے لکھنے والوں کی آبیاری کرنے والا رسالہ ہے۔
٭ کسی بڑے طباعتی، اشاعتی یا تجارتی ادارے کی پشت پناہی کے بغیر مسلسل اور متواتر چار عشروں میں 36 موضوعاتی خاص نمبر نکالنے والا واحد ماہنامہ ہے جو بچوں، بڑوں اور بوڑھوں کا پسندیدہ رسالہ ہے، جسے سب بڑی دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔
اس خاص نمبر کی ایک اہم خصوصیت ساتھی کے اب تک کے تمام مدیروں کا تعارف ہے جو مختلف اوراق پر پھیلا ہوا ہے۔ کچھ کا تعارف بہت مختصر ہے تو کچھ مدیران کا خاصا تعارف موجود ہے۔ یہ تمام معماران اور ان کے معاونین ہی ساتھی کو نوخیز نسل کا ایک معیاری ادبی رسالہ بنانے کے ذمہ دار اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
چالیس سالہ نمبر، ساتھی کا اب تک شائع ہونے والے خاص نمبروں میں چھتیسواں خاص الخاص نمبر ہے۔ بہتر ہوتا اگر مدیرانِ ساتھی کا تعارف ایک جگہ ایک مضمون کی شکل میں یکجا ہوتا اور یہ تعارف ’’ساتھی کی زبانی‘‘ یا کسی اور عنوان سے شائع ہوکر قارئین کو الگ الگ بیسیوں جگہ چھوٹے بڑے بکسوں میں ڈھونڈنا نہ پڑتا۔
معروف لکھاریوں اور محققوں کی نگارشات نے بھی اس خاص نمبر کو چار چاند لگائے ہیں۔ محترم رئوف پاریکھ کا مضمون ’’ہمارے مشغلے‘‘، محترم کلیم چغتائی کا تاریخی مضمون ’’فاتح قادسیہ‘‘، محترم احمد حاطب صدیقی کا ’’السلام علیکم‘‘، ماہرِ اقبالیات رفیع الدین ہاشمی کا خاص نمبر کے لیے خاص مضمون ’’اقبال شعر کیسے کہتے تھے‘‘ ایک تحقیقی مضمون ہے جس میں کئی معتبر حوالوں سے اقبال کا ذکر ہے۔ مدیر ساتھی محمد طارق خاں کا باتصویر معلوماتی مضمون ’’مزے دار سیر‘‘ اور دلچسپ معلوماتی سنسنی خیز کہانی ’’قصہ ایک رات کا‘‘ اس خاص نمبر کے خاصے کی چیزیں ہیں لیکن ازراہِ انکسار مدیر نے انہیں ماہنامے کی فہرست میں شامل نہیں کیا ہے۔ پاکستان ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر اور مصنف غلام مصطفی سولنگی کی ’’لال چڑیا‘‘، معروف مصنفہ قانتہ رابعہ کی دل پذیر کہانی ’’نام‘‘ برگزیدہ ناموں کی تکریم کے سبق سے عبارت ہے۔ ضیاء اللہ محسن کی مشہور تاریخی کرداروں پر مشتمل مزیدار کہانی ’’جنگل میں تارے‘‘، معروف صحافی اطہر ہاشمی کا مضمون ’’اردو زبان ہماری‘‘ اہم نگارشات ہیں جن سے یہ رسالہ مزین ہے، اور ’’کہانی ایک سفر کی‘‘ محمد فیصل شہزاد کی ایک چونکا دینے والی قسط وار کہانی ہے جس کی پہلی قسط اس شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
’’سکے کی کہانی‘‘ محمد علی ادیب کا ایک اہم معلوماتی مضمون ہے جس میں سکے کی تاریخ کے ساتھ ہی پاکستان کے کرنسی نوٹوں کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے۔ جن سیریز کے معروف لکھاری حماد ظہیر کی ’’مری ایکسپریس‘‘ بھی اس رسالے کی ایک دلچسپ اور خاص کہانی ہے۔ رُمانہ عمر کی کہانی ’’ٹن ٹن ٹن ٹن‘‘ ایک متاثر کن کہانی ہے۔ حسام چندریگر کا باتصویر معلوماتی مضمون ’’فلم سازی‘‘ ایک اچھا مضمون ہے۔ عافیہ رحمت کی تصنیف ’’بی مانو‘‘ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ابنِ آس محمد کا ایڈونچرس قصہ ’’آخری حکم‘‘ ایک سنسنی خیز مہماتی داستان ہے جو سبق آموز بھی ہے۔ بینا صدیقی جو ساتھی کی مستقل لکھاری ہیں اِس دفعہ ’’خاطر داریاں‘‘ کے عنوان سے ایک سوغات لے کر آئی ہیں۔ مبشر علی زیدی کی چیمپئن، فاطمہ نور صدیقی صاحبہ کی ’’بھورا پائوچ‘‘، مریم سرفراز کی ’’خزانے کی تلاش‘‘، فائزہ حمزہ کا تاریخی مضمون ’’فاطمہ بنتِ عبداللہ‘‘ خاصے کی چیزیں ہیں۔ صفیہ سلطانہ صدیقی ایک معروف لکھاری ہیں اور بچوں کے لیے اچھی کہانیاں لکھتی ہیں۔ انہوں نے اس دفعہ ساتھی کے لیے ’’نیکی کا سفر‘‘ لکھا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور حقیقی واقعہ لگتا ہے۔ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اللہ دنیا میں بھی کی ہوئی نیکی کا صلہ دے دیتا ہے۔ حفصہ صدیقی صاحبہ بچوں کے لیے عمدہ کہانیاں لکھنے والی ایک معروف لکھاری ہیں۔ ڈاکٹریٹ کرچکی ہیں اور جامعہ کراچی سے منسلک ہیں۔ ان کی انتہائی سبق آموز کہانی ’’آئینہ‘‘ سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی بھی جائز اور حلال روزی کمانے والے کو حقیر نہیں گرداننا چاہیے، کیا خبر آپ کے باپ دادا پیشے کے اعتبار سے انتہائی کمتر حیثیت کے حامل ہوں۔ ساتھی کے ایک اہم سابق مدیر جناب فصیح اللہ حسینی جو 2008ء سے 2016ء تک ساتھی کی ٹیم کا حصہ تھے اور آخری تین سال 2013ء سے 2016ء تک وہ مدیر رہے۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’ساتھی میں سات سال‘‘ میں اپنے ساتھیوں کی شب و روز محنت اور صلاحیتوں کا دل کھول کر اعتراف کیا ہے اور ان سے اکتساب کا جی بھر کر ذکر کیا ہے۔ محترمہ گلِ رعنا کا افسانہ نئی جیکٹ Enid Blyton کی کہانی He was afraid کا انتہائی اچھا اور رواں ترجمہ ہے، اور ترجمہ نہیں بلکہ اس پر اصل تصنیف کا گمان ہوتا ہے۔ انہوں نے انگریزی کی ایک اچھی سبق آموز کہانی کا انتخاب کیا ہے جو بچوں کی ذہنی تربیت کی غمازی کرتی ہے۔ جناب جاوید بسام ایک معروف افسانہ نگار ہیں، ساتھی کے پرانے لکھاری ہیں اور چار ساتھی رائٹر ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں، ان کی کہانی ’’انوکھا تحفہ‘‘ پرانی یادوں کو تازہ اور ایک نیا ولولہ پیدا کرنے والی کہانی ہے۔ نیر کاشف صاحبہ کا اصل نام نیر سلطانہ ہے۔ بچوں کی معروف ادیبہ ہیں، دو مرتبہ ساتھی رائٹر ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں اور اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ ان کی کہانی ’’جیب خرچ‘‘ ایک اچھی سبق آموز کہانی ہے جس میں جیب خرچ کے رفاہی پہلو کا سبق دیا گیا ہے۔ جناب معروف احمد چشتی ایک معروف لکھاری اور پیشے کے اعتبار سے انگریزی کے لیکچرار ہیں۔ ان کی بچوں کی دلچسپ مہماتی کہانی ’’موٹر سائیکل اور ہم‘‘ دلچسپ کہانی ہے اور بچوں کے ذوقِ تجسس کی صحیح غمازی کرتی ہے۔ محترمہ فوزیہ خلیل صاحبہ، ام خزیمہ اور ام مصعب کے قلمی ناموں سے بھی لکھتی ہیں۔ ساتھی کی مستقل لکھاری ہیں۔ ان کی جاسوسی کہانی ’’قاتل کون؟‘‘ دلچسپ اور سنسنی خیز ہے جو معروف جاسوسی ناول نگار مرحوم اشتیاق احمد کی اتباع یا طرز پر لکھی گئی ہے۔ دلچسپ اور بھرپور ہے۔ احمد عدنان طارق ایک سینئر لکھاری ہیں، دو ساتھی رائٹر ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں، ان کی کہانی ’’سنگ تراش‘‘ جاپانی لوک کہانی ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان سب سے زیادہ طاقت ور ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پر جس کے سپرد جو کام کیا ہے وہی اسے بہتر طور پر سرانجام دے سکتا ہے۔ بن یامین کے قلمی نام سے لکھنے والے اسمٰعیل سعید صدیقی ایک اچھے لکھاری ہیں، امریکہ میں مقیم ہیں اور آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بہترین کہانی کے ایوارڈ یافتہ ہیں۔ سالنامے کی آخری کہانی (ڈرامہ) ’’ڈگڈگی‘‘ بچوں کے معروف مصنف جناب الیاس نواز کی تحریر کردہ ہے۔ یہ ایک تمثیلی ڈرامہ ہے جس میں مداری سلیم صاحب کے گھر کے باہر بندر کا تماشا دکھاتا ہے جس میں دفتر میں جانا، کھانا پکانا، کھانا کھانے کی تمثیل پیش کی گئی ہے۔ آخری نثری تحریر، قارئین کے خطوط سے سجا گلدستہ اور اس کے جوابات اور مدیر کے تبصرے ہیں اور قارئین کے بھی بھرپور تبصرے اور تنقیدی جائزے ہیں۔ ٹھنڈی الماری (فریج) کے عنوان سے فریج کی ارتقائی شکلیں اور معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ عاقب جاوید نے دنیا کے دلچسپ و عجیب کارنامے اور واقعات تصویروں کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ سالنامے میں چلبلی لکیریں، لطائف اور پہیلیاں، ساتھی مصوری اور دیگر دلچسپیاں شامل ہیں جو اس کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔
ماہنامہ ساتھی کے سالنامے میں معروف شاعر عنایت علی خان کی نظم ’’چوک کی بتیاں‘‘، عبدالرحمن مومن کی نظم ’’جنت کی تصویر‘‘، شریف شیوہ کی حمد ’’اس کا کرم ہے‘‘، عمران شمشاد کی نظم ’’خُودی‘‘، ابصار عبدالعلی کی نظم ’’سیٹی بجا کے‘‘، شام درانی کی نظم ’’بوجھو پہیلی شام کی‘‘ اور ضیاء الحسن ضیاء کی نظم ’’روٹی یا پلیٹ‘‘ سالنامے کی سوغاتوں میں شامل ہیں۔ مجموعی طور پر ساتھی کا یہ چالیس سالہ نمبر بچوں کے ستھرے ادب کی بہترین مثال ہے اور ایک اہم سنگِ میل ہے۔