دل

اقبال نے انجمن ِ حمایت ِ اسلام کے اٹھارویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ 1903ء میں بارہ بند کی ایک نظم پڑھی تھی، جس کا عنوان تھا ’’ابرِ گہربار‘‘ یعنی ’’نعتِ عاشقانہ جناب سرورِ کائنات و فریاد امت بہ آستانہ آں ذاتِ برکات‘‘۔ یہ نظم عوام میں ’’فریادِ امت‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی اور کتابچے کی شکل میں الگ بھی چھپ گئی تھی۔ ’’بانگِ درا‘‘ مرتب کرتے وقت اقبال نے اپنی کئی نظمیں حذف کردیں مثلاً ’’نالہ یتیم‘‘، ’’یتیم کا خطاب ہلالِ عید کو‘‘، ’’سلامیہ کالج لاہور کا خطاب مسلمانانِ پنجاب کو‘‘۔ ’’فریادِ امت‘‘ میں سے گیارہ بند حذف کردیے اور صرف تیسرا بند باقی رکھا جس کا عنوان معنویت کے علاوہ ردیف کی رعایت سے ’’دل‘‘ تجویز فرمایا۔

قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل
التجائے ارنی سرخی افسانۂ دل
یارب! اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی
جادۂ ملک بقا ہے خط پیمانۂ دل
ابرِ رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یارب!
جل گئی مزرع ہستی تو اُگا دانۂ دل
حسن کا گنج گرانمایہ تجھے مل جاتا
تُو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل
عرش کا ہے کبھی کعبہ کا ہے دھوکا اس پر
کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانۂ دل
اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا
دل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانۂ دل
تُو سمجھتا نہیں اے زاہدِ ناداں! اس کو
رشک صد سجدہ ہے اک لغزش مستانۂ دل
خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے
وہ اثر رکھتی ہے خاکستر پروانۂ دل
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے