ہم جو سمجھے ہیں یقینا وہ نہیں کچھ اور ہے
رتبۂ محبوبِ رب العالمیں کچھ اور ہے
دل کو کیا بھائے گدایانِ حرم کی گفتگو
جانتا ہوں میں کہ درسِ شاہِ دیں کچھ اور ہے
مٹ گئیں ساری تفکر کی لکیریں دفعتاً
ایک سجدہ کیا کِیا رنگِ جبیں کچھ اور ہے
میری آنکھوں کی طلب ہے دید کعبہ کی مگر
میرے دل کی آرزو اے ہم نشیں کچھ اور ہے
سہوِ آدمؑ کی کہانی سب سناتے ہیں مگر
درحقیقت قصۂ خلدِ بریں کچھ اور ہے
چل رہے ہیں جس پہ ہم یہ راستہ اُن کا نہیں
سُنت و پیغامِ ختم المرسلیںؐ کچھ اور ہے
ہے مقدس آسمانی ہر صحیفہ ہر کتاب
لیکن ان میں شانِ قرآنِ مبیں کچھ اور ہے
بارشِ انوار ہوتی ہے وہاں پر رات دن
گنبدِ خضریٰ جہاں ہے وہ زمیں کچھ اور ہے
انوار عزمی