اکثر اوقات انسان کی ذہانت و فطانت، امانت و دیانت، کامل فرماں برداری ہی اس کی دشمن بن جاتی ہے۔ ایاز کی بھی انہی خوبیوں نے اس کے بے شمار دشمن اور حاسدین پیدا کردیے تھے جن کے دلوں میں اُس کے لیے نفرت و کدورت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ دوسری طرف سلطان محمود، ایاز پر ہی اعتبار کرتا اور اسے اپنے بہت قریب رکھتا تھا۔
ایک دن ایک آدمی نے سلطان محمود سے پوچھا کہ جناب آپ ایک آدنیٰ غلام ایاز کو اپنے تیس امیروں کے برابر کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم سب کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اکیلے ایاز میں کیسے تیس آدمیوں کی عقل و دانش مندی ہوسکتی ہے؟
سلطان محمود اُس وقت خاموش رہا اور کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دن بعد سلطان نے شکار کے ارادے سے اپنے تیس امیروں کو ساتھ لیا اور جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک قافلہ نظر آیا تو سلطان نے اپنے ایک امیر کو حکم دیا کہ وہ اس قافلے کے پاس جائے اور ان سے پوچھ کر آئے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں؟ امیر اس قافلے کے پاس گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر بتایا کہ ’’قافلہ شہر سے آرہا ہے‘‘۔ سلطان نے پوچھا کہ ’’قافلے والوں کو جانا کہاں ہے؟‘‘ امیر اس سوال کا جواب نہ دے سکا کیوں کہ اس نے قافلے سے یہ بات معلوم ہی نہ کی تھی۔
پھر سلطان نے دوسرے امیر کو بھیجا کہ وہ معلوم کرکے آئے قافلے کی منزل کہاں ہے؟ دوسرا امیر کچھ دیر میں جواب لے آیا کہ ’’قافلہ یمن جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
سلطان نے پوچھا ’’ان کے پاس سامانِ سفر کیا کیا ہے؟‘‘ امیر جواب نہ دے سکا کیونکہ اس نے یہ قافلے والوں سے پوچھا ہی نہ تھا۔
سلطان نے پھر تیسرے امیر کو روانہ کیا کہ ’’دیکھ کر آئو ان کے پاس کتنا سامان ہے؟‘‘ امیر فوراً معلوم کرکے آیا کہ ان کے پاس ضرورت کا ہر سامان موجود ہے۔ سلطان نے دوبارہ پوچھا کہ ’’قافلہ شہر سے روانہ کب ہوا تھا؟‘‘ امیر نے شرمندگی سے سر جھکا لیا کیوں کہ اس نے یہ معلوم ہی نہ کیا تھا۔
مختصر یہ کہ سلطان نے اپنے تمام امیروں کو قافلے کے پاس بھیجا اور سب ایک ایک سوال کا ہی جواب لاتے، قافلے سے مکمل معلومات حاصل کرنے کی کسی نے زحمت نہ کی۔ سب کے سب ناقص العقل ثابت ہوئے۔ سلطان نے ان امیروں سے کہا ’’تم لوگوں کو اعتراض تھا کہ میں نے ایاز کو تم سب کے برابر رتبہ کیوں دے رکھا ہے؟ میں تب تو خاموش رہا تھا، مگر اب میں جواب دوں گا۔ میں نے تم سب سے چھپ کر ایاز کو پہلے قافلے کے پاس بھیجا تھا اور جن تیس سوالوں کا جواب تم سب باری باری تیس چکروں میں لے کر آئے ہو، ایاز ان تیس سوالوں کا جواب ایک ہی مرتبہ میں لے آیا تھا۔ اب تم سب کو معلوم ہوا کہ ایازکو اتنی قدر و منزلت کیوں حاصل ہے؟‘‘
یہ سن کر سب امیر شرمندہ ہوگئے اور اپنے کیے کی معافی مانگی اور کہا ’’بلاشبہ ہم ایاز کی برابری نہیں کرسکتے۔ اس کی ذہانت و فطانت خداداد صلاحیتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو حُسن اور مٹی کو سُوندھی سُوندھی خوشبو عطا کی ہے۔‘‘
درسِ حیات:
سو سنار کی ایک لوہار کی۔
(حکایت رومیؒ)
شکر عافیت
ابوحمزہ محمد بن میمون سُکری محدث ہیں۔ ان کا معمول تھا کہ اگر ان کے پڑوس میں کوئی شخص بیمار ہوتا تو اس کی جتنی رقم علاج معالجہ پر صرف ہوتی، یہ اتنی ہی رقم اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردیاکرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بیماری سے بچا کر مجھ پر احسان فرمایا، اس کا شکر یہ ہے کہ کم از کم اتنی رقم صدقہ کردی جائے۔
حضرت ابوحمزہ کے پڑوسی ان سے اس قدر خوش تھے کہ ان کے ایک پڑوسی نے اپنا مکان بیچنے کا ارادہ کیا تو خریدار نے قیمت پوچھی، اس نے جواب دیا ’’دو ہزار تو گھر کی قیمت ہے اور دو ہزار ابوحمزہ کے پڑوس کی‘‘۔ حضرت ابوحمزہ کو پڑوسی کے اس جملے کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے چار ہزار روپے اپنے پاس سے پڑوسی کے پاس بھیج دیے اور فرمایا ’’رکھ لو اور گھر مت بیچو۔‘‘
(خطیب۔ تاریخ بغداد صفحہ 368۔369۔ جلد 3، مطبوعہ دارالکتب العربی، بیروت)
کبرِ نفس
مولانا محمد یوسف اصلاحی
اگر آپ اپنی تند مزاجی اور ناروا طرزِعمل کے باعث دوستوں کی نصیحت و تذکیر سے محروم ہیں، آپ ساتھیوں کی تنقیدوں پر بھڑک اٹھتے ہیں، اپنی کوتاہیوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بجائے غضب ناک ہوجاتے ہیں، تو بے شک آپ کبرِ نفس میں مبتلا ہیں۔ اپنی ذات کے بدترین دشمن ہیں۔ دنیا میں مخلص ساتھیوں کی رفاقت خدا کی عظیم نعمت ہے۔ اچھے ساتھیوں کی صحبت آدمی کی بہت بڑی سعادت ہے۔ غلطیوں پر ٹوکنے والے، کوتاہیوں پر متوجہ کرنے والے اور بھلائیوں کی تلقین کرنے والے ساتھی آپ کے محسن ہیں، ان کی خیر خواہی اور تذکیر و یاددہانی سے اگر آپ خود کو محروم کررہے ہیں تو یہ بدترین قسم کی محرومی ہے۔ آپ اپنی ہلاکت کے لیے خود گڑھا کھود رہے ہیں اور اس عمل کے دوران اپنے دونوں کانوں میں آپ نے انگلیاں ٹھونس رکھی ہیں کہ کسی تنبیہ کرنے والے کی آواز آپ کے کان میں نہ پہنچ سکے۔