راولپنڈی، اسلام آباد کا محاصرہ ختم ہوچکا ہے، فیض آباد کے مقام پر 22روز سے جاری مذہبی جماعت تحریک لبیک کا دھرنا حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی روشنی میں ختم ہوگیا۔ وزیر قانون زاہد حامد اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ میجر جنرل فیض حمید کے ذریعے طے پانے والے معاہدے کے مطابق ختم نبوت کے قانون کی شق میں تبدیلی کے حوالے سے راجا ظفرالحق کی انکوائری رپورٹ 30 دن میں منظرعام پر لائی جائے گی۔ دھرنا شرکاء کے خلاف حکومتی آپریشن کی انکوائری کے لیے ایک بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو تیس روز کے اندر اپنی رپورٹ مکمل کرے گا۔ دھرنے کے آغاز سے اختتام تک ہونے والے سرکاری اور غیرسرکاری املاک کے نقصان کا تعین کرکے اس کا ازالہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کریں گی۔ ملک بھر سے گرفتار ہونے والے تحریک لبیک کے کارکنان رہا کیے جاچکے ہیں اور مقدمات اور نظربندیاں بھی ختم کردی گئی ہیں۔ حکومت اور تحریک لبیک کی قیادت کے درمیان دھرنے کو ختم کرنے کے لیے طے پانے والے معاہدے پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا، مذہبی جماعت کی طرف سے علامہ خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری اور علامہ محمد وحید نور کے دستخط ہیں، جبکہ میجر جنرل فیض حمید کی وساطت سے یہ معاہدہ طے پایا اور معاہدے پر اُن کے دستخط بھی ہیں۔ معاہدے کے مسودے میں لکھا گیا ہے کہ تحریک لبیک یارسول اللہ جو کہ ایک پُرامن جماعت ہے اورکسی قسم کے تشدد اور بدامنی پر یقین نہیں رکھتی، یہ جماعت ختمِ نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت قانون میں ردوبدل کے خلاف اپنا نکتہ نظر لے کر حکومت کے پاس آئی مگر افسوس کہ اس کا صحیح جواب دینے کے بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا۔ معاہدے میں وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ بنیادی شرط تھی اور یہ بھی طے ہوا کہ تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کے مطالبے کے مطابق حکومتِ پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں 7B اور7C کا مکمل متن مع اردو حلف نامہ شامل کرلیا ہے، اس اقدام کی تحریک لبیک یارسول اللہ ستائش کرتی ہے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ معاہدہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا جس کے لیے ہم ان کے مشکور ہیں۔
یہاں تک تو معاملہ حکومت اور تحریک لبیک کے مابین رہا، اس معاہدے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس نے عدالتی تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ دھرنا کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ ’’اپنے ملک کے ادارے ہی اپنی ریاست کے خلاف کام کررہے ہیں، ریاست اور آئین سے کھیلنے کی ایک حد ہوتی ہے، آئین کے تحت کسی میجر جنرل کو ثالث بننے کا کیسے اختیار ہے؟ قوم کے ساتھ یہ تماشا کب تک چلتا ر ہے گا؟ یہ آپ نے کیا معاہدہ کیا ہے کہ انہوں نے آپ سے ہر بات منوائی! آج کی سماعت کے بعد میری جان کو خطرہ ہے۔ معاہدے میں ججوں سے معافی مانگنے کی شق کیوں نہیں ہے؟ ریاست کا اربوں کا نقصان کرکے آپ ان کو معاف کردیں گے؟ معاہدے کا نہیں فیض آباد خالی کرانے کا کہا تھا۔‘‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکم جاری کیاکہ بیرسٹر ظفر اللہ دس روز میں عدالت کو راجا ظفرالحق رپورٹ سے آگاہ کریں۔
یہ دھرنا کیوں شروع ہوا اور اس کی منصوبہ بندی کہاں ہوئی، دھرنا ختم ہوجانے کے بعد یہ سوالات اب کسی حد تک بے معنی تصور کیے جانے چاہئیں، لیکن اس معاہدے کی عبارت نے پارلیمنٹ کے اندر اُن تمام پارلیمانی جماعتوں، ارکان اور سینیٹرز کی کاوشوں کو سرے سے ہی نظرانداز کردیا جنہوں نے اپنے بھرپور پارلیمانی کردار کے ذریعے نامزدگی فارم میں پیدا ہونے والی کمزوری، خامی اور غلطی دور کرنے کے لیے کوشش کی۔ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ انتخابی اصلاحات بل میں حلف نامے میں بھی تبدیلی کا انکشاف ہوا تو اس پر پورے ملک میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس تبدیلی کو واپس لینے کا مطالبہ ہر کسی کی زبان پر تھا، حتیٰ کہ جن لوگوں نے اس ترمیم کی منظوری دی، وہ بھی واپسی کا مطالبہ کررہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے اسے پارلیمنٹ کی مشترکہ کوتاہی قرار دیا تھا۔ تحریک لبیک یارسول اللہ نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں 7B اور 7C کا مکمل متن مع اردو حلف شامل کرنے کے اقدام کی ستائش کی تھی مگر جن لوگوں نے آگے بڑھ کر پارلیمانی کردار ادا کیا انہیں نظرانداز کردینا مناسب نہیں۔ سینیٹر حمداللہ، سینیٹر سراج الحق اور صاحب زادہ طارق اللہ اور ان کی ترمیم کی بلا تامل حمایت کرنے والے سب پارلیمنٹرین قابلِ ستائش ہیں۔ جو الفاظ معاہدے میں درج کیے گئے اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو پارلیمنٹ کے لیے ستائش کے کوئی الفاظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہے جس نے سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی۔ سات معصوم شہریوں اور دو پولیس اہل کاروں کی جانیں اس سانحے میں گئی ہیں۔ حکومت نے ایک فیض آباد چوک کھلواتے کھلواتے پورا ملک ہی آدھے گھنٹے میں بند کرا دیا۔ یہی وہ صورتِ حال تھی جس کی وجہ سے قومی سلامتی کے ایک ادارے کو معاملہ حل کرنے کے لیے آگے بڑھنا پڑا۔ اس معاہدے پر عدالتی ریمارکس، جو بھی ہیں، جیسے بھی ہیں ان کی وضاحت خود آگے چل عدالت ہی کرے گی، کیونکہ مقدمہ ابھی عدالت میں زیر التواء ہے، لہٰذا سبق یہی ہے کہ جس کے پَر نہ ہوں اُسے اڑنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔ وزیر قانون اگرچہ اپنے منصب سے الگ ہوچکے ہیں تاہم اُن کا مؤقف ضرور پارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ امکان ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں ضرور اظہارِ خیال کریں گے۔
اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات پارلیمانی کمیٹی (PCER) اور اس کی تین ذیلی کمیٹیاں جو تمام سیاسی جماعتوں کے 34 نمائندوں پر مشتمل تھیں، دونوں ایوانوں کی نمائندگی کررہی تھیں۔ ان کی تشکیل اسپیکر قومی اسمبلی نے کی تھی اور وزارتِ قانون انتخابی قوانین کا جائزہ لے کر ایک مکمل پیکیج کی صورت میں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لیے پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، جوڈیشل کمیشن اور دیگر تمام اداروں کے ساتھ باہمی ربط سے وزیر قانون زاہد حامد کی نگرانی میں کام کررہی تھی۔ لہٰذا کریڈٹ اور غلطی دونوں اس کے ذمے تھے۔ اس کمیٹی نے ڈھائی سال میں 125 اجلاس کیے۔ کمیٹی کو دفتری معاونت قومی اسملی کے سیکرٹریٹ کی جانب سے فراہم کی گئی۔ مسودہ بل، مع ختم نبوتؐ کے اقرار نامے/ حلف نامے (بجائے خود اس کے حلف نامے میں بغیر کسی تبدیلی کے)’’بذریعہ ہذا اقرار کرتا ہوں‘‘ کو الفاظ ’’حلفاً اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ سے تبدیل کیا گیا، یہ PCER کی حتمی رپورٹ کا حصہ تھا جسے PCER کے چیئرمین سینیٹر اسحاق ڈار نے دونوں ایوانوں میں پیش کیا تھا۔ اس کی نقول تمام سینیٹر صاحبان اور ایم این اے صاحبان کو جاری کی گئیں۔ یہاں معاملہ کچھ الجھا ہوا ہے۔ یہ حکومت کا مؤقف ہے۔ آگے چل کر جب پارلیمانی الیکشن ریفارم کمیٹی کی جانب سے حتمی شکل دیا گیا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا تو ایوان نے مختلف دفعات میں متعدد ترامیم منظور کیں، جس میں اقرار نامے کے آخر میں’’اقرار صالح‘‘ کو متفقہ طور پر اختیار کرنا شامل تھا۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی جانب سے متعدد ترمیمات کی گئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی زیر بحث تبدیلی سے متعلق نہیں تھیں۔ سینیٹ کے فلور پر جونہی سینیٹر حافظ حمداللہ کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم سے یہ عیاں ہوا کہ اس تبدیلی سے حساس معاملے میں تنازع پیدا ہوگیا ہے، قائدِ ایوان سینیٹر راجا ظفرالحق اور وزیر قانون نے سینیٹر حمداللہ کی ترمیم جو کہ اصل میں سینیٹر سراج الحق نے پیش کی تھی، اصل زبان میں بحال کرنے کی تائید کی۔ سینیٹ میں مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر نے ترمیم کے لیے ووٹ دیا، تاہم حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا، اور نتیجتاً سینیٹر حافظ حمداللہ کی ترمیم کو34۔13 ووٹ سے شکست ہوئی۔ جب بل کو دوبارہ قومی اسمبلی میں لایا گیا، تو کوئی بھی ترمیم پیش نہیں کی جاسکی کیونکہ اُس وقت حکومت آرٹیکل203 میں ترمیم لاکر نوازشریف کی آئینی نااہلی ختم کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھی، لہٰذا سیاسی معاملے کے شور کے سامنے صاحب زادہ طارق اللہ کی ترامیم پیش کرنے کی کوشش بے سود رہی۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں شور، ہنگامہ کے ذریعے ایوان کو مچھلی بازار بنائے بیٹھی تھیں۔ جب اسپیکر اور پارلیمانی جماعتوں کو اپنی غلطی کا پورا احساس ہوگیا تو اسپیکر قومی اسمبلی نے مشاورت کے لیے اجلاس بلایا۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی مشاورت سے وزارتِ قانون نے ختم نبوتؐ کے حلف نامے کے اصل الفاظ کو بحال کرنے کے لیے ’’انتخابات (ترمیمی) بل‘‘ تیار کیا اور ساتھ ہی عام انتخابات کے انعقاد کا فرمان 2002ء کے آرٹیکل7… سی کو جو 17جون 2002ء کو متعارف کرایا گیا تھا، جس کی میعاد 26/ جون2002ء کو ختم ہوگئی تھی، یہ آرٹیکل (مع آرٹیکل 7ب کے جو قادیانیوں کی حیثیت سے متعلق تھا، اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور دس دن کی شرط کو ختم کرنے کے بعد اسے ازخود انتخابی ایکٹ میں شامل کیا جائے، اسے پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس تمام صورتِ حال کی روشنی میں حکومت کا مؤقف تھا کہ استعفے کا مطالبہ درست نہیں ہے، لیکن دھرنے نے ملک کا نظام زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا تھا، لہٰذا استعفیٰ دینا پڑا۔
اب اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ دھرنے کے خلاف آپریشن کیوں ہوا اور خرابی کا ذمہ دار کون ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں کا حکم تھا کہ حکومت تشدد کے بغیر راستے کھلوائے، لیکن حکومت اس میں ناکام رہی۔ اصولی طور پر وزیر داخلہ کو بھی مستعفی ہونا چاہیے تھا۔ چودھری نثار علی خان کا مؤقف بالکل درست ہے۔ وزیر داخلہ کی غلطی کی وجہ سے قومی سلامتی کا ادارہ آگے بڑھ کر حالات سنبھالنے پر مجبور ہوا۔ جس روز آپریشن ہوا، آپریشن کے پہلے گھنٹے میں ہی ناکامی ماتھے پر لکھی جاچکی تھی۔ آرمی چیف سے رابطہ ہوا تو انہوں آپریشن روک دینے کی تجویز دی اور کہا کہ معاملہ تشدد کے بغیر حل کیا جائے۔ نوازشریف کی تجویز پر وزیراعظم نے آرمی چیف سے رابطہ کیا تھا۔ وزارتِ داخلہ اس قدر نااہل ثابت ہوئی کہ اس نے تین سال پرانا ایک نوٹیفکیشن تاریخ بدل کر وزارتِ دفاع کو بھجوادیا۔ وزارتِ دفاع سے جو جواب آیا اس نے حکومت کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245کے تحت ضلعی انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج طلب کی تو عسکری حکام نے وزارتِ داخلہ سے متعدد وضاحتیں طلب کیں اور اپنے جواب میں کہا کہ پاک فوج تفویض کردہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار ہے، سول حکومت کی مدد پاک فوج کی آئینی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت ان نکات پر وضاحت دے کہ اعلیٰ عدلیہ نے آتشیں اسلحہ کے بغیر کارروائی کا حکم دے رکھا ہے؟ پولیس نے اپنی بھرپور اہلیت سے کام نہیں کیا، پولیس کے ساتھ رینجرز موجود تھی، پھر رینجرز کو تحریری احکامات کیوں نہیں دئیے گئے؟ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے روایتی طور پر فوج استعمال نہیں کی جاتی، معاملہ حل کرنے کے لیے فوج کا استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذاہنگامہ ختم کرنے کی خاطر فوج کی تعیناتی کے لیے ان معاملات کی وضاحت ضروری ہے۔ وزارتِ داخلہ کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھاکہ فوج کو فوری طور پر تاحکم ثانی تعینات کیا جائے، فوج آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کرے گی۔ فوجی جوانوں کی تعداد کا تعین کمانڈر 111 بریگیڈ کریں گے، فوج کی مناسب تعداد سول انتظامیہ کی مدد کے لیے پورے اسلام آباد میں تعینات کی جائے گی۔ وزارتِ داخلہ کی بیورو کریسی نے روایتی کام کیا اور ایک پرانا نوٹیفکیشن اٹھایا، اس کی تاریخ تبدیل کی اور بھجوادیا۔ اس نوٹیفکیشن میں بنیادی خامیاں تھیں۔ نوٹیفکیشن میں سیریل نمبر 2013ء کا درج تھا جبکہ فوج کی معاونت کا مقصد ایکو(ECO) سمٹ کانفرنس کی سیکورٹی بتایا گیا۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ عسکری ادارے نے حکومت سے رعایت برتی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ جب آپریشن کی ناکامی نے حکومت کے منہ پر کالک مَل دی تو وزارتِ داخلہ نے سب سے پہلے ٹی وی چینلز کی نشریات بند کرائیں، میڈیا کی رسائی روک دی، سوشل میڈیا پر پابندی لگادی۔ یہ ایسے اقدام تھے جو کابینہ کی منظوری کے بغیر اٹھائے گئے۔ اب کابینہ کے اگلے اجلاس میں اس کی مؤثر بہ ماضی منظوری لی جائے گی تاکہ اسے قانونی چھتری مہیا کی جا سکے۔ حکومت کا خیال تھا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جو سوالات دھرنے کے بارے میں اٹھائے جارہے ہیں اس سے سارا بوجھ دھرنا قیادت پر منتقل ہورہا ہے۔ لیکن امن وامان مہیا کرنا اور انسانی جانوں کی حفاظت تو حکومت کی ذمہ داری تھی۔ وزارتِ داخلہ اپنی یہ ذمہ داری فراموش کر بیٹھی اور عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ کے ریمارکس پر سوار ہوکر بغیر تیاری کیے فیض آباد خالی کرانے چڑھ دوڑی۔ وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت تین گھنٹوں میں دھرنا ختم کروا سکتی ہے۔ ایسا ہوسکتا تھا اگر حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرتی۔ حکومت کو ایک بہت بڑی غلط فہمی تھی کہ دھرنے کی وجہ سے اسے عالمی قوتوں کی حمایت مل رہی ہے کہ حکومت کو ایسے لائو لشکر کا سامنا ہے جو انتہا پسند ہے۔ لیکن یہ بات حقائق کے منافی تھی۔ اب حکومت ایک اور حماقت کرنے جارہی ہے کہ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی وزارتِ داخلہ میں تیار کی ہوئی ٹیم دھرنا کی ناکامی کا الزام دے کر تبدیل کی جارہی ہے۔ وزارتِ داخلہ نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے 4 افسران کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام آباد کے ایس ایس پی ساجد کیانی اور اے آئی جی کیپٹن الیاس تبدیل کیے جارہے ہیں۔ اسی طرح راولپنڈی کے سی پی او اسرار عباسی اور آر پی او فخر سلطان راجا کو بھی ہٹایا جارہا ہے۔