ملک کے سیاسی ماحول میں تلخی بڑھ رہی ہے، اپوزیشن جماعتیں انتخابات کے لیے نئی صف بندی کررہی ہیں، اور مسلم لیگ(ن) مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں اقتدار میں ہونے کے باوجود پانی سے باہر پڑی مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہے۔ حکومت دہکتے ہوئے کوئلوں پر کھڑی ہوکر نوازشریف کے حق میں صفائی دینے کی کوشش کررہی ہے، لیکن ان کے لیے فی الحال کسی گنجائش کی کوئی صورت نہیں نکل رہی۔ آخری حربے کے طور پر نوازشریف کھل کر سامنے آگئے ہیں اور رابطۂ عوام مہم شروع کردی ہے، جس کا آغاز ایبٹ آباد کے جلسے سے کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ان حالات میں مسلم لیگ(ن) کا یہ جلسہ کامیاب کہا جاسکتا ہے لیکن رائے عامہ کی طاقت انہیں عدالتوں اور مقدمات کی کچھار سے باہر نہیں نکال سکتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ نوازشریف اس نسخۂ کیمیا کو سمجھیں کہ ’’جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں‘‘۔ رابطہ عوام مہم مسلم لیگ(ن) کے کارکن کو متحرک کرنے میں تو مددگار ہوسکتی ہے، انہیں مقدمات سے نجات عدالتوں سے لڑ کر نہیں، قانون کے آگے سرنگوں کرکے ہی مل سکتی ہے۔ ایک حد تک نوازشریف کا یہ مؤقف درست ہے کہ جن اداروں کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، نہ آئین انہیں یہ ذمہ داری سونپتا ہے، انہیں یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم وہ اس سوال کا جواب کبھی نہیں دے پائیں گے کہ جو کام اُن کے ذمے تھا اس کی انجام دہی میں وہ کہاں تک کامیاب رہے؟ یہ بھی درست ہے کہ سیاسی معاملات کو اس طرح چلنے نہیں دیا گیا جس طرح کسی بھی جمہوری نظام میں چلتے ہیں۔ آئین جن اداروں کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے، ان کے لیے نشتر چلائے جاتے ہیں، تلخی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ اگر آج کے سیاسی حالات کا سنجیدگی سے تجزیہ کیا جائے تو یہی رائے صائب سمجھی جائے گی کہ آج کے سیاسی ماحول اور حقائق کے بلاشبہ تین فریق ہیں: نوازشریف، عدلیہ اور ادارے… جس روز یہ تینوں ایک صفحے پر آگئے، اچھلتے ہوئے مسائل بھی سمندر کے جاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے، اور یہ کام کسی بڑے اور وسیع البنیاد مکالمے کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ نوازشریف کے بے دخل کیے جانے کے بعد کوئی ایسی سیاسی قوت نہیں، جس کی جیب میں ملکی مسائل کا حل موجود ہو۔ تحریک انصاف تو بالکل بھی نہیں کہ عمران خان پر ہرگز اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ملکی مسائل کا حل اسی میں ہے کہ تین بڑے فریق اور سب مل بیٹھیں۔ مسائل اسی طرح حل ہوں گے۔ کوئی متفق ہو نہ ہو، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ نوازشریف کی برطرفی کو نوّے روز ہونے والے ہیں، اقتدار سے اُن کی بے دخلی کی صورت میں جس تبدیلی کی توقع کی جارہی تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ لہٰذا ہدف حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے گرد شکنجہ بڑھتا جارہا ہے۔ نوازشریف کو جس تیزی سے دیوار سے لگایا جارہا ہے اس صورت حال میں اب انہیں مزاحمت یا مفاہمت میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہے۔ پارٹی میں اس معاملے پر طویل بحث ہوئی ہے اور یہ بحث جاری ہے۔ تمام تر مشاورت کے باوجود نوازشریف اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پارہے۔ وہ کسی معجزے کے انتظار میں ہیں اور ضامن تلاش کررہے ہیں۔ انہیں ایسا ضامن چاہیے جو مقتدر قوتوں سے بھی زیادہ طاقت ور ہو۔ ایسا ضامن کون ہے؟ کوئی ملک نوازشریف کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا۔ اندرونی اور بیرونی حمایت کے منظرنامے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا مفاہمتی گروپ چاہتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کا ہدف حاصل کرلیا جائے، اس کے بعد عام انتخابات کے لیے جارحانہ سیاست کی جائے۔ مگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے تمام معاملات انتخابات سے قبل طے کرلیے جائیں۔ اگر مسلم لیگ(ن) راضی نہ ہو تو سینیٹ انتخابات سے پہلے ہی سیاسی بساط لپیٹ دی جائے۔ اسی لیے اس نے اب متبادل پلان کے بعد مزید متبادل نظام سے متعلق بھی ہوم ورک کرلیا ہے۔ نوازشریف بھی چاہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات ہوجائیں، تاہم وہ صرف اپنی شرط پر ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔ ان کی لندن سے حالیہ واپسی کے بعد مسلم لیگ (ن) مسلسل ایک ہی بات پر غور کررہی ہے کہ بحران سے باہر کیسے نکلا جائے، اور فیصلہ نوازشریف کو ہی کرنا ہے۔ اگر حالات تبدیل نہ ہوئے اور یہی صورتِ حال برقرار رہی تو سینیٹ انتخابات کا بستر بھی گول ہوسکتا ہے۔ آج کا سچ یہ ہے کہ حالات بگڑتے جارہے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ عام انتخابات کا فوری اعلان کردیا جائے اور عبوری حکومت قائم کی جائے۔ لیکن دشواری یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آئینی مجبوریوں کی گٹھری سر پر اٹھاکر میدان میں آجائے گا کہ آئندہ تین ماہ میں انتخابات کی تیاری کرنا ممکن نہیں ہے، اور یوں انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوسکیں گے اور عبوری حکومت کام کرتی رہے گی۔
جہاں تک نوازشریف کا تعلق ہے حالات تبدیل ہونے تک انہیں ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔ عدلیہ سے تصادم کی راہ اپناکر انہیں کچھ نہیں ملے گا۔