پرویز رشید اور رضا ربانی کی ’’ایمان‘‘ دشمنی

Dawn News

آپ کے خیال میں پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اسلام کے کتنا خلاف ہیں؟ دس فیصد، چالیس فیصد، پچاس فیصد، سو فیصد؟ جی نہیں، آپ کا خیال درست نہیں۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اسلام سے دوسو فیصد بغض رکھتے ہیں۔ اسلام کے لیے جتنا بغض ان کی زبانوں پر ہوتا ہے اُس سے زیادہ ان کے دلوں میں ہے۔ لیکن کبھی کبھی یہ بغض اس طرح زبان پر آتا ہے کہ ’’اشتہار‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔
آپ نے پرویز رشید کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ ماضی میں موصوف کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ اب عرصے سے وہ میاں نوازشریف کے قریبی دوست اور نواز لیگ کے اہم رہنما ہیں۔ ان کی اہمیت یہ ہے کہ ان کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے میاں نوازشریف کو سیکولرازم اور لبرل ازم کی جانب دھکیلا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کی ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں میں انہیں ’’پڑھا لکھا‘‘ شخص سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے سیکولر اور لبرل حلقے ان کی باتیں توجہ سے سنتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں بہ زبانِ انگریزی افسانے بھی لکھنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ خیر سے اب رضا ربانی کو ’’ادیب‘‘ بھی کہا جانے لگا ہے۔ مثل ہے کہ شراب، شراب سے مل کر زیادہ نشہ آور ہوجاتی ہے۔ پرویز رشید اور رضا ربانی مل جائیں تو پاکستان میں سیکولرازم اور لبرل ازم کی لَے اور بھی تیز ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ یہ لَے پاکستان کے بڑے اخبارات بالخصوص انگریزی اخبارات میں بڑی بڑی سرخیاں تخلیق کرنے لگتی ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال روزنامہ ڈان کراچی کی 4 نومبر 2017ء کی اشاعت ہے۔ اس روز ڈان کراچی نے اپنے چوتھائی صفحے پر تین کالمی سرخی تخلیق کی ہے۔ سرخی یہ تھی:
“Senate Wants Quaid’s motto restored to original order”
یعنی سینیٹ نے قائداعظم کے ’’موٹو‘‘ کو اصل ترتیب میں بحال کرنے کا مطالبہ کردیا۔ آپ کچھ سمجھے؟ آپ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کے باطن سے آگاہ نہیں تو ہمیں یقین ہے کہ اس سرخی سے آپ کچھ بھی نہیں سمجھے ہوں گے۔ خیر آیئے دیکھتے ہیں کہ ’’اصل قصہ‘‘ کیا ہے؟
روزنامہ ڈان کراچی کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق نواز لیگ کے سینیٹر پرویز رشید نے سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے قوم کو Unity‘ Faith اور Discipline کا موٹو دیا تھا۔ اردو میں اس موٹو کا ترجمہ اتحاد، یقین اور تنظیم تھا۔ لیکن سینیٹر پرویزرشید کے بقول قائداعظم کے اصل موٹو کی ترتیب بدل دی گئی ہے اور اب اس موٹو کو Faith‘ Unity اور Discipline کردیا گیا ہے۔ سینیٹر پرویزرشید نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ پہلے Faith کا ترجمہ یقین یا یقینِ محکم کیا جاتا تھا مگر اب ’’ایمان‘‘ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پرویز رشید نے مطالبہ کیا کہ Faithکا ترجمہ ’’ایمان‘‘ کے بجائے یقین یا یقینِ محکم کیا جائے اور قائداعظم کے موٹو میں Faithکو دوسرے نمبر پر رکھا جائے، یعنی Unity یا اتحاد کے بعد۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے پرویزرشید کے بغض میں اپنا بغض ملاتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ایکسپریس وے پر قائداعظم کے موٹو کو غلط ترتیب یا غلطOrder میں لکھا ہوا دیکھا ہے اور انہوں نے ایک بار نہیں تین بار اس ترتیب کو بدلنے کی ’’کوشش‘‘ کی ہے۔ اب آپ سمجھے کہ اس کالم کا عنوان ’’پرویز رشید اور رضا ربانی کی ایمان دشمنی‘‘ کیوں ہے؟ مگر یہ تو اس کہانی کا محض ایک پہلو ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو پرویز رشید اور رضا ربانی نے ملک کے مذہبی طبقات پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے قائداعظم کے موٹو کی Original ترتیب کو بدل دیا۔ حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پرویز رشید اور رضا ربانی قائداعظم کے موٹو کی اصل ترتیب کو بدل رہے ہیں۔ اس کا ٹھوس ثبوت قائداعظم کی اس تقریر کا متن یا Text ہے جس میں قائداعظم نے یہ موٹو استعمال کیا ہے۔ قائداعظم کی تقریر کا اصل متن یہ ہے:
“Faith, Unity, Discipline’ I impressed upon you as a your motto last time. If you want to live and up hold all that is dear to you, the precious heritage of Islam take your vow now and begin to work, work and work and organize the Muslim League.
(Star of India, 12 November-1942- Speeches and writings of Mr Jinnah by Jamil Uddin Ahmed- Vol-1-page-432-433)
قائداعظم کی اس تقریر کو دیکھا جائے تو اس میں موٹو کی اصل ترتیب Faith‘ Unity اور Discipline ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ تقریر میں Heritage of Islam کی اصطلاح کی موجودگی یہ بھی بتارہی ہے کہ قائداعظم کے ذہن میں لفظ Faith کا مفہوم ’’ایمان‘‘ تھا۔ یقین یا یقینِ محکم نہیں۔ اس سلسلے میں قائداعظم کی ایک اور تقریر کے حوالے سے بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے۔ قائداعظم نے کلکتہ یا کولکتہ میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
When the holy Prophet (Peace be Upon him) started to preach Islam he was a minority of one in the world, boy the force of his faith he challenged the whole univerce and wrought the greatest revolution in the shortest time with help of the Holy Quran. If the muslim procure the power of that “faith” organization, discipline and sacrifice they have no reason to fear the hostile forces of the entire wolrd.”
قائداعظم کی تقریر کے اس اقتباس میں Faith کا لفظ قرآن مجید کے تناظر میں استعمال ہوا ہے، اور قرآن مجید کے حوالے سے Faith کا ترجمہ ’ایمان‘ کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ قائداعظم کے موٹو کی Original ترتیب مذہبی طبقات نے نہیں بلکہ سیکولر اور لبرل عناصر نے بدلی ہے اور یہی عناصر Faith کے لفظ کو ’’سیکولرائز‘‘ کرکے قائداعظم، پاکستان اور پاکستانی قوم کے ساتھ ظلم کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال لفظ ’’ایمان‘‘ سے سیکولر عناصر کی نفرت کا بھی اظہار ہے۔ اس نفرت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ پرویز رشید نے اس مسئلے کو سینیٹ میں اٹھایا اور رضا ربانی نے فرمایا کہ وہ لفظ Faith کی ’’تنزلی‘‘ یا Demotion کے لیے تین بار کوششیں کرچکے ہیں۔
آیئے اس سلسلے میں ایک مستند لغت سے بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ مقتدرہ قومی زبان کی قومی انگریزی اردو لغت ڈاکٹر جمیل جالبی کی رہنمائی میں مرتب ہوئی ہے۔ اس لغت کے صفحہ 720 پر لفظ Faithکے جو معنی درج کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
عقیدہ، مذہب، ایمان، یقین، کسی شخص یا شے پر اعتماد یا بھروسہ، وفاداری
اس سلسلے میں انگریزی کی سب سے مستند لغت Oxford کی Advanced Learner`s Dictionary سمجھی جاتی ہے۔ اس لغت میں لفظ Faith کے جو معنی دیے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
Trust, complete confidence, put one`s faith in God, strong reqious belief, blind /unquestioning faith, faith is stronger then reason, the jewish and muslim faith. (page-417)
دونوں لغات سے صاف ظاہر ہے کہFaith کا ایک ترجمہ ایمان بھی ہے اور مسلمان معاشرے میں اس لفظ کا ترجمہ ایمان کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا، البتہ کسی غیرمذہبی معاشرے میں Faith کا ترجمہ یقین یا یقین محکم بھی کیا جاسکتا ہے۔ تو کیا قائداعظم غیرمسلم تھے؟ کیا وہ غیر مسلموں کے رہنما تھے؟ کیا دو قومی نظریہ ایک سیکولر نظریہ تھا؟ ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پرویز رشید اور رضا ربانی جیسے سیکولر اور لبرل عناصر جھوٹ کا کاروبار کررہے ہیں۔ فریب اور مکر کا پرچم اٹھائے پھر رہے ہیں۔ وہ ہماری تاریخ کو اور تاریخی حقائق کو اتفاقاً نہیں شعوری طور پر مسخ کررہے ہیں۔ چنانچہ وہ ہمارے مذہب اور ہماری تہذیب و تاریخ ہی کے نہیں، پاکستانی قوم اور پاکستانی ریاست کے بھی دشمن اور غدار ہیں۔ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیکولر عناصر ’’ایمان دشمنی‘‘ کا مظاہرہ اُس وقت کررہے ہیں جب معاشرے میں ہر طرف مذہب کا چرچا ہے۔ معاشرے میں سیکولر ازم توانا ہوا تو یہ لوگ مذہب دشمنی کی کس سطح پر ہوں گے؟
اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر اتفاق سے قائداعظم نے اپنے موٹو میں اتحاد کو پہلے اور ایمان کو دوسرے نمبر پر رکھا ہوتا تو کوئی بھی مسلمان اسے قبول نہ کرتا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے لیے اصل چیز ایمان ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد اور نظم و ضبط بھی ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ پرویز رشید اور رضا ربانی نے قائداعظم کے موٹو کی ترتیب اور لفظ Faith کی تعبیر کے سلسلے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے اُس سے لگتا ہے کہ انہیں قائداعظم بہت عزیز ہیں۔ حالانکہ صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ قائداعظم پر کبھی ایک پیسے کی کرپشن کا الزام نہ تھا مگر پرویز رشید اور رضا ربانی کی قیادتیں اور جماعتیں کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ آخر پرویز رشید اور رضا ربانی میاں نوازشریف اور آصف زرداری کی کرپشن پر سینیٹ میں شور کیوں نہیں مچاتے؟