’’اﷲ کے دین کے لیے جو کام ہم کو کرنا ہے‘ اس کے لیے ہمارے اندر دو صفتیں ضرور ہونی چاہئیں۔ ایک صبر‘ دوسری حکمت۔
صبر کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی راہ میں جو رکاوٹ بھی ڈالی جائے‘ اس پر نہ تو مشتعل ہوکر آپ ذہن کا توازن کھوبیٹھیں اور نہ دل شکستہ ہوکر اپنے مقصد کے بجائے رکاوٹ ڈالنے والے کا مقصد پورا کریں‘ بلکہ ہر رکاوٹ پیش آنے پر آپ کا عزم جوں کا توں قائم رہنا چاہیے اور جذبات کی گرمی سے اپنے دل و دماغ کو محفوظ رکھ کر آپ کو وہ راہ اختیار کرنی چاہیے جو حکمت کے مطابق ہو۔
حکمت یہ ہے کہ آپ بس ایک ہی لگی بندھی راہ پر آنکھیں بند کرکے چلنے کے عادی نہ ہوں‘ بلکہ آپ میں یہ صلاحیت ہو کہ ایک راستہ بند ہوتے ہی دس دوسرے راستے بروقت نکال سکیں۔ جس شخص میں حکمت نہیں ہوتی ‘ وہ ایک راہ کو بند پاکر بیٹھ جاتا ہے‘ اور اس کے ساتھ اگر وہ بے صبرا بھی ہو تو پھر یا تو اس رکاوٹ سے اپنا سر پھوڑ لیتا ہے یا راہ روی سے ہی باز آجاتا ہے۔
مگر جسے اﷲ نے صبر اور حکمت دونوں سے نوازا ہو‘ وہ جوئے رواں کی طرح ہوتا ہے‘ جس کی منزل کوئی چیز بھی کھوٹی نہیں کرسکتی۔ چٹانیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں اور دریا کسی اور طرف سے اپنی منزل کی طرف نکل جاتا ہے۔‘‘
(1963ء میں لاہور میں منعقدہونے والے کل پاکستان اجتماع عام سے سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ کے خطاب سے اقتباس)