حقیقت یہ ہے کہ ہم اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں مسلسل تجربے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اسلام اور جاہلیت کا یہ ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارا نظامِ حیات بنارہا ہے، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اورآخرت میں بھی۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے ہم اس حالت میں مبتلا ہیں کہ
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
نہ ہم امریکہ، روس اور انگلستان کی طرح پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی دنیا ہی بناسکتے ہیں، کیونکہ ایمان و اسلام سے ہمارا جو تعلق ہے وہ ہمیں اس راستے پر بے محابا نہیں چلنے دیتا، اور نہ ہم ایک سچی مسلمان قوم کی طرح اپنی آخرت ہی بناسکتے ہیں، کیونکہ یہ کام ہمیں وہ جاہلیت نہیں کرنے دیتی جس کے بے شمار فتنے ہم نے اپنے اندر پال رکھے ہیں۔ اس دو دلی کی وجہ سے ہم کسی چیز کا حق بھی پوری طرح ادا نہیں کرسکتے۔ نہ دنیا پرستی کا، نہ خدا پرستی کا۔ اس کی وجہ سے ہمارا ہر کام، خواہ دینی ہو یا دُنیوی، دو متضاد افکار اور رجحانات کی رزم گاہ بنا رہتا ہے، جن میں سے ہر ایک دوسرے کا توڑ کرتا ہے اور کسی فکر و رجحان کے مطالبے بھی کماحقہٗ پورے نہیں ہونے پاتے۔ یہ حالت بہت جلد ختم کردینے کے لائق ہے۔ اگر ہم اپنے دشمن نہیں ہیں تو بہرحال ہمیں یک سو ہوجانا چاہیے۔
اس یکسوئی کی صرف دو ہی صورتیں ممکن ہیں اور ہم کو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون کس صورت کو پسند کرتا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے سابق حکمرانوں نے اور اُن کی غالب تہذیب نے جس راستے پر اس ملک کو ڈالا تھا، اُسی کو اختیار کرلیا جائے اور پھر خدا اور آخرت اور دین اور دینی تہذیب و اخلاق کا خیال چھوڑ کر ایک خالص مادہ پرستانہ تہذیب کو نشو و نما دی جائے تاکہ یہ ملک بھی ایک دوسرا روس یا امریکہ بن سکے۔ مگر علاوہ اس کے کہ یہ راہ غلط ہے، خلافِ حق ہے اور تباہ کن ہے، مَیں کہوں گا کہ پاکستان میں اس کا کامیاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں کی نفسیات اور روایات میں اسلام کی محبت اور عقیدت اتنی گہری جڑیں رکھتی ہے کہ انہیں اکھاڑ پھینکنا کسی انسانی طاقت کے بس کا کام نہیں ہے۔ تاہم جو لوگ اس راستے پر جانا چاہتے ہیں وہ میری اس گفتگو کے مخاطب نہیں ہیں۔ ان کے سامنے ہم اپنا پروگرام نہیں بلکہ جنگ کا الٹی میٹم پیش کرنا چاہتے ہیں۔
یکسوئی کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور قومی زندگی کے لیے اُس راہ کا انتخاب کرلیں جو قرآن اور سنت ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دکھائی ہے۔ یہی ہم چاہتے ہیں اور یہی ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی مسلم آبادی کے کم از کم 999 فی ہزار باشندے چاہتے ہیں، اور یہی ہر اُس شخص کو چاہنا چاہیے جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کا قائل ہو۔ مگر جو لوگ بھی اس راہ کے پسند کرنے والے ہوں انہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن حالات سے ہم گزرتے ہوئے آرہے ہیں، اور جن میں اس وقت ہم گھرے ہوئے ہیں، ان میں تنہا اسلام اور خالص اسلام کو پاکستان کا رہنما فلسفۂ حیات اور غالب نظام زندگی بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور غیر اسلامی قدامت کی اُس آمیزش کو، جسے صدیوں کی روایات نے پختہ کررکھا ہے، تحلیل کریں اور قدامت کے اجزا کو الگ کرکے خالص اسلام کے اُس جوہر کو لے لیں جو قرآن اور سنت کے معیار پر جوہرِ اسلام ثابت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہمارے ان گروہوں کی مزاحمت، اور سخت مزاحمت کے بغیر نہیں ہوسکتا جو قدامت کے کسی نہ کسی جز کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔
(’’تحریکِ اسلامی: ایک تاریخ، ایک داستان… سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ ص 129۔130)