افتخار گیلانی
حال ہی میں ایک مقتدر انگریزی روزنامے میں حکومت ِپاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ جناب ریاض محمد خان نے اپنے ایک مضمون میں یہ دلیل دینے کی کوشش کی ہے کہ ’’تنازع جموں و کشمیر دراصل مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر کا مسئلہ ہے‘‘۔ اور ان کے بقول: ’’دیگر دو خطے جموں و لداخ غیرمسلم اکثریتی علاقے ہیں، اس لیے لاتعلق ہیں‘‘۔ تنازع کشمیر کو جغرافیائی و سیاسی تناظر میں دیکھنے کے بجائے انسانی زاویے سے دیکھنے کے لیے ان کا مؤقف یقینا ستائش کے قابل ہے، مگر متنازع ریاست کی آبادیاتی ساخت اور اس کے مختلف خطوں کی مذہبی شناخت پر ان کی کم علمی اور ناقص معلومات پر افسوس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے!جموں و کشمیر کی آبادیاتی (Demographic) ساخت کے بارے میں عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کے تین خطوں: ’’کشمیر وادی، لداخ اور جموں میں سے صرف ایک خطے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘‘۔ تاہم بھارتی وزارتِ داخلہ کے رجسٹرار آف سنسس کی طرف سے 2011ء میں کرائی گئی مردم شماری کے اعداد و شمار اس غلط فہمی کو دور کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے تمام خطے لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر جموں کا خطہ جو انتظامی لحاظ سے ایک ڈویژن ہے، دراصل تین خطوں یعنی جموں (توی ریجن)، پیر پنجال اور وادیٔ چناب میں منقسم ہے۔اوّل الذکر خطہ، یعنی جموں توی ریجن میں مختلف ہندو ذاتوں کی اکثریت ہے، جب کہ دیگر دونوں خطوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔جموں توی کے پانچ اضلاع ادھم پور، سانبھا، ریاسی، جموں اور کٹھوعہ کی آبادی 23 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس خطے کے بھی ریاسی ضلع میں ہندو اور مسلمانوں کا تناسب تقریباً برابر ہے:جموں اور کشمیر کی مردم شماری 2011ءکْل آبادی: ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار 302مسلمان 85,67,485 68.31%ہندو 35,66,674 28.43%سکھ 2,34,848 1.87%بودھ 1,12,584 0.89%پیر پنجال اور وادی چناب کے خطے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ پیرپنجال کا خطہ، راجوری اورپونچھ کے دو اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلمانوں کا تناسب 75 فی صد ہے۔اسی طرح ایک اور خطہ ہے وادی چناب، جو دریائے چناب کے دامن میں بسا ہوا ہے۔ اس خطے کو بھی انتظامی اعتبار سے جموں ڈویژن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے تین اضلاع ہیں: کشتواڑ، رام بن اور ڈوڈہ۔ تینوں اضلاع مسلم اکثریتی ہیں۔ اس خطے میں مسلم آبادی کا تناسب 60 فی صد ہے۔لداخ خطے کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ یہ بودھ اکثریتی علاقہ ہے، جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ اس خطے میں دو اضلاع لیہ اور کرگل ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے بودھ39.65 فی صد اور مسلمان46 فی صد ہیں۔ اس طرح مردم شماری کے یہ اعداد و شمار لداخ کے بودھ اکثریتی علاقہ ہونے کی تردید کرتے ہیں۔لداخ کے صرف ضلع لیہہ میں بودھ آبادی کا تناسب 66 فی صد ہے، جب کہ مسلمان 14فی صد ہیں۔ اس ضلع کیآبادی لیہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یعنی خطے کی مجموعی آبادی میں 2 لاکھ 74 ہزار 2سو 89 میں سے مسلمانوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 28 ہزار ہے، جب کہ بودھوں کی ایک لاکھ 8ہزار ہے۔وادی کشمیر کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ یہاں مسلم آبادی کا تناسب 96 فی صد ہے۔ریاست کی جملہ آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ 41 ہزار سے کچھ زیادہ ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 86لاکھ ہے، جب کہ ہندوئوں کی35لاکھ سے زیادہ اور سکھوں کی تقریباً ڈھائی لاکھ اور بودھ مت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ۔ ہندوستان ٹائمز کی لیڈرشپ سمٹ میں شرکت کرنے کے لیے جب پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوصاحبہ [م: 2007ء] نئی دہلی آئی تھیں اور موریہ شیرٹن ہوٹل میں مَیں ان کا انٹرویو لے رہا تھا تو انھوں نے [آسٹریلیا کے سابق چیف جسٹس اور اقوام متحدہ کے نمائندے] سراوون ڈکسن [م: 7جولائی 1972ء] کے ’کشمیر پلان‘ کے حوالے سے تفصیلات پر مجھ سے تبادلۂ خیال کیا۔میں نے کہا: ’’اگر پورے جموں و کشمیر میں کسی ایک ایشو پر اتفاقِ رائے ہے تو یہی ہے کہ ریاست کی وحدت برقرار رہنی چاہیے۔ تقسیم کی صورت میں جموں اور کرگل کی ایک بہت بڑی مسلم آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑے گی‘‘۔بے نظیر صاحبہ کا کہنا تھا: ’’مجھے تو بریفنگ کچھ اور ہی دی گئی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے اگلا سوال یہ کیا کہ: ’’پھر ان علاقوں میں کبھی کوئی تحریک برپا کیوں نہیں ہوتی؟‘‘میں نے جواب دیا کہ ’’ایک تو یہ بہت ہی دور دراز علاقے ہیں اور وادی چناب کے سوا دیگر علاقے لائن آف کنٹرول سے قریب ہونے کی بنا پر ہمہ پہلو فوجی حصار بھی ان علاقوں میں سب سے زیادہ ہے‘‘۔سابق خارجہ سیکرٹری محترم ریاض محمد خان صاحب کا ایک اور استدلال یہ بھی ہے کہ: ’’پاکستان کے آبی وسائل، یعنی دریائے چناب اور دریائے سندھ ریاست کے غیرمسلم اکثریتی علاقوں سے ہوکر گزرتے ہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں دریا اپنا بیشتر سفر بالترتیب وادی چناب اور ضلع کرگل میں طے کرتے ہیں اور یہ دونوں مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس طرح کا استدلال اُن چند ہندو جماعتوں کو تقویت فراہم کرتا ہے جو جموں کو الگ ریاست اور لداخ کو براہِ راست دہلی کے تحت انتظامی علاقہ بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ دراصل یہ مطالبہ سیاسی مایوسی کی پیداوار ہے۔ اگر جموں کو مذہبی اعتبار سے الگ کیا جاتا ہے، تو اس کے تینوں خطوں کو بھی الگ الگ کرنا پڑے گا، کیوں کہ مذہبی پیمانے پر خطے کی تقسیم کے معنی ہیں کہ پیرپنجال اور وادی چناب کو مسلم اکثریت ہونے کی بنا پر الگ کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں جموں توی ایک چھوٹے سے علاقے میں سمٹ جائے گا۔ایک منصوبے کے تحت ان علاقوں کو جان بوجھ کر وادی کشمیر سے الگ تھلگ رکھا گیا تھا، تاکہ مسلم اکثریتی آبادی کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرکے مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا جائے۔ وادی چناب اور پیرپنجال میں ایک عشرے سے زائد سیکورٹی ایجنسیوں کی شہ پر ولیج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ڈی سی) نے مسلم اکثریتی طبقے کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ عسکریت سے نبٹنے کے نام پر ان علاقوں میں سویلین افراد پر مشتمل فورس بنائی گئی تھی، جو نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ کسی کے سامنے جواب دہ، اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیا تھا۔ ان خطوں میں اس فورس کے ذریعے اغوا، تاوان، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں۔ ظاہر ہے کہ خمیازہ مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔2003ء اور 2005ء کے درمیان وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید [م: 2016ء] نے پیرپنجال کو دوبارہ وادیِ کشمیر سے جوڑنے کے لیے مغل روڈ کے احیا کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ یہ شاہراہ اب مکمل ہوچکی ہے، جو پونچھ کی بفلیاز تحصیل کو جنوبی کشمیر کے شوپیاں قصبے سے ملاتی ہے۔ اکثر مغل حکمران لاہور سے اسی سڑک کے ذریعے وادی کشمیر میں وارد ہوتے تھے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر [م: 1627ء] کا انتقال ہی بفلیاز کے پاس کشمیر واپسی پر راستے میں ہوا تھا۔ بغاوت کے ڈر سے انتقال کی خبر کو راز میں رکھنے کی غرض سے ملکہ نورجہاں [م: 1645] نے آلائش و اعضا نکال کر اسی علاقے میں دفن کردیے تھے اور بقیہ نعش اسی تزک و احتشام کے ساتھ لاہور کی طرف عازم تھی، گویا کہ بادشاہ خود قافلے کی قیادت کررہے ہوں۔ 1975ء میں شیخ محمدعبداللہ [م: 1982ء] نے اقتدار میں آتے ہی اس سڑک کو کھولنے کی بھرپور سعی کی، مگر کچھ رقوم کی عدم دستیابی اور کچھ بھارت کے وزارتِ دفاع کے اعتراضات نے اس کو التوا میں ڈال دیا۔ یہی حال کچھ کرگل اور وادی کشمیر کے گاندربل اضلاع کا ہے۔ زوجیلا پاس کے نیچے سے یہاں بھی ایک سرنگ کئی عشروں سے تعمیر اور تکمیل کا انتظار کر رہی ہے۔ان علاقوں میں مسلم آبادی کو احساسِ محرومی کا مزید شکار کرنے کے لیے اب تاریخ بھی مسخ کی جارہی ہے، تاکہ یہ باور کرایا جائے کہ ’’جموں کے نجات دہندہ، ڈوگرہ حکمران ہی تھے‘‘۔ اکھنور میں جیاپوتا کے مقام پر تو کئی برسوں سے راجا گلاب سنگھ [م: 1857ء]کا جنم دن منایا جاتا ہے۔ ان کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ شعوری طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ راجا گلاب سنگھ اور ان کے جانشینوں کو ’تاریخ کے ہیرو‘ بنا کر پیش کیا جائے۔ یہ بھی کوشش رہی ہے کہ راجا گلاب سنگھ اور راجا ہری سنگھ [م: 1961ء]کے یومِ پیدائش پر سرکاری چھٹی منظور کرائی جائے۔ اس سلسلے میں جموں شہر میں حال ہی میں ہتھیاروں سے لیس ہندو انتہا پسندوں نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے مہاراجوں، جبروتشدد کرنے والے مطلق العنان راجواڑوں اور عوامی مفادات بیچ کر اقتدار حاصل کرنے والے حاکموں کو تاریخ ساز ہیرو قرار دینا تاریخ کے ساتھ سب سے بڑا اور گھنائونا ظلم ہے۔ان ظالموں نے اس ریاست میں راج کن وسائل اور ذرائع سے حاصل کیا، وہ تاریخ میں درج ہے۔ راجا گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام، پھر لاہور کے سکھ دربار سے بے وفائی کرکے جبروتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ پھر ان کے لواحقین اور جانشین بدترین انداز سے جاگیردارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہے۔ ایسے ڈاکو راج کو بھلا جموں کا ہیرو کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟جب مہاراجا رنجیت سنگھ [م: 1839ء] نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبردست مزاحمت ہوئی۔ جموں میں لاہور دربار کے خلاف زبردست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اور دیگر ڈوگرہ جنگجو کررہے تھے۔ راجا گلاب سنگھ کے والد اور خود گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھا کر، مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجا رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کر میاں ڈیڈو اور دوسرے کئی ڈوگرہ جنگجوئوں کو قتل کیا۔ ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے، مہاراجا رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں میں وسعت دینے اور ڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کرنے کے عوض راجا گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔ لاہور دربار کو خوش کرنے کے لیے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ، بلادر، بسوہلی، بھمبر، ٹکری، کرمچی، کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ، میرپور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سر قلم کرکے ان کے پسماندگان کو ملک بدر کیا گیا۔ کھالوں میں بھوسہ بھرکر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیا اور وحشت اور سفاکیت کا دور جاری کیا گیا۔لیکن راجا رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کا یہ راجا، لاہور کے دربار سے غداری کرکے انگریزوں سے مل گیا۔ اس خدمت ِ خاص کے عوض 75 لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے ان پر تاوانِ جنگ ڈالا تھا، اس کی ادائیگی کرکے ’بیع نامہ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کا یہ صوبہ راجا گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔ 1846ء سے 1947ء تک جموں کے ان نام نہاد ’ہیروز‘ کے اس خانوادے نے جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ ظلم کی اس سیاہ رات میں اصل خونیں بارش یہاں کے مسلمانوں پر برسی۔
وادی کشمیر اضلاع
اضلاع کل آبادی ہندو فیصد مسلمان فیصدکپواڑہ 8,70354 37218 4.26 8,23286 94.59بڈگام 7,53745 10110 1.34 7,36054 97.65بارہ مولا 10,08039 30621 3.03 9,59185 95.15بانڈی پورہ 3,92232 8439 2.15 3,82006 97.39سری نگر 12,36829 42540 3.43 11,77342 95.19گاندربل 2,97446 5592 1.88 2,90581 97.69پلواما 5,60440 13840 2.46 5,35159 95.48شوپیاں 2,66215 3116 1.17 2,62263 98.51اننت ناک 1,07869 1318 1.2 10,57005 97.98کلگام 4.24483 4247 1.05 4,18076 98.49میزان 68,88475 1,68813 2.45 66,4095796.40
جموں اضلاع
اضلاع کل آبادی ہندو فیصد مسلمان فیصدکٹھوعہ 6,16435 5,40063 87.61 64234 10.42اودھم پور 5,54985 4,89044 88.11 59771 10.76ریاسی 3,14667 1,53896 48.90 1,56275 49.66جموں 15,29958 12,89240 84.26 1,07489 7.02سامبا 3,18898 275311 86.33 22950 7.19میزان 33,34943 27,47554 82.38 4,1071912.31
پیر پنجال اضلاع
اضلاع کل آبادی ہندو فیصد مسلمان فیصدپونچھ 4,76836 32604 6.83 4,31279 90.44راجوری 6,42415 2,21880 34.53 4,02879 62.71میزان 11,19251 2,54484 22.73 8,34158 74.52وادی چناب (اضلاع)اضلاع کل آبادی ہندو فیصد مسلمان فیصدڈوڈا 4,09936 1,87621 45.76 2,20614 53.81رمبن 2,83713 81026 28.55 2,00516 70.67کشتواڑ 2,30696 93931 40.71 1,33225 57.74میزان 9,24345 3,62578 39.22 5,5435559.97
لداخ لیہہ اور کرگل اضلاع
اضلاع کل آبادی ہندو فیصد مسلمان فیصد بودھ مت فیصدلیہہ 1,33487 22882 17.14 19057 14.27 88635 66.39کرگل 1,40802 10341 7.34 1,08239 76.87 20126 14.29میزان 2,74289 33223 12.11 1,27296 46.40 1,08761 39.65(Census of India 2011, Registerar of Census, Govt of India, Ministry of Home Affairs, New Delhi, 2015)