ڈاکٹر صابر کلوروی
اقبال پہلی بار 1933ء میں پشاور آئے۔ وہ افغانستان جاتے ہوئے ایک رات پشاور میں ٹھیرے۔ اس سفر کی غرض و غایت بظاہر یہی تھی کہ حکومتِ افغانستان اپنی تعلیمی اصلاحات کے ضمن میں علامہ اقبال کے مفید مشوروں کی طالب تھی، لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ نادر شاہ اُس احسان کا بدلہ چکانا چاہتا تھا جو علامہ نے اُسے برسراقتدار لانے کے لیے کیا تھا۔ سفرِ پشاور کے ضمن میں ہمیں علی بخش کی غیر مطبوعہ ڈائری سے خاصی مدد ملتی ہے۔
’’کابل کا سفر‘‘ کے عنوان سے علی بخش رقم طراز ہے:
’’غالباً جس حد تک مجھے یاد پڑتا ہے میں یہ کہہ سکوں گا کہ ایک مرتبہ جب میرے آقا کسی مقدمے کے سلسلے میں عدالت گئے ہوئے تھے تو ایک رعب دار شخص بڑی موٹر میں کوٹھی پر آیا اور مجھ سے ڈاکٹر صاحب کی بابت دریافت کیا۔ میں نے کہا جناب وہ عدالت گئے ہوئے ہیں، شاید تھوڑی دیر میں واپس آجائیں گے، آپ چاہیں تو کمرے میں تشریف رکھیں۔ اس پر اُس نے مجھے اپنے نام کا کارڈ دے کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو دے دینا۔ اس کے بعد وہ موٹر میں بیٹھ کر چلا گیا۔ اس کا گھر سے نکلنا تھا کہ میرے آقا بھی تشریف لے آئے۔ میں نے کارڈ اُن کو دے دیا، انہوں نے دیکھ کر کہا: وہ کب آئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ جناب وہ ابھی آپ کے آنے سے کچھ وقت پہلے گئے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: پاگل، وہ تو افغانستان کا بادشاہ تھا، اسے تھوڑی دیر تو بٹھایا ہوتا۔ میں نے جواب دیا: جناب مجھے کیا معلوم تھا! اُس وقت میرے آقا میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں رہتے تھے۔ پھر کچھ روز گزرنے کے بعد افغانستان سے خط آنے پر آقا نے وہاں جانے کی تیاریاں شروع کردیں اور مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا گیا۔
یہاں سفرِ کابل کا تاریخی پس منظر بیان کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ 17جنوری 1929ء کو بچہ سقہ نے امان اللہ خان کا تخت الٹ دیا۔ نادر خان اس کی سرکوبی کے لیے ہندوستان کے راستے داخل ہوا۔ نادر خان کی امداد کے لیے علامہ اقبال کی سربراہی میں 3 اکتوبر کو ’’نادر خان ہلالِ احمر‘‘ کے نام سے ایک فنڈ قائم کیا گیا۔ اس اثناء میں نادر خان نے افغانستان پر بھرپور حملے کے لیے علی خیل کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔ نادر شاہ کو حسبِ توقع کامیابی ہوئی۔ علامہ کی وساطت سے حکومتِ برطانیہ سے درخواست کی گئی کہ وہ افغانستان کے قومی جرگے کے فیصلے کے مطابق جنرل نادر خان کی بادشاہت کو تسلیم کرے، جو قبول کرلی گئی۔ 5 نومبر 1929ء تک ہلال احمر فنڈ میں آٹھ ہزار روپے جمع ہوئے جو نادر خان کو بھیج دیے گئے۔ ’’مجلس امدادیہ ملّی‘‘ نے اس رقم کی وصولی پر علامہ کو شکریے کا خط لکھا جس کے آخر میں کہا کہ افغانستان کے باشندے ان کی زیارت کا بے انتہا اشتیاق رکھتے ہیں اور اگر وہ یہاں تشریف لائیں تو حکومت و ملّت دونوں کی طرف سے مخلصانہ عزت و پذیرائی کی جائے گی۔ 14 دسمبر 1930ء کو نادر شاہ غازی نے علامہ کو جو خط لکھا اُس میں بھی علامہ کی مساعی کو سراہا گیا۔ خط میں لکھا تھا:
’’افغانستان کے لیے آپ ہمیشہ جن صمیمانہ احساسات کا اظہار فرماتے ہیں اور دورِ انقلاب میں آپ کی طرف سے اور ہندوستان کے مسلمان بھائیوں کی طرف سے ہمدردی اور دوستی کے جن جذبات کا عملی اظہار ہوا ہے ان کے لیے ممنون ہوں اور ملتِ افغانستان بھی ہندوستان کے مسلمان بھائیوں کی ہمدردی کی ممنون ہے۔‘‘
نادر خان کی حکومت مستحکم ہوئی تو اس نے افغانستان میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا۔ افغانستان میں ثانوی اسکول تو موجود تھے لیکن اعلیٰ تعلیم کا مناسب بندوبست نہیں تھا۔ حکومت کابل میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی لیکن قدامت پسند علماء کسی طرح بھی سائنسی تعلیم کے فروغ کے حق میں نہ تھے۔ اس مقصد کے لیے حکومتِ افغانستان نے ہندوستان سے ایک تعلیمی وفد کو افغانستان آنے کی دعوت دی تاکہ مجوزہ یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں مشورہ کیا جائے۔ اس وفد میں علامہ اقبال کے علاوہ سید سلیمان ندوی، سرراس مسعود وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی، پروفیسر ہادی حسن علی گڑھ یونیورسٹی اور غلام رسول بیرسٹر (لاہور) کو شامل کیا گیا۔ کابل جانے سے پہلے علامہ نے لاہور میں جو بیان دیا اُس سے سفر کے مقاصد پر روشنی پڑتی ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’اعلیٰ حضرت نادر شاہ غازی نے ہمیں تعلیمی معاملات میں زیر تعلیم طلبہ کی رہنمائی اور کابل میں مجوزہ یونیورسٹی کے قیام کے متعلق دعوت دی ہے، ہم اس دعوت کی قبولیت کو اپنا فرض تصور کرتے ہیں۔ افغانستان کا نوجوان طبقہ علومِ حاضرہ کے حصول اور ان کی اپنے مذہب و کلچر کے ساتھ مطابقت کے لیے بے حد آرزومند ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم بقدرِ استطاعت ان کی ہر ممکن امداد کریں۔ ذاتی طور پر میری یہ رائے ہے کہ تعلیم کو مکمل طور پر دُنیوی بنادینے سے کسی جگہ بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ ہر ملک کی ضروریات جداگانہ ہیں، لہٰذا ان کے تعلیمی مسائل پر بھی ان کی ضروریات کی روشنی میں بحث کی جانی چاہیے۔ کابل میں ایک جدید یونیورسٹی کے قیام اور اسلامیہ کالج پشاور کو ایک یونیورسٹی بنادینے سے افغانستان اور ہندوستان کی سرحدوں کے درمیان ذکی اور ذہین افغان آبادی کو بے انتہا فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔‘‘
علامہ اسی روز لاہور سے بذریعہ فرنٹیئر میل پشاور روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ سرراس مسعود بھی تھے۔ وفد میں جو لوگ علامہ کے ساتھ شامل تھے ان میں سید سلیمان ندوی بھی تھے لیکن انگریز حکومت نے پاسپورٹ جاری کرنے سے پہلے تحقیق و تفتیش میں خاصا وقت ضائع کردیا جس کی وجہ سے ندوی صاحب لاہور یا پشاور میں علامہ کے ساتھ شریک ِسفر نہ ہوسکے۔ سید سلیمان ندوی 24 اکتوبر کو پشاور پہنچے، جہاں سے وہ 26 اکتوبر 1933 ء کو کابل میں وفد میں شامل ہوگئے۔
علامہ 20 اپریل کی شام کو پشاور پہنچے تھے۔ پشاور ریلوے اسٹیشن پر حکومتِ افغانستان کی طرف سے گاڑیاں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان کی گاڑی بھی اسٹیشن پر موجود تھی۔ صاحبزادہ صاحب اُس زمانے میں انگریز حکومت میں وزیر تھے۔
علامہ کا استقبال کرنے والوں میں اسلامیہ کالج پشاور کا ایک وفد بھی شامل تھا جس کی قیادت تاریخ کے پروفیسر محمد شفیع صاحب کررہے تھے۔ ان کے ہمراہ اسلامیہ کالج کے طلبہ کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔ پروگرام یہ تھا کہ علامہ کو اسلامیہ کالج لے جایا جائے گا جہاں ان کے اعزاز میں چائے کی دعوت ہوگی۔ لیکن صاحبزادہ صاحب مُصر ہوگئے اور یوں علامہ تھوڑی دیر کے لیے بادلِ نخواستہ صاحبزادہ صاحب کے بنگلے پر رکے۔ صاحبزادہ صاحب کا بنگلہ ریلوے اسٹیشن کے بالمقابل تھا جہاں ایک زمانے میں پاسپورٹ آفس قائم کیا گیا تھا۔ یہاں علامہ نے کچھ دیر قیام کیا اور چائے نوش کی۔ صاحبزادہ صاحب نے رات کے کھانے کے لیے اصرار کیا لیکن علامہ نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اپنی رہائش گاہ پر جانا چاہتے ہیں تاکہ سفر میں اُن کی جو نمازیں قضا ہوئی ہیں انہیں ادا کیا جاسکے۔
حکومتِ افغانستان کی طرف سے علامہ کی رہائش کا بندوبست ڈینز ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ علامہ کی سید سلیمان ندوی سے جو خط کتابت ہوئی ہے اُس میں اس ہوٹل کا ذکر موجود ہے۔ پروفیسر امداد حسین مرحوم نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ اس مقصد کے لیے ڈینز ہوٹل میں کمرہ نمبر 6 اور 7 مخصوص کیے گئے تھے۔
علامہ کے سفرِ پشاور کی خاص بات یہ تھی کہ جب علامہ صاحب صاحبزادہ صاحب کے گھر سے باہر نکلے تو اسلامیہ کالج کے طلبہ ان کی گاڑی کو کھینچ کر ڈینز ہوٹل لے گئے۔ اس مقصد کے لیے لمبے لمبے رسّے موٹر کے ساتھ باندھ دیے گئے تھے۔ ان طلبہ میں خیال بخاری بھی شامل تھے جو اُس وقت اسلامیہ کالج میں طالب علم تھے۔ خیال بخاری بتاتے ہیں کہ حکومتِ افغانستان کی طرف سے جو موٹر علامہ کو لینے آئی تھی اُس کا رنگ سیاہ تھا جسے پندرہ بیس طلبہ کھینچ کر ہوٹل تک لے گئے تھے۔
پشاور میں علامہ کا قیام صرف ایک رات تھا۔ وہ سفر کی تھکاوٹ کے باعث اسلامیہ کالج نہ جاسکے۔ تاہم بعض حضرات اس ہوٹل میں علامہ سے ملے جن میں عبدالودود قمر، پروفیسر امداد حسین، ابوالکیف کیفی سرحدی اور اسلامیہ کالج پشاور کے پروفیسر محمد شفیع کے بارے میں ٹھوس شہادتیں موجود ہیں۔ ڈینز ہوٹل میں افغانوں کا ایک نمائندہ وفد بھی علامہ سے ملا جس کے اراکین کے نام معلوم نہیں ہوسکے۔ اس وفد میں اخبار ’’افغان‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے ایڈیٹر خان میر ہلالی (متوفی 1973ء) بھی شامل تھے۔ اس وفد کی علامہ سے کیا گفتگو ہوئی، خوش قسمتی سے یہ روداد منظوم شکل میں ہلالی صاحب کے پشتو شعری مجموعے ’’افکارِ ہلالی‘‘ میں شامل ہے جو فروری 1961ء میں منظور عام پریس سے انور بیگ غازی نے مرتب کرکے شائع کیا تھا۔ اس کتاب میں ’’اقبال اور پشتون‘‘ کے عنوان سے ہلالی صاحب کی علامہ اقبال سے ملاقات کا حال بیان ہوا ہے۔ 34 اشعار پر مشتمل اس پشتو نظم کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’ڈینز ہوٹل میں علامہ اقبال نے جو آسمانِ کمال کا درخشندہ ستارہ بھی ہے اور اسرارِ حقیقت کا شناسا بھی، فرمایا کہ ہر قوم کو اللہ تعالیٰ نے ایک شان بخشی ہے۔ ترکی قوم کی شان و شوکت اور دبدبہ ختم ہوگیا تھا جسے مصطفی کمال نے دوبارہ زندہ کیا۔ مغلوں اور سادات نے بھی اپنا زمانہ گزار لیا۔ سلجوقیوں کے جمال کا زمانہ بھی گزر گیا۔ تمہیں تو نظر نہیں آرہا میری دوربین نگاہیں ان ہیروں کو دیکھ رہی ہیں جو پختونوں کی راکھ میں چھپے ہوئے ہیں۔ میں اس قوم کے ہاتھ میں راہبری کا جھنڈا دیکھ رہا ہوں، وقت آرہا ہے کہ پختون قوم اپنے کمال کو آشکارا کرے گی، یہ فطرت کے رازوں سے پردے ہٹائے گی اور اسلام کا ستون ثبوت ہوگی۔ پختون شاہین کی طرح پہاڑوں میں پروان چڑھتے ہیں اور شیروں کی طرح دشت و صحرا میں پلے بڑھے ہیں۔‘‘
علامہ کے اس تبصرے پر ہلالی صاحب نے علامہ سے کہا:
’’اے علامہ، آپ کی نگاہ بلند اور سوچ ارفع ہے، آپ قوموں کی زندگی اور موت کے رازوں سے واقف ہیں۔ آپ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے سربستہ راز آشکارا کیے ہیں۔ لوگ تو افغانوں کا مذاق اڑاتے ہیں، آپ ہیں کہ پشتونوں کے متعلق اتنے بلند خیال رکھتے ہیں۔‘‘
علامہ نے جواب دیا:
’’پشتون قوم میں زندگی کی نشانیاں موجود ہیں۔ زندگی سے محبت کرنے والے ہی لازوال زندگی پاتے ہیں۔ افغانوں کے خصائل عربوں سے ملتے ہیں۔ افغانوں کی تاریخ ننگ و غیرت کے واقعات سے درخشندہ ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ دستِ قدرت پختون قوم کو تاج بخشنے والا ہے اور اس کے کاندھوں پر قیادت کا دوشالہ رکھا جانے والا ہے۔‘‘
اس پر خان میر ہلالی نے کہا:
’’علامہ صاحب پختون تو انگریزوں کے غلام بن گئے ہیں۔ انگریز قبائل پر حملے کررہا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ انگریز پر زوال و ادبار آجائے؟‘‘
دانائے راز نے سر اٹھایا اور ہلالی صاحب کو گھورتے ہوئے کہا:
’’فرنگی کا کاسہ بھر گیا ہے، بہت جلد اس کے مکرو فریب کا جال تار تار ہوجائے گا، اگر یہ قوم ایک مرکز پر جمع ہوگئی تو انگریزوں کے غرور کو خاک میں ملادے گی۔ تب یہ ملت جسدِ واحدہ بن جائے گی اور غیرت اور ناموس کی بے مثال داستانیں رقم کرے گی۔‘‘
اقبال نے ایسے ہی خیالات کا اظہار اپنی اُس تقریر میں بھی کیا جو انہوں نے ’’انجمنِ ادبی کابل‘‘ کے اجلاس میں کی۔ آپ نے فرمایا:
’’مسولینی نے ایک اچھا نظریہ قائم کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اٹلی کو چاہیے کہ اپنی نجات حاصل کرنے کے لیے ایک کروڑپتی کو پیدا کرے جو اٹلی کے گریبان کو اینگلوسیکسن اقوام کے قرضہ جات کے چنگل سے چھڑا سکے، یا کسی دوسرے دانتے کو پیدا کرے جو نئی جنت پیش کرے، یا کسی نئے کولمبس کو حاصل کرے جو ایک نئے براعظم کا پتا چلائے۔ اگر آپ مجھ سے افغانستان کی نجات کے متعلق سوال کریں تو میں کہوں گا کہ افغانستان کو ایک ایسے مرد کی ضرورت ہے جو اس ملک کو اس کی قبائلی زندگی سے نکال کر وحدتِ ملّی کی زندگی سے آشنا کرے۔‘‘
ڈینز ہوٹل میں ایک رات قیام کے بعد علامہ دوسرے روز یعنی 21 اکتوبر 1933ء کو کابل کے لیے روانہ ہوئے۔ مہمانوں کے لیے دو موٹروں کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ڈینز ہوٹل کی یہ عمارت کچھ ہی عرصے میں نئی نسلوں کے لیے قصۂ پارینہ بن جائے گی، اب اسے ایشیا کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہونے کا اعزاز دلایا جارہا ہے۔ میرے خیال میں اگر اس مرکز کے ایک حصے کو علامہ اقبال سے منسوب کردیا جائے تو اسے ایشیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا مرکزِ نگاہ بنایا جاسکتا ہے۔