اسلام اور سیکولر ازم کی بحث ‘ ایک سیکولر مغالطہ

سید شاہد ہاشمی
سترہ برس کا عرصہ، ایک فرد کی زندگی کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اتنے برس پہلے تک، باقاعدگی سے ’’دستک‘‘ دیتا رہا۔ پھر یہ سلسلہ رُک گیا اور رُکا رہا۔ قلم زنگ آلود ہو گیا۔ لکھنے کی عادت نہ ہو، تو نہ قلم میں روانی ہوتی ہے اور نہ خیال میں جَولانی۔ یہ خوف بھی دامن گیر ہو جاتا ہے کہ اب وہ لکھ بھی سکتا ہے یا نہیں۔ کچھ یہی کیفیت، میری بھی ہے۔
برادر ڈاکٹر عبدالواسع شاکر۔۔۔ کہ ادارۂ ’’جسارت‘‘ و ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے حالیہ منتظمِ اعلیٰ ہیں۔۔۔ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پھر سے لکھنا شروع کروں۔۔۔ تو نئے سرے سے ارادہ اور ہمت کر رہا ہوں کہ یہ مشکل سیڑھیاں دوبارہ چڑھنی شروع کروں۔ پہلے بھی، ربِ کریم و عظیم کی توفیق ہی شامل حال ہوتی تھی تو کچھ لکھ پاتا تھا۔ ورنہ اپنا حال یہ رہا ہے کہ اپنی خواہش و مرضی سے کچھ لکھنا چاہا، تو ایسا لگا ہے کہ طائرِ خیال کہیں رُوپوش ہو گیا ہے اور رَہوارِ قلم کو بریک لگ گئی ہے۔ سو، فضل و کرم کی بارش کرنے والے ربِ کے نام سے۔۔۔ یہ ’’دستک‘‘ کا ازسرِ نو آغاز ہے۔ کوئی یہ تحریر پڑھ لے تو ہمارے لیے دعا بھی کر دے۔ ممنون ہوں گا۔
آغاز کے طور پر ایک چھوٹی سی تحریر،آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔
کچھ عرصہ قبل، ہندوستان کے مشہور عالم دین اور جمعیتِ علمائے ہِند کے رہنما، مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی ایک تقریر کی یہ سُرخی شائع ہوئی ہے، کہ ہندوستان میں ’’سیکولراِزم کے تحفظ کے لیے، ہم خون کا آخری قطرہ بہانے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ اس کے بعد، امیرِ جماعت اسلامی ہند، مولانا سید جلال الدین عمری کا ایک بیان بھی چَھپا ہے کہ ہم سیکولراِزم کے مخالفین کا مقابلہ کریں گے۔
اِس اعلان و بیان میں، ہند کے مسلمان دینی رہنمائوں کی جانب سے ’’سیکولراِزم‘‘ کی جو حمایت نظر آرہی ہے۔۔ اُس پر بعض اَحباب حیران و پریشان ہیں۔ جب کہ کچھ دوسرے لوگ، پاکستان کا حوالہ دے کر، خلطِ مَبحث کررہے ہیں۔ اِس حوالے سے، چند گزارشات، یہاں پیشِ خدمت ہیں۔
ہندوستان میں ’’سیکولرازم‘‘ کی حمایت، تمام اقلیتیں (بشمول مسلمانانِ ہِند)، اِس لیے کرتی ہیں کہ وہ خوف زدہ ہیں۔ اُن کا صدیوں کا، (اور اب بھی جاری) مشاہدہ و تجربہ، اُنہیں یہ باور کراتا ہے کہ اگر اُن کے ملک میں، اکثریت کے مذہبی عقائد و اَقدار کی بنیاد پر۔۔ کوئی ’’ہندو راج‘‘ قائم ہوگیا۔۔۔ تو غیر ہندوؤں کی زندگی اَجیرن ہوجائے گی۔ صرف غیر ہندو، اقلیتیں ہی نہیں۔۔۔ بلکہ ’’ہندو شیڈیولڈ کاسٹس‘‘، ’’آدی باسی قبائل‘‘ اور ’’کم ذات ہندو‘‘ بھی۔۔۔ انسانی شَرَف و وقار سے نیچے گرادیے جائیں گے۔
ایسا ہونا اِس لیے یقینی سمجھا جاتا ہے کہ ’’ہندو مَت‘‘ کی تعلیمات و اَقدار، اُس سے وابستہ طویل تاریخ و تجربہ، صدیوں سے بنا بنایا اور پُختہ ہندو مائنڈ سیٹ اور ہندو سماجی ڈھانچہ بھی۔۔۔ اور اِس مِشَن کے لیے، سو سال سے سرگرم ہندو قیادت کا عزم و اعلان بھی۔۔۔ یہی تصور اور تصویر پیش کرتا ہے۔ ’’ہندو راشٹریہ اور راج‘‘ کے قیام، اور اُس کے نتیجہ میں ہونے والی ناانصافی اور سماجی و سیاسی طور پر نئے ڈھانچے کی تشکیل کے اذیت ناک نتائج کا خوف، محض اندیشہ نہیں۔۔۔ صد فی صد حقیقی ہے۔
ہندوستان کی آبادی میں مذہبی اقلیتیں ایک تِہائی ہیں۔ بقیہ دو تہائی آبادی بھی، ہندو مَت کی داخلی تقسیم کی بِنا پر، کئی درجوں اور طبقوں پر مشتمل ہے۔ سیاسی و سماجی اور مذہبی قیادت کا غالب اور نہایت طاقتور حصہ، اُوپری ذات کے ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ حاکم، طاقتور اور غالب طبقہ۔۔۔ نچلی ذات والوں کو گمراہ کرکے نہ صرف اُن کے ووٹ بٹورتا ہے۔۔۔ بلکہ اقلیتوں کے خلاف اُکساتا اور لڑاتا بھی رہتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسی صورت میں ہے کہ ابھی کوئی ’’ہندو راشٹریہ‘‘ باقاعدہ ظہور پذیر نہیں ہوا ہے۔ لیکن اگر اُس کا ظہور ہوگیا، تو اقلیتوں اور کمزوروں پر کیا بیتے گی۔۔۔ یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔۔ مسلمانوں کے لیے خصوصاً، اور دیگر اقلیتوں کے لیے عموماً۔
ایسے خوف کو دُور کرنے اور اِس کو حقیقت نہ بننے دینے کی خواہش و کوشش، بالکل فطری و منطقی بات ہے۔ لہٰذا اگر ہندوستان کے مسلمان، اپنے ملک کو سیکولر بنانے میں اور رکھنے میں سنجیدہ ہیں، فعّال ہیں، یک آواز ہیں۔۔۔ تو اُنہیں ایسا ہی کرنا زیبا ہے۔
انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والی، اور بعد ازاں ’’ہندوستانی جمہوریہ‘‘ تشکیل دینے والی۔۔۔ وہاں کی قومی قیادت،۔۔۔ Founding Fathers of India۔۔۔ اور اُن کا بنایا ہوا دستور۔۔۔ ایک ’’سیکولر جمہوریہ‘‘ کی یقین دہانی کراتا ہے۔ جو لوگ اِس کے برعکس، کسی ’’ہندو راج اور راشٹریہ‘‘ کے قیام کی بات کرتے ہیں، دراصل وہ لوگ مِلّی عہد شِکنی، اور ہندوستان کی سماجی و عوامی یکجہتی و ہم آہنگی کے تار و پود بکھیرنے کی بات کرتے ہیں۔
اب آئیے پاکستان کی طرف۔ بعض لوگ پاکستان پر بھی اِسی اندازِ فکر اور ماڈل کا انطباق کرنے کرنے کی کوشش میں اِبہام اور مغالطہ کو جنم دیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے، مختلف اقسام کے لوگ اور لا بیاں ہیں۔ ایک گروہ بِکاؤ مال اور فروخت شدہ علم و دانش والوں کا ہے۔ دوسرا گروہ اسلام بیزاروں اور زندگی و سماج میں، کُھل کھیلنے کے طلبگاروں کا ہے۔ تیسرا، مغربی دانش سے مرعوب، یا خوف زدہ، یا کنفیوزڈ ’’معذرت خواہوں‘‘ کا گروہ ہے۔ جبکہ ’’روشن خیالی‘‘، ’’جِدَّت طرازی‘‘ اور ’’اصلاح شدہ اسلام‘‘ کے علَمبرداروں پر مشتمل ایک چوتھا گروہ بھی ہے۔ اِس چوتھے گروہ کے لوگ عُرفِ عام میں ’’مخالفِ اسلام‘‘ نہیں ہوتے۔ لیکن ’’اسلامیت‘‘ اور ’’عدم اسلامیت‘‘ کی ہر کشمکش میں، اِن کا وزن۔۔۔ ہمیشہ دوسرے پلڑے میں پڑتا ہے۔ اِن میں سے اکثر تو ’’شارحینِ قرآن و سیرت‘‘ کے کسی اعلا و برتر مقام پر براجمان ہوکر، قطعیّت کے ساتھ وہ وہ اَحکامات جاری فرماتے رہتے ہیں، جو اصلاً و عملاً ’’عدم اسلامیت‘‘ ( فی زمانۂ حال، سیکولر اِزم اور لبرل اِزم) کی تقویت کا سامان ہوتے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں یہ بات اچھی طرح جاننی، سمجھنی، ماننی اور یاد رکھنی چاہیے کہ اِس کا قیام و بقا، اِس کا استحکام و اِرتقا اور اِ س کی ترقی و تعمیر کا ناگزیر عُنصر، ’’اسلام‘‘ ہے، خالص اسلام۔۔۔!! وہ اسلام، جو نہ تو ’’آرتھوڈاکس‘‘ ہے، نہ ’’کیتھولک‘‘ ہے، نہ ’’پروٹیسٹنٹ‘‘ ہے، اور نہ ’’کوپٹِک‘‘۔۔۔ صرف اسلام ہے، ’’بے آمیز‘‘ اسلام۔۔۔ ’’قدیم و جدید‘‘ کی بحث اور تقسیم سے بلند اسلام۔۔۔!!
زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری، قصۂ جدید و قدیم!
یہ وہ اسلام ہے، جو ہر زمانے کے تقاضوں، سوالوں اور چیلنجوں کا سامنا کرسکتا ہے۔ جو انسانی فطرت اور کامن سینس سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔ جو عربستان کی بَدویانہ، صحرائی اور قبائلی زندگی اور مُعاشرت کو بھی راس آیا تھا۔ جو روم و فارس کی منظَّم مُعاشرت اور تمدنی برتری کو بھی بھایا تھا۔۔۔ اور جو اَب بھی، عہدِ رواں کے انسان اور سماج کی رہنمائی کرنے، اور اگلے زمانوں کی طرف، امن و سلامتی کے ساتھ لے جانے کا پورا پوٹینشیل اور داعیہ رکھتا ہے۔ (مَیں اِسے اسلام کی پراگریسیو اور آرگینک صفات کہتا ہوں)۔
ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی تصویب و تائید۔۔۔ پورے جنوبی ایشیا (جِسے برصغیر، بلکہ برعظیم بھی کہا جاسکتا ہے) کے تمام خِطّوں اور صوبوں کے مسلمانوں نے کی تھی۔ اِس مقصد کے حصول کی تحریک اور جِدّ و جہد، ہندوستان گِیر تھی۔
۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشے پر ’’اسلامی پاکستان‘‘ کے ظہور کی خوشیاں، ترکی کے مقبول سیاستداں اور بعد میں وزیرِ اعظم، عدنان میندریس شہید، مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی اور مصر کے حسن البنّاء شہید جیسی نابغۂ روزگار شخصیات نے بھی منائی تھیں۔ (حسن البناء شہید کی جانب سے مبارکباد کا ٹیلی گرام، قائداعظم کو موصول ہوا تھا۔ یہ ٹیلی گرام آج بھی، حکومتِ پاکستان کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔)
انگریزوں، انگریز پرستوں، کانگریسیوں، مہا سبھائیوں، اَکالیوں سے لے کر۔۔۔ خود بانیانِ پاکستان۔۔۔۔۔
Founding Fathers of Pakistan۔۔۔ سمیت، کسی کا بھی یہ خیال نہیں تھا کہ ہندوستان کا بَٹوارا اِس لیے ہورہا ہے کہ یہاں دو، تین یا زاید ’’سیکولر مملکتیں‘‘ بنیں گی اور چلیں گی۔ اُس وقت جنوبی ایشیا کی کسی قوم اور گروہ کی سیاسی قیادت۔۔۔ اتنی احمق، بھولی بھالی، کم نظر یا کنفیوزڈ نہیں تھی کہ آج کے ’’روشن خیالوں‘‘ جیسا واہمہ پالتی، اور یہ حماقت آمیز، بلکہ خیانت آمیز بات سوچتی۔ بانیٔ پاکستان کی شخصیت اور کردار میں جو اُجلاپَن، کھراپَن اور بے ساختگی تھی۔۔ اُس میں ایسی ’’مُنافقت‘‘ یا ’’حماقت‘‘ کا کوئی گزر نہیں تھا۔ اُردو کی عظیم ناول نگار قراۃ العین حیدر نے ایک بار کراچی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے کسی سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے نہیں بنا تو دراصل آپ تحریکِ پاکستان اور مسٹر جناح کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ بددیانت، جھوٹے اور دھوکے باز تھے کہ مسلمانوں کو اسلام کا لالچ دے کر پاکستان تو بنوا لیا۔ مگر دراصل یہاں ایک سیکولر ریاست اُن کے پیشِ نظر تھی۔ کم از کم مَیں، مسٹر جناح کو ایسا نہیں سمجھتی۔
تاریخ کا یہ باب اگر یکسر مٹایا نہ جاسکے، تو اِس سوال کا کیا جواب ہے، سیکولر اور روشن خیال طبقے کے پاس۔۔۔ کہ ایک کروڑ افراد کا سرحدوں کے آرپار منتقل ہونا، ایک مِلین انسانوں کا قتلِ عام، صدیوں سے آباد بستیوں کا اُجڑ جانا، کیا محض ’’سیکولر انڈیا‘‘ سے الگ ہوکر، ایک ’’سیکولر پاکستان‘‘ بنانے کی قیمت تھی؟؟؟
ہم اپنے بزرگوں کو ایسا نادان نہیں سمجھتے، بالکل اُسی طرح جیسے اپنے جَدِّ اَمجد، آدم و حوّا کو کسی ’’چِمپینزی‘‘ یا ’’بُوزنے‘‘ کا رشتہ دار نہیں سمجھتے!!!
اِیسے ناداں بھی نہ تھے، جاں سے گزرنے والے
ناصِحو، پَند گَرو! راہ گُزر تو دیکھو!!
وہ تو وہ ہے، تمیں ہوجائے گی اُلفت، مجھ سے
اِک نظر تم، میرا محبوبِ نظر تو دیکھو!!