ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
علامہ اقبال کی بہت سی حیثیتیں ہیں: شاعر، مفکر، سیاست دان، عالم اور مدبر وغیرہ، لیکن فی الوقت چونکہ پاکستان میں سیاست ہی سب سے بڑا موضوع ہے اور ہر بات کے ڈانڈے سیاست سے جاملتے ہیں، لہٰذا فی الحال یہ دیکھنا مناسب ہوگا کہ بطور سیاست دان علامہ اقبال کیسے تھے؟ اور انھوں نے قانون ساز اسمبلی پنجاب کا الیکشن کیسے لڑا؟ بطور رکن اسمبلی انھوں نے اپنے فرائض کیسے ادا کیے؟
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ علامہ محمد اقبال ایک سچے اور کھرے شخص تھے۔ جعلی ڈگری تو دور کی بات ہے انھوں نے کبھی کسی سے معمولی سا دھوکا یا فریب بھی نہیںکیا تھا۔ اسی لیے مسلم عوام کے نزدیک وہ ایک مخلص، بے لوث اور قابلِ اعتماد شخص تھے۔
1923ء میں اقبال کے بعض دوستوں نے تجویز پیش کی کہ وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں اہلِ لاہور کی نیابت کریں۔ اقبال نے معذرت کرلی کیونکہ بنیادی طور پر وہ شاعر تھے اور ان کا مزاج سیاسی نہ تھا۔ 1925ء میں جب دوبارہ الیکشن ہونے والے تھے تو اس بار دوستوں نے پھر اصرارکیا تو اقبال انتخاب میں حصہ لینے پر رضامند ہوگئے۔ ان کی افتادِ طبع سیاسی نہیں تھی مگر اب انھوں نے محسوس کیا کہ انتخاب میں حصہ لینا اُمت کی خیرخواہی کا تقاضا بھی ہے۔ اس موقع پر علامہ نے ایک بیان میںکہا:
’’مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا، محض اس لیے کہ دوسرے لوگ یہ کام سرانجام دے رہے تھے اور میں نے اپنے لیے دوسرا دائرۂ کار منتخب کرلیا تھا، لیکن اب قوم کی مصیبتیں مجبور کررہی ہیں کہ میں اپنا حلقۂ عمل قدرے وسیع کروں، شاید میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملت کے لیے زیادہ مفید ہوسکے۔‘‘
گویا انتخاب میں حصہ لینے سے مقصود ملت کی فلاح و بہبود تھا (نہ کہ آج کل کے سیاست دانوں کی طرح مالی مراعات یا مادی مفادات کا حصول)۔
علامہ اقبال کے مقابلے میں آرائیں برادری کے ایک سربرآوردہ رکن خان بہادر ملک محمد دین بھی امیدوار تھے۔ انھیں اپنی آرائیں برادری پر بھروسا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چیف کورٹ لاہور کے جج اور علامہ اقبال کے خلاف شدید بُغض رکھنے والے سر شادی لعل نے (جس کی سازش کی وجہ سے اقبال چیف کورٹ کے جج نہیں بن سکے تھے) ملک محمد دین کو اقبال کے مدِّمقابل کھڑا ہونے کے لیے اکسایا تھا۔ بہرحال اقبال کے نیاز مندوں نے ان کی انتخابی مہم میں بڑے جوش و خروش اور ولولے سے کام کیا۔ اُس زمانے کے اخبارات میں انتخابی جلسوں، جلوسوں اور دیگر سرگرمیوں کی جو تفصیل شائع ہوتی رہی، اس کے مطابق مختلف علاقوں میں علامہ اقبال کی حمایت میں کئی بار جلسے منعقد ہوئے جن میں عوام الناس کے ساتھ کالجوں کے طلبہ، پروفیسر اور دیگر معززینِ شہر بھی شریک ہوتے رہے۔ جلسوں کے اختتام پر جلوس نکالے جاتے، جن میں اقبال کے حامی رضاکار مختلف ٹولیاں بناکر گیت گاتے ہوئے شہر کی سڑکوں پر گشت کرتے، پنجابی اور اردو میں علامہ کی عظمت کے گیت گائے جاتے۔ خود اقبال کے شعر بھی گا گا کر پڑھے جاتے۔ اگر کہیں علامہ بھی جلوس میں موجود ہوتے تو انھیں پھولوں سے لاد دیا جاتا۔ رضاکاروں کی ترکی ٹوپیوں پر لفظ ’اقبال‘ نمایاں طور پر لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ بعض رضاکار رنگا رنگ پگڑیاں باندھے جلوس میں شامل ہوتے۔ انتخابی مہم کے دوران میں خود اقبال نے تقریباً بیس جلسوں سے خطاب کیا۔
علامہ کی انتخابی مہم رضاکارانہ طور پر اور بڑے جوش و خروش اور والہانہ انداز سے میں چلائی گئی۔ خود اقبال کوکچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا۔ ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اقبال کو کامیاب کروانے کے لیے جان لڑا رہا تھا۔ لاہورکی متعدد برادریاں بھی اقبال کی حمایت کررہی تھیں۔
علامہ نے اپنی تقریروں میں کچھ اصولی باتیں کہیں، مثلاً: 11 اکتوبر کو منعقدہ پہلے جلسے میں کہا: ’’مَیں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلاف کے نقشِ قدم پر چلانے اور نااُمیدی، بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ مَیں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی، اب مَیں ان کی بطرز خاص عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کررہا ہوں۔
انتخابی ہنگاموں میں بالعموم اعتدال و توازن ملحوظ نہیں رہتا، چنانچہاقبال کے مدِّمقابل ملک محمد دین، آرائیں برادری کی عصبیت کو ہوا دے رہے تھے۔ اسی طرح بعض اخبارات میں اقبال کو وہابی، نجدی، کذاب، جھوٹا اور دشمنِ اسلام قرار دیا گیا، ان کے اعمال و عقائد پر حملے کیے گئے، مگر اقبال اور ان کے حامیوں نے تہذیب اور شائستگی سے تجاوز نہیں کیا۔ وہ اپنے مؤقف کا اظہار پُرخلوص طریقے سے اور دردمندی و دل سوزی کے ساتھ کرتے رہے۔ اگر کسی نے جوش میں آکر حریف امیدوار ملک محمد دین کو برا بھلا کہا، یا جوابی الزام تراشی کی کوشش کی تو اسے روک دیا گیا۔ آج کل کے سیاست دان ایک دوسرے پر کیسا کیسا کیچڑ اچھالتے ہیں۔انھوں نے مئی2013ء میں اور بلدیاتی الیکشن اکتوبر 2015ء کے موقعے پر کیا کچھ نہ کیا اور ایک دوسرے کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا! اور پھر پاناما لیکس اور وزیراعظم کے نااہل قرار دیے جانے کے زمانے کے اخبارات دیکھیے۔ سیاست دان (الا ماشاء اللہ) اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال چکے۔
انتخاب کا نتیجہ 6 دسمبر 1926ء کو ضلع کچہری میں سنایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق رائے دہندگی کا تناسب (turn out) 68 فیصد تھا۔ علامہ کو5675 ووٹ اور مدِّمقا بل کو2498 ووٹ ملے، یعنی علامہ نے اپنے حریف پر 2177 ووٹوں کی سبقت حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔
علامہ اقبال کے حامیوں نے انھیں ساتھ لے کر اظہارِ مسرت کے لیے ایک جلوس نکالا جو انارکلی، لوہاری، بھاٹی، ہیرا منڈی، سید مٹھا بازار کے راستے چوک جھنڈا میں پہنچا۔ یہاں ایک صاحب نے خواجہ فیروزالدین بیرسٹر رکن بلدیہ اور علامہ اقبال کے سروں پر پگڑیاں باندھیں۔ علامہ کو فٹن میں سوار کیا گیا اور پھر یہ جلوس پانی والے تالاب، ڈبی بازار، کشمیری بازار، پرانی کوتوالی سے ہوتا ہوا چوہٹا مفتی باقر پہنچا، جہاں کچھ نظمیں پڑھی گئیں۔ رات دس بجے جلوس منتشر ہوا۔ خاصے دنوں تک علامہ کو مبارک باد کے پیغامات اور خطوط موصول ہوتے رہے۔ ان کے اعزاز میں متعدد دعوتوں کا اہتمام بھی کیا گیا۔
تین سال کے عرصۂ رکنیت کے دوران انھیں کئی بار فنانس کمیٹی اور ایجوکیشن کمیشن کا رکن مقرر کیا گیا۔ اسی طرح وہ سائمن کمیٹی سے گفت وشنید کے لیے اسمبلی کی 15 رکنی کمیٹی میں بھی شامل تھے۔
ہمارے ہاں یہ دیرینہ سیاسی روایت ہے کہ ارکانِ اسمبلی ہَوا کا رخ دیکھ کر کسی نہ کسی گروپ یا پارٹی سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ اس وابستگی میں عموماً مالی مفاد پیش نظر ہوتا ہے یا کسی منصب کا حصول یا حکامِ بالا کی خوش نودی پر نظر ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ ان میں سے کوئی راستہ اختیار کرتے۔ وہ ہر مسئلے پر ہمیشہ اپنی آزادانہ اور بے لاگ رائے کا اظہار کرتے، خواہ وہ کسی کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ اس سلسلے میں وہ حکومت کی پالیسیوں پر بھی نکتہ چینی کرتے۔ اسی طرح مختلف طبقوں اور گروہوں کے منفی رویوں کو بھی ہدفِ تنقید بناتے۔
اقبال کو حصولِ مفادات یا حکام کی خوش نودی کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود زیادہ عزیز تھی۔ یہ علامہ کی رکنیت کا پہلا سال تھا۔ مئی 1927ء میں لاہور میں ہندومسلم فساد کی آگ بھڑک اٹھی، جسے فروکرنے میں اقبال کا کردار بہت نمایاں رہا۔ روزنامہ’’ انقلاب‘‘ لاہور نے اس موضوع پر ایک شذرے میں لکھا:
’’سچ تو یہ ہے کہ فسادات کی مشتعل آگ کو فروکرنے کے نیک کام میں سب سے پیش پیش علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال تھے۔ حضرت علامہ سے واقف لوگ حیران ہورہے ہیں کہ وہ بڑی بڑی دعوتوں پر جانا پسند نہیں کرتے، مگر آج کل صبح سے شام اور شام سے صبح تک خدمتِ ملک وملّت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ علامہ اقبال نے مسلمانانِ لاہور کی نمائندگی کا حق ادا کردیا۔‘‘
ہندو مسلم فسادات کا اصل سبب مہاسبھائی ذہنیت تھی (جوآج کل بھارت میں عروج پر ہے)۔ اقبال ہندو مسلم فسادات سے ہمیشہ آزردہ رہے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ دونوں قوموں کے درمیان کشیدگی ختم ہو۔ 6 اپریل 1926ء کو ایک بیان میں کہا: ’’مَیں دل سے چاہتا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اپنے اختلافات کو دور کرکے ملک میں بھائیوں کی طرح سے رہیں اور بات بات پر ایک دوسرے کا سر نہ پھوڑتے پھریں۔‘‘
فسادات کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ سکھوں کوکرپان رکھنے کی آزادی تھی، مگر مسلمانوں کو تلوار رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ انگریز حکومت کے اس جانب دارانہ فیصلے پر مسلمان بجا طور پر رنجیدہ اور ناراض تھے۔ علامہ نے اس بے انصافی کے خلاف احتجاج کیا اور اسمبلی میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ کرپان کی طرح تلوار کو بھی قانونِ اسلحۂ ہند سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ آخر بار بار کے احتجاج اور اسمبلی میں ان کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں پنجاب کے 9 ضلعوں میں مسلمانوں کو تلوار رکھنے کی اجازت مل گئی۔ کچھ تگ ودَوکے بعد 8 مزید ضلعوں میں بھی استثنیٰ مل گیا۔ اقبال نے تلوار کے مسئلے پر مسلمانوں کو ان کا حق دلایا، مگر وہ سب کے لیے یکساں طور پر امن اور انصاف کے خواہاں تھے۔
اسمبلی میں وہ عام آدمی کے مسائل حل کرنے پر برابر زور دیتے رہے، مثلاً: دیہات میں صحت وصفائی کا مسئلہ، عورتوں کے لیے طبی امداد کا مسئلہ اور ایلوپیتھی کے بجائے یونانی اور آیورویدک طریقِ علاج کی ترویج وغیرہ۔ اسی طرح ہم وطنوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اقبال نے ہمیشہ جبری تعلیم کے نفاذ پر زور دیا، دستکاری کی تعلیم کی طرف بھی متوجہ کیا اور انگریزی حکومت کی تعلیمی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے۔ لاہور شہر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اقبال نے کئی بار زور دیا کہ میونسپلٹی کی41 نشستوں میں سے 21 مسلمانوں کے لیے مختص ہونی چاہئیں۔ اگر کُل نشستیں45 ہوں تو23 مسلمانوں کو ملنی چاہئیں۔ کبھی وہ تحریکِ التوا پیش کرتے اور کبھی اس طرح کے سوالات کرکے حکومت سے جوابات طلب کرتے کہ مثلاً میڈیکل کالجوں اور عام کالجوں کے شعبۂ تدریس میں اور بعض سرکاری محکموں کے ملازمین میں مسلمانوں اور غیر مسلموں (ہندو، سکھ، عیسائی) کا تناسب کیا ہے؟ یا فوجی خدمات کے عوض جن لوگوں کو زمین دی گئی، ان میں کتنے مسلمان ہیں؟ مقصود اس امر کی طرف توجہ دلانا ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو اپنی آبادی کے تناسب سے ملازمتیں میسر نہیں ہیں اور ان کے ساتھ بے انصافی ہورہی ہے۔
مختصر یہ کہ اقبال، صاحبانِ اقتدار کی ناراضی کی پروا کیے بغیر ہمیشہ بااصول اور بے لاگ سیاست کے راستے پر گامزن رہے۔ انھیں مسلمانوں کا مفاد عزیز تھا، مگر اس کے ساتھ ہی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ مسلمان ہوں یا ہندو، کسی سے بے انصافی نہ ہو… اور دونوں قومیں باہمی رَواداری اور ہم آہنگی کی فضا میں زندگی گزاریں۔ مگر بقول جاوید اقبال: اسمبلی میں ان کی آواز، نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند تھی، اسی لیے وہ اس رکنیت سے خوش نہیں تھے۔ بے ڈھب اور موقع پرستی کی سیاست ان کے بس کی بات نہ تھی، چنانچہ 1929ء میں ان کے احباب میں اگلی میقات کے لیے رکنیت کا مسئلہ زیربحث آیا تو اقبال نے بلا تاخیر کہہ دیا کہ وہ رکن بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
بطور رکن مجلس قانون ساز اسمبلی، آج کل کے سیاست دانوں کی طرح علامہ اقبال نے کسی طرح کا مالی یا حکومتی مفاد حاصل نہیں کیا اور اپنے فرائض ایمان داری اور تندہی سے انجام دیے۔ ان کی سیاسی زندگی بے داغ ہے اور بطورسیاست دان، ان کے کردار پر کوئی دھبّہ نہیں ہے۔ یہ آج کل کے اراکین اسمبلی کے لیے ایک مثال ہے۔