بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا ردعمل

بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ قوم پرست رہنمائوں میں اپنے سخت مؤقف اور رویّے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگا کر مسلح تنظیم کی قیادت کر رہے ہیں ۔ گزشتہ دونوں اُن کی اہلیہ فضیلہ بلوچ اور بیٹی پوپل جان کو حراست میں لے لیا گیا جس کے خلاف بلوچستان کی صوبائی اسمبلی ، قومی اسمبلی اور سینٹ میں سخت ردعمل کا اظہار ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے بھی خواتین اور بچوں کی گرفتاری پر تنقید کی۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ کے ساتھ ایک اور بلوچ جنگجو کمانڈر اسلم اچھو کی ہمشیرہ سلمیٰ بلوچ اور ان کے چار بچے بھی گرفتار ہوئے۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ علیل ہیں اور انہیں کمر کی تکلیف ہے۔ وہ کراچی علاج کی غرض سے گئی تھیں، وہاں سے کوئٹہ آئیں، کوئٹہ میں بھی ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔ چنانچہ30 اکتوبر کو یہ افراد گرفتار کر لیے گئے۔ ان کی گرفتاری کی خبر مقامی و قومی میڈیا پر نشر نہ ہوئی۔ 2 نومبر کو برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں اس بابت تفصیلات دی گئیں۔ البتہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس حوالے سے بحث پہلے دن سے شروع ہوچکی تھی۔ ان ذرائع سے مختلف بلوچ سیاسی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے آواز اٹھائی گئی، تاہم برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے بعد ملک کی سیاسی جماعتوں نے اعتراض اٹھایا۔ گویا عوام الناس میں خبر ہر سطح پر پھیل گئی۔ ایوانِ بالا (سینیٹ) کے بدھ یکم نومبر2017ء کے اجلاس میں اس مسئلے پر ارکان بول پڑے، جبکہ حزبِ اختلاف کے ارکان نے علامتی واک آؤٹ کیا ۔ وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے ایوان کو بتایا کہ ان کی آواران کے ڈی پی او، ڈی آئی جی کوئٹہ اور دیگر افسران سے تفصیلی بات ہوئی ہے جس سے پتا چلا کہ گرفتار افراد غیر قانونی طور پر سرحد عبور کررہے تھے۔ اس اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، پشتون خوا میپ کے سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل اور دیگر ارکان نے برہمی کا اظہار کیا۔ بقول ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی: ’’خواتین کو اٹھانا غیرت کے منافی عمل ہے۔ معصوم بچوں کو اٹھا لینا کہاں کا انصاف ہے! خواتین بھی محفوظ نہیں ہوں گی تو فاصلے بڑھیں گے‘‘۔ سردار اعظم موسیٰ خیل نے اس گرفتاری کو ناانصافی قرار دیا اور کہا کہ اس طرح بغاوت ہوگی۔ سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے بھی منتخب رد عمل کا اظہار کیا قومی اسمبلی کے 3 نومبر2017ء کے اجلاس میں بھی اراکین نے اس حوالے سے احتجاج کیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے بلوچ خواتین کی گرفتاریوں کو تشویشناک کہا اور وفاقی و صوبائی حکومت سے تفصیلات طلب کرلیں۔ تہمینہ دولتانہ اور دوسرے ارکان نے بھی اس مسئلے پر تحفظات و خفگی کا اظہار کیا۔ بی این پی کے رکن قومی اسمبلی عیسیٰ نوری نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے اس وضاحت کے ساتھ گرفتاریوں کی تصدیق کردی تھی کہ ’’یہ خواتین غیر قانونی طور پر سرحد پار کررہی تھیں اس لیے حراست میں لے لی گئیں۔ انہیں عزت و احترام کے ساتھ تحویل میں رکھا گیا اور تحقیقات کی گئی۔ خاتون نے کراچی میں علاج کرایا تھا، پھر کوئٹہ آئی تھیں، اور اس کے بعد افغانستان جارہی تھیں‘‘۔ سرفراز بگٹی نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر اللہ نذر اب افغانستان میں ہے۔ (3نومبر2017ء روزنامہ انتخاب کوئٹہ) 3 نومبر کو ان خواتین کو فورسز کی تحویل سے وزیراعلیٰ ہائوس بھیجا گیا اور وزیراعلیٰ نے خود ان سے تفصیلی ملاقات کی، تمام خواتین کے سروں پر رواج کے تحت چادر ڈالی، بچوں کو تحائف دیئے، ان کی مالی معاونت بھی کی، علاج معالجے کی سہولیات کا وعدہ بھی کیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ کو نصیحت کی کہ وہ اپنے شوہر سے کہیں کہ بردارکُشی ٹھیک عمل نہیں، اور جنگ میں بچوں اور عورتوں کو استعمال کرنا بزدلی ہے۔ آزادی کے نام نہاد علَم بردار خواتین اور بچوں کو اس جنگ میں نہ دھکیلیں۔ وزیراعلیٰ نے ان سے کہا کہ ’’خواتین میں اسلم اچھو کی ہمشیرہ بھی شامل ہے جو میرے بچوں کی شہادت میں براہِ راست ملوث تھا، لیکن میرا دل بڑا ہے اور میں اپنے بچوں کے قاتل کی ہمشیرہ کو عزت و احترام دینے کا پابند ہوں‘‘۔ نواب زہری نے اس موقع پر یہ انکشاف بھی کیاکہ ’’ڈاکٹر اللہ نذر کے بچے فرانس میں زیر تعلیم ہیں اور وہ خود بلوچستان میں اساتذہ کو شہید کرنے، نوجوانوں کو بہکانے اور ان کا مستقبل تاریک کرنے کی خوفناک سازش کررہا ہے۔‘‘ بعدازاں سرفراز بگٹی نے بھی ذرائع ابلاغ کو تفصیلات بتائیں کہ ’’ان خواتین میں ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ، کمانڈر اسلم اچھو کی ہمشیرہ اور بی ایل ایف کے نائب کمانڈر دلیپ کی اہلیہ تھی، اور ان کو ڈاکٹر اللہ نذر نے افغانستان بلایا تھا، اور یہ خواتین بی ایل ایف اور بی ایل اے کے پیسوں کی تقسیم میں بھی ملوث رہی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود نواب ثناء اللہ زہری کی ہدایت پر انہیں چھوڑا گیا اور ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ کو اُن کے بھائی مہر اللہ کے سپرد کرکے کراچی روانہ کردیا گیا۔‘‘
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ افغانستان ہی میں ہوسکتا ہے۔ براہمداغ بگٹی اور کئی اہم بلوچ شدت پسند رہنما افغانستان میں تھے۔ بالاچ مری بھی افغانستان میں مقیم تھے۔ اس وقت بھی بڑی تعداد میں بلوچ مسلح گروہوں کے ارکان افغانستان میں ہی قیام رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی اہم یعنی سرکردہ افراد شامل ہیں اور یہ لوگ افغانستان میں حکومتی جاسوسی اداروںکی سرپرستی میں رہ رہے ہیں۔ بھارت کے خفیہ ادارے ان کو مالی اور لاجسٹک کمک فراہم کررہے ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں رہا ہے۔ وہ کئی ماہ سے لاپتا تھے۔ آخرکار اس کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ وہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں زیر علاج تھا، اس کی صحت بہت خراب تھی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 2006ء میں اس نے ضمانت حاصل کی، اس کے بعد مفرور ہوگیا، اور کچھ عرصے بعد ایک سخت گیر مسلح تنظیم بی ایل ایف کی قیادت کرتے ہوئے خود کو ظاہرکیا۔ اللہ نذر انتہائی مطلوب شخص ہے ۔ مشکے کے پہاڑوں میں واقع اس کے ٹھکانوں پر بارہا بڑے پیمانے پر آپریشن کیے گئے۔ ستمبر2015ء میں اس کے مارے جانے کا حکومتی سطح پر اعلان ہوا مگر وہ بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ حکومتِ بلوچستان نے مارچ 2016ء میں ایک کارروائی میں کمانڈر اسلم اچھوکے مارے جانے کا اعلان کیا تھا مگر بعد میں اس کے بھی زندہ ہونے کی اطلاع آئی۔ اسلم اچھو بی ایل اے کا انتہائی اہم کمانڈر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کمانڈر کی موجودگی کی اطلاع بی ایل اے ہی کے ایک کمانڈر نے دی تھی جس پر فورس نے آپریشن کیا تھا۔
بہرکیف حکومت نے ان خواتین اور بچوں کو رہائی دے کر قابلِ تحسین کام کیا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر یہ خواتین بغیر قانونی دستاویزات کے افغانستان میں داخل ہونے کی سعی کررہی تھیں تو ان کی یہ کوشش خلافِ قانون تھی، اور پھر یہ خواتین عام نہیں بلکہ اُن افراد کی رشتہ دار ہیں جو ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ سرفراز بگٹی نے پاک افغان سرحد کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی جس میں بقول سرفراز بگٹی کے یہ خواتین بابِ دوستی میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سرفراز بگٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماہ فروری سے اب تک گیارہ ہزار افراد کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرتے ہوئے حراست میں لیا جاچکا ہے۔
اب کچھ ذکر صوبے کی سیاسی شخصیات و جماعتوں کے ردعمل کا۔
31 اکتوبر کو بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نامی تنظیم نے مظاہرہ کیا۔ یکم نومبر کو بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کا مرکزی پریس ریلیز اخبارات میں چھپا اور اس گرفتاری کو بلوچ اور اسلامی روایات کے برعکس کہا گیا۔ اس واقعے کو قبول نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’خواتین و بچوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے واقعات دراصل بلوچ روایات کو دانستہ طور پر پامال کرنے کی پالیسی ہے، اور ہمارے سامنے بلوچ مائوں اور بہنوں کی عزت و ناموس کی حفاظت سیاسی جدوجہد سے زیادہ مقدم ہے۔ ایسی پالیسیاں ناقابلِ قبول ہیں۔ بلوچ مائوں اور بہنوں کو غائب کردیا جائے، بلوچ قومی غیرت و جذبہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ حکمران اور ریاستی ادارے اب بھی بلوچستان کے معاملات کو بزور طاقت حل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔‘‘ اسی طرح کا رد عمل پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی جانب سے بھی سامنے آیا کہ ’’خواتین اور بچوں کی ماورائے آئین گرفتاری ملکی آئین و قانون، بلوچ پشتون اقوام کی قومی روایات و اقدار، بنیادی انسانی حقوق اور عالمی قوانین کے سراسر منافی عمل ہے۔ آمرانہ قوتوں نے ملک بالخصوص بلوچ پشتون صوبے میں سیکورٹی کے نام پر آئین و قانون کو پامال کرتے ہوئے صوبے میں عوام کے اقتدار و اختیارات اور وسائل پر قبضہ جماتے ہوئے عوام و شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیا ہے۔ صوبے میں عوام کی بنی جمہوری حکومت کے بجائے ان قوتوں نے سیکورٹی کے نام پر اپنی الگ اور متوازی حکومت بناکر صوبائی خودمختاری اور منتخب صوبائی حکومت کی رٹ و اتھارٹی کو چیلنج کیا ہے۔ صوبے کی تمام سیاسی و جمہوری جماعتیں آمرانہ قوتوں کی جانب سے سیکورٹی کے نام پر صوبے میں جاری غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر انسانی کارروائیوں کے خاتمے اور ماورائے آئین اقدامات کی روک تھام کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ و بیٹی سمیت دیگر خواتین کی گرفتاری قابلِ مذمت ہے۔‘‘
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی خواتین کی گمشدگی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ نواب اسلم رئیسانی نے کیا کہ اس واقعے سے نفرتیں مزید بڑھیں گی۔