مسعود ابدالی
یورپ میں آزادی کی ایک نئی تحریک کا آغاز ہوچکا ہے اور لگتا ہے کہ مہذب اسپین بھی عوامی امنگوں کو کچلنے کے لیے وہی ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کے لیے پُرعزم ہے جو ہندوستان اور اسرائیل میں نصف صدی سے رائج ہیں۔ آزادی کی اس تحریک کا مرکز سلطنتِ ہسپانیہ یا اسپین کا علاقہ کیتلونیا (Catalonia) ہے۔ اسپین کی شمال مشرقی سرحد پر واقع 32100 مربع کلومیٹر پر مشتمل کیتلونیا کی آبادی 75 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ اس کے شمال میں فرانس، جبکہ مشرق میں بحر روم کا طویل اور کٹا پھٹا ساحل ہے۔ اسپین کی تمام اہم بندرگاہیں کیتلونیا کے ساحلوں پر واقع ہیں جس میں سب سے مشہور اور اہم بارسلونا ہے۔ یہ غالباً دنیا کا واحد علاقہ ہے جہاں مذہب کے خانے میں الحاد (Atheism) اور تشکیک (Agnosticism) کا اندراج بھی ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کیتلونیا کی 52 فیصد آبادی کیتھولک اور 30 فیصد ملحد اور Agnostic، جبکہ یہاں آباد مسلمانوں کا تناسب ساڑھے 7 فیصد ہے۔ یورپ کے اکثر علاقوں کی طرح یہاں بھی مسلمانوں کو مور (Moor)کہا جاتا ہے۔
اس خطاب کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ شمالی افریقہ کے مسلمانوں نے جبل الطارق کے راستے جزیرہ نمائے آئیبیریا پر قدم رکھا تو مسیحیوں سے خونریز تصادم کے بعد جب نماز کا وقت آیا تو سرِِ میدان صف بندی کی گئی۔ عام ہسپانیوں کو عبادت کا یہ انداز ’عجیب‘ سا لگا اور کچھ لوگوں نے اسے عسکری ورزش سمجھاکہ نماز کے دوران کچھ ہتھیار بند سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ بعض لوگ ایک پادری کے پاس پہنچے اور ان سے اس ’انوکھی عبادت‘ کے بارے میں سوال کیا۔ پادری صاحب جو اپنی فوج کی شکست اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے دبائو پر پہلے ہی پریشان اور رنجیدہ تھے اس سوال پر جھنجھلاگئے اور غصے سے بولے ’’یہ موروں کا طریقۂ عبادت ہے‘‘۔ قدیم رومی زبان میں غیر مسیحیوں کو حقارت سے Moroکہا جاتا تھا جس کا آج کی زبان میں ترجمہ کافر، لادین، بدمذہب اور زندیق وغیرہ ہوسکتا ہے۔ اُس دن سے یورپ میں مسلمانوں کا نام ہی مور پڑگیا۔
اسپین آنے والے مسلمان بھی بڑے زندہ دل اور سخن شناس تھے، چنانچہ مشتعل ہونے کے بجائے انھوں نے یہ خطاب فخر کے ساتھ قبول کرلیا کہ غیر اللہ اور طاغوت سے کفر ہی اسلام کی بنیاد ہے۔ فلپائن سمیت جہاں جہاں ہسپانیوں کا اثر رسوخ رہا ہے وہاں مسلمانوں کو ’مور‘ کہا جاتا ہے۔ جب پرتگالیوں نے 1505ء میں سیلون (آج کا سری لنکا) پر قدم رکھا تو یہاں آنے والے اراکان (برما) کے مسلمان تاجروں کو وہ مور کہتے تھے۔ اُس زمانے میں اراکانی تاجر چاول فروخت کرنے سیلون آتے اور واپسی پر ناریل اور سیلونی چائے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یعنی مسلمان 1400ء سے بھی پہلے سے اراکان میں آباد ہیں، لیکن آنگ سان سوچی بے شرمی سے اراکانیوں کو بنگالی تارکین وطن کہہ رہی ہیں۔
اس ضمنی گفتگو کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے کیتلونیا رومی سلطنت کا حصہ تھا، اور جب مسلمانوں نے اسپین فتح کیا تو کیتلونیا کو اندلس کا وفادار مگر مکمل آزاد و خودمختار علاقہ قراردے دیا گیا۔ اسپین کو شکایت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے اہلِ کیتلونیا کو آزادی کا جھانسہ دیا۔ سلطنتِ اندلس کے خاتمے کے ساتھ ہی کیتلونیا کی آزادی بھی ختم ہوگئی اور یہ مختلف حکمرانوں کے زیراثر رہا، تاہم اہلِ کیتلونیا نے غیروں کی حکمرانی کو ایک دن کے لیے بھی تسلیم نہیں کیا اور ہر شاہ و سلطان کے خلاف علَم بغاوت بلند کرتے رہے۔
کیتلونیا ہمیشہ سے ایک صنعتی علاقہ رہا ہے اور مزدوروں کے حقوق اور یونین سازی کی تحریک میں بارسلونا نے یورپی محنت کشوں کی قیادت کی۔ مئی 1886ء میں شکاگو سے صنعتی مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے عظیم الشان تحریک کا آغاز کیا جس نے مشہور یوم مئی کے تہوار کو جنم دیا۔ امریکی مزدوروں کے اس بہیمانہ قتلِ عام اور محنت کش رہنمائوں کی پھانسیوں کی بازگشت کیتلونیا تک پہنچی تو بارسلونا کے مزدور بھی امریکی محنت کشوں سے یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، جس کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کی گئی۔ لیکن یونین سازی، کام کی جگہ پر حفاظتی اقدامات اور 8 گھنٹہ روزانہ سے زیادہ کام پر اضافی اجرت یا Overtimeکے لیے تحریک جاری رہی۔ مزدوروں اور فوج کے درمیان خونریز تصادم روزمرہ کا معمول بنا رہا۔ 25 جولائی سے 2 اگست 1909ء کو ’سیاہ ہفتے‘ کا نام دیا گیا جب ایک ہزار کارکن مارے گئے۔ لیکن کیتلونیا کے مزدور اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے ساتھ آزادی و خودمختاری کی جدوجہد بھی جاری رہی۔ 1939ء میں فرانسسکو فرانکو کی حکومت نے مارشل لا لگا کر کیتلونیا میں مزدور یونین، صحافی انجمنوں اور آزادی کی تحریکوں پر مکمل پابندی عائد کردی۔ خودمختاری کا مطالبہ غداری قرار پایا جس کی سزا موت تھی۔ تاہم کیتلونیا کے لوگوں کی مزاحمت جاری رہی جس کی حریت پسندوں نے بھاری قیمت ادا کی۔ جنرل فرانکو کے آمرانہ 36 سالہ دورِ اقتدار میں ہزاروں نوجوان غائب کردیے گئے۔ جائداد پر قبضہ، گھروں پر مافیا کے حملے اور خواتین کی بے حرمتی جیسے واقعات روزمرہ کا معمول رہے۔ 1975ء میں فرانکو کی موت پر نیا دستور ترتیب دیا گیا اور 1978ء میں اس کے نفاذ پر کیتلونیا کو علاقائی خودمختاری دے کر اسے اسپین کا باج گزار لیکن آزاد و مختار علاقہ بنادیا گیا۔ تاہم اہلِ کیتلونیا اس محدود آزادی پر مطمئن نہ ہوئے۔ انھیں وفاق کی حد سے زیادہ مداخلت اور ہسپانوی قوم پرستی پسند نہیں۔ اپنے علاقے میں ہسپانوی زبان کی بالادستی کو وہ اپنی ثقافتی آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ملک کی ایک تہائی کے قریب آبادی خدا کی منکر ہے اور انھیں وفاقی حکومت کا کیتھولک عقیدے کی طرف جھکائو پسند نہیں۔ یہاں کے اخبارات، ٹیلی ویژن ڈراموں اور خاکوں میں کیتھولک قیادت کی توہم پرستی، سعد و نحس ایام، 13 کے ہندسے کو منحوس سمجھنے، روزمرہ توہمی ٹوٹکوں یعنی کالی بلی سامنے سے گزرنے پر راستہ بدل لینا، لاٹری ٹکٹ کے لیے فال گیری، ہر اہم کام کے آغاز سے پہلے ستاروں کا جائزہ، غلطی سرزد ہوجانے پر پادری صاحب کے سامنے اعترافِ گناہ وغیرہ کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے جسے ہسپانوی حکومت اہانتِ مذہب سمجھتی ہے۔ یورپ کے دوسرے علاقوں کے برخلاف کیتلونیا کے لوگوں میں مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ تو سلطنتِ اندلس کا اہل کیتلونیا سے عمدہ سلوک ہے۔ اس کے علاوہ کیتلونیا کی نوجوان نسل کو توہم پرست کیتھولک طرزِعمل کے مقابلے میں موروں کا توحیدی عقیدہ کھلا ڈلا محسوس ہوتا ہے۔
2014ء میں کیتلونیا کی اسمبلی نے استصوابِ رائے کا اہتمام کیا جس میں 92 فیصد لوگوں نے آزادی کے حق میں رائے دی، لیکن ووٹ ڈالنے کا تناسب 38 فیصد سے بھی کم تھا، اس لیے وفاق نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ حریت پسندوں نے بھی اس پر اصرار نہیں کیا۔ 2015ء کے آخر میں کیتلونیا کی اسمبلی نے آزادی کے حق میں قرارداد63 کے مقابلے میں 72 ووٹوں سے منظور کرلی اور اس مسئلے پر یکم اکتوبر2017ء کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا۔ وفاقی عدالت نے ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دے دیا لیکن کیتلونیا کے صدر کارلوس پڑمون (Carles Puigdemont) نے فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ وفاقی عدالت کے اختیارات کا اطلاق کیتلونیا پر نہیں ہوتا۔ وفاقی حکومت نے ریفرنڈم روکنے کے لیے ہسپانوی فوج اور وفاقی پولیس کو کیتلونیا میں تعینات کردیا۔ فوج نے صبح سویرے سے پولنگ اسٹیشنوں کو بند کرنا شروع کیا، جس کی مزاحمت کے لیے عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ مختلف علاقوں میں وفاقی پولیس اور عوام کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور بعض مقامات پر مقامی پولیس اور ہسپانوی فوج کے درمیان تصادم کی اطلاعات بھی ہیں۔ نوجوانوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر حفاظتی حصار بنالیے اور آزاد صحافتی ذرائع کے مطابق ملک کے 78 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالے گئے۔ نتائج کے مطابق ووٹ ڈالنے کا تناسب 42 فیصد تھا اور 92 فیصد لوگوں نے آزادی کے حق میں رائے دی۔ کیتلونیا حکومت کا کہنا ہے کہ وفاقی پولیس مختلف پولنگ اسٹیشنوں سے بیلٹ بکس اٹھا کر لے گئی اور مجموعی طور پر 8 لاکھ بیلٹ پیپر لوٹ لیے گئے۔ اگر ان ووٹوں کو شمار کرلیا جائے تو تقریباً 80 فیصد رائے دہندگان نے استصواب میں شرکت کی۔ وفاقی حکومت نے استصواب کو مسترد کردیا اور ’علیحدگی پسندوں‘ کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی دھمکی دی۔ اسپین کے بادشاہ شاہ فلپ چہارم بھی میدان میں آگئے اور شاہی فرمان میں کہا گیاکہ ریفرنڈم کے ڈراموں سے ملک میں نفرت پھیل رہی ہے۔ وفاقی عدالت نے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیتلونیا پارلیمنٹ کو وفاق سے آزادی کی قرارداد منظور کرنے کا حق نہیں۔ جواب میں کیتلونیا کے صدر نے 10 اکتوبر کو آزادی کی دستاویز پر دستخط کردیے جس کے ساتھ ہی ساری ریاست سے اسپین کے جھنڈے اتار کر کیتلونیا کے پرچم لہرا دیے گئے۔ 27 اکتوبر کو کیتلونیا کی پارلیمان نے اس دستاویز کی توثیق کردی۔ عجیب اتفاق کہ یہ وہی دن تھا جب کشمیری، ڈوگرہ راج اور اس کی آڑ میں ہندوستانی قبضے کے خلاف مزاحمت کی تجدید کررہے تھے۔ دوسرے دن اسپین کے وزیراعظم ماریانو راجوئے (Mariano Rajoy) کی سفارش پر بادشاہ سلامت نے کیتلونیا کی پارلیمان کو تحلیل کردیا اور اب وہاں دسمبر میں نئے انتخابات ہوں گے۔ ان اقدامات کے خلاف سارے علاقے میں مظاہرے ہورہے ہیں اور وزیراعظم نے دھمکی دی ہے کہ اگر کیتلونیا پولیس ریاست میں امن قائم کرنے میں ناکام ہوئی تو خودمختاری کی شق کو معطل کرکے کیتلونیا کو وفاق کے زیرانتظام لے لیا جائے گا۔
کیتلونیا کی آزادی اسپین کے لیے ناقابلِ برداشت ہے کہ یہ علاقہ سیاحت اور جہازرانی کا مرکز ہے۔آزادی کی اس تحریک سے فرانس کو بھی شدید تشویش ہے۔ کیتلونیا کی سرحد سے لگے جنوبی فرانس کے کچھ علاقے اپنی تہذیب و ثقافت کی بنا پر خود کو کیتلونیا سے قریب سمجھتے ہیں، اور اگر کیتلونیا آزاد ہوگیا تو جنوبی فرانس میں کیتلونیا سے الحاق کی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔ اس بنا پر کیتلونیا کی آزادی فرانس کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ یورپی یونین بھی کیتلونیا کی آزادی کے خلاف ہے اور یورپی رہنمائوں کو ڈر ہے کہ کیتلونیا کی آزادی یورپ کے دوسرے کثیر الثقافتی ممالک کی شکست و ریخت کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔ کیتلونیا پارلیمان کے واضح اور دوٹوک فیصلے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیتلونیا کو اسپین کا اٹوٹ انگ قرار دیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ نصیحت بھی فرماگئے کہ اس مسئلے کو طاقت کے بجائے دلیل سے حل کیا جائے، جس کے جواب میں کیتلونیا کے صدر کارلوس پڑمون نے کہا ’’ریفرنڈم اور پارلیمان کی قرارداد دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
ریفرنڈم اور اس کے بعد پارلیمان سے آزادی کی منظوری نے کیتلونیا کی تحریکِ آزادی کو اخلاقی برتری عطا کردی ہے۔ عوامی امنگوں کے احترام کی سب سے قابلِ فخر مثال ملائشیا کی ہے کہ جہاں 1965ء میں بے چینی کی پہلی لہر پر وزیراعظم تنکو عبدالرحمن سنگاپور کو آزاد کرنے کی سفارش لے کر خود ملائی بادشاہ کے پاس گئے اور دربار سے اجازت کے بعد پروانۂ آزادی کے ساتھ اثاثوں کی کنجیاں بھی نئی ریاست کے حوالے کردیں۔ اس فراخدلانہ مظاہرے پر سنگاپور کے پہلے صدر لی کوان یو (Lee Kuan Yew) بے اختیار کہہ اٹھے کہ اثاثوں کی ایسی تقسیم ان کے تصور میں بھی نہ تھی۔ دوسری طرف لبرل، آزاد خیال اور جمہوری اسپین نے ریفرنڈم اور اسمبلی کی قرارداد کو تسلیم کرنے کے بجائے پارلیمان ہی کو تحلیل کردیا اور اب وہاں وفاقی فوج تعینات کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ 30 اکتوبر کو اٹارنی جنرل نے تحریک آزادی کے رہنمائوں کے خلاف غداری، دشمنوں سے سازباز اور سازش کے الزام میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اب تک کسی شخص کو ان مقدمات میں نامزد نہیں کیا گیا لیکن خیال ہے کہ کیتلونیا کے صدر، اسمبلی کے اسپیکر اور آزادی کی قرارداد کے محرکین زیرعتاب آئیں گے۔ وفاقی راج کی مزاحمت کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال بھی خارج از امکان نہیں، اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپی یونین، نیٹو اور امریکہ میڈرڈ کی جانب سے طاقت کے استعمال کی حمایت کریں گے۔ انسانی تاریخ کا سب سے افسوسناک پہلو یہی ہے کہ تاریخ سے کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ اسرائیل و ہندوستان کی طرح اسپین کے حکمران بھی اس تاریخی حقیقت کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں کہ آزادی کی تحریکوں کو قوت کے بل پر دبایا نہیں جاسکا۔ امید ہے کہ ہسپانوی رجل ہائے رشید جبر کے بجائے دلیل وبرہان سے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے کہ بیلٹ کے فیصلے کو بلٹ سے تبدیل کرنے کی کوشش اس سارے علاقے کو مشکل میں مبتلا کردے گی۔