کیا پاکستان کی سیاست میں عام آدمی کی کوئی اہمیت ہے؟ اور اگر ہے تو اس کی نشاندہی ہمیں ریاستی و حکومتی بیانیہ میں کیوں نظر نہیں آتی؟ کیا وجہ ہے کہ عام آدمی اس ساری ریاستی و حکومتی کہانی سے نالاں نظر آتا ہے، یا اس کی کیفیت ایک بے بس انسان کی ہے! عام آدمی کو کبھی بھی ان بڑے بڑے سیاسی مباحث میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، کیونکہ اس کا اصل دردِ سر اس کے روزمرہ کے مسائل ہوتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عوامی مسائل کو بنیاد بناکر جو ریاستی وحکومتی کہانی کا سیاسی دربار سجایا جاتا ہے اس میں سب سے زیادہ استحصال بھی اسی عام طبقے کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کا مقدمہ ہمیں ہر سطح پر کمزور نظر آتا ہے۔ یہ کہانی کوئی ایک یا دو برس کی نہیں، بلکہ مجموعی طور پر ہماری حکمرانی کی کہانی سے جڑی نظر آتی ہے۔ حالانکہ یہاں ساری کی ساری سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی میں عوام کو ہی بنیاد بنا کر بڑے بڑے سیاسی نعرے لگائے جاتے ہیں، جو عوام کو آگے لے کر جانے کے بجائے پیچھے کی طرف لے جاتے ہیں۔
ہمیں پاکستان کے سیاسی اور عسکری بیانیہ میں قومی مفادکی بحث عمومی طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ بحث صرف ان طبقات تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر فریقین بھی جن میں اہلِ دانش اور فکری محاذ پر کام والے دیگر عناصر یا ادارے بھی شامل ہیں، اس بحث کا حصہ نظر آتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی فریق اپنے آپ کو بالادست یا طاقت ور سمجھتا ہے وہ اپنے ہی نقطہ نظر کو قومی مفاد سے جوڑتا ہے، جبکہ دیگر فریقین کے نقطہ نظر پر وہ نہ صرف تنقید کرتا ہے بلکہ اس نقطہ نظر کو قومی مفاد کے برعکس سمجھتا ہے۔ عمومی طور پر لفظ ’’ قومی مفاد‘‘ ہماری ذاتی مفاداتی سیاست میں ’’ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور سبھی فریقین اس لفظ کو اپنے حق میں استعمال کرکے اپنی ذاتی مفاد اور خواہشات کی تکمیل کو یقینی بناتے ہیں۔ لیکن پاکستان بنیادی طور پر قومی مفاد کی اس بحث میں تقسیم نظر آتا ہے۔ جب قومی سطح پر آپ کی سوچ اور فکر یا بیانیہ تقسیم ہو تو اس کا اثر اجتماعی طور پر معاشرے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو قوم میں اتفاقِ رائے کو بھی پیچھے کی طرف لے جاتا ہے اور اس کا نتیجہ انتشار کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
بنیادی طور پر ایک ذمہ دار اور مہذب ریاست اور اس کے تمام فریق قومی مفاد کا تعین کرتے ہوئے باہمی مشاورت اور متفقہ فیصلہ سازی کے عمل کو تقویت دیتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت کی خوبی اورکامیابی کی کلید بھی باہمی مشاورت اور تمام اداروں اور افراد کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا ہوتی ہے۔ ایسی ذمہ دار ریاستوں میں کوئی ادارہ کسی پر بالادستی دکھانے کے بجائے اپنے اپنے سیاسی، انتظامی اور قانونی دائرۂ کار میں رہ کر کام کرتا ہے۔ مگر پاکستان کا مقدمہ ایک ذمہ دار ریاست کے حوالے سے کمزور ہے۔ ہم قومی مفاد کی بحث کو محض اپنی سوچ تک محدود کرکے باقی اداروں کی اہمیت کو کم کرتے ہیں یا ان کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بلاوجہ کی بحث ہمیں قومی مفاد کے تناظر میں ’’ملک دشمنی‘‘ کی فکر سے جڑی نظر آتی ہے، جو خطرناک رجحان کی نشاندہی کرکے ریاستی عمل کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ قومی مفاد کا تعین کیسے ہو؟ سیاسی اور جمہوری نظام میں یہ حق منتخب حکومت کو ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم حکومت کا نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب یک طرفہ بادشاہت یا فردِ واحد کی حکمرانی نہیں ہوتا۔ جمہوری نظام میں فیصلہ سازی اور قومی مفادات کے تعین کے لیے عملی طور پر ادارے موجود ہوتے ہیں۔ ریاستی نظام میں اداروں کا تعین ہوتا ہے کہ کون سا ادارہ کس نوعیت کی فیصلہ سازی کا حصہ ہوگا۔ لیکن ہمارے ملک میں چاہے جمہوری حکومتیں ہوں یا غیر جمہوری، یا فوجی حکمرانی ہو، سب کے معاملات میں باہمی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھنے کا رجحان بہت کمزور ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان معاملات میں فیصلہ ساز افراد یا طبقات قومی مفاد میں ریاست، حکومت اور عوام کے مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفاد یا بڑی طاقتوں کے دبائو میں اپنے فیصلے کرتے ہیں۔
قومی مفاد کے تعین میں ایک مسئلہ وقتی مفاد سے جڑا ہوتا ہے۔ یقینی طور پر ریاستی اور حکومتی معاملات میں وقتی مفاد کو بھی اہم سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود قومی پالیسی میں لمبی مدت کے قومی مفادات مقدم ہوتے ہیں۔ لیکن کمزور حکومتوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کیونکہ داخلی محاذ پر کمزور ہوتی ہیں اس لیے وہ بڑے اور مضبوط فیصلے کرنے یا قومی مفادات کو زیادہ طاقت دینے کے بجائے کچھ ایسے فیصلے بھی کرتی ہیں جو آگے جاکر ہماری داخلی خودمختاری اور قومی سلامتی یا سیکورٹی کے معاملات میں خرابی پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے جب قومی مفادات کے تعین میں ہم ذہنی الجھائو، سیاسی مصلحتوں، ڈر اور خوف، سیاسی و معاشی کمزوریوں اور ذاتی مفاد کا شکار ہوں گے تو نتیجہ منفی ہی نکلے گا۔ یہ عمل عمومی طور پر ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان دوریوں اور خلیج کو نمایاں کرتا ہے۔
اِس وقت بھی پاکستان میں طاقت کے مراکز جو فیصلے کررہے ہیں لگتا ایسا ہی ہے کہ اُن میں باہمی مشاورت کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی وحکومتی سمیت اہل فکر کی سطح پر بھی قومی مسائل پر ایک کھچڑی پکی ہوئی ہے یا الجھائو کی سیاست نمایاں ہے۔ قوم کو اس الجھائو سے باہر نکالنا ریاستی و حکومتی اداروں کے تدبر اور فہم و فراست کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے طاقت کے مراکز کا المیہ یہ ہے کہ وہ سیاسی بنیادوں پر جو بھی بڑا یا مشکل فیصلہ کرتے ہیں اسے قومی مفاد سے جوڑ کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب قومی مفادات کے تعین میں ریاست یا حکومت تنہا ہو اور لوگ اس کے ساتھ نہ کھڑے ہوں تو قومی مفاد کا عمل کمزور ہوتا ہے۔
اس وقت بھی پاکستان ایک مشکل صورت حال سے گزر رہا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے یقینی طور پر ہمیں ایک بڑے قومی مفاد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ایک ایسے موقع پر جب ہمیں بہت سے ممالک کمزور دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا بھی ہیں بلکہ کئی ایسے لوگ ہمارے اپنے اندر بھی موجود ہیں جو ہماری کمزوریوں یا تضادات کے باعث وہ کام کررہے ہیں جو ہمارے قومی مفاد کے برعکس ہے۔ قومی مفاد کے نام پر جبر اور دھونس کی بنیاد پر لوگوں پر تھوپے ہوئے فیصلے یا فیصلہ کرنے والے اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکتے، اور مشکل وقت میں عوام ریاست یا حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
ہم قومی مفادات کو محض سیکورٹی کے معاملات تک محدود کرکے دیکھتے ہیں۔ جب تک قومی مفاد کی بحث میں عام آدمی کی ترقی اور خوشحالی کو بنیاد نہیں بنایا جائے گا قومی مفاد کا عمل معاشرے میں کبھی بھی طاقت کی بحث کا حصہ نہیں بن سکے گا۔ عام آدمی کی شمولیت سے مراد اس کے بنیادی حقوق کی ضمانت اور تحفظ ہوتا ہے، جس میں اسے بنیادی سہولتیں تعلیم، صحت، روزگار، سیکورٹی، انصاف، نقل وحمل، ماحول، تحفظ مل سکے۔ کیونکہ دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ ہماری ریاست اور حکومتیں قومی مفاد کی بحث کو ہتھیار بناکر اس کو عام آدمی کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ عام آدمی کو تسلی دی جاتی ہے کہ کیونکہ ملک مشکل صورت حال سے دوچار ہے تو اُسے بہت سے امور میں قربانی دینی ہوگی۔ لیکن یہ قربانی محض کمزور طبقات تک کیوں؟ اس سے بالادست طبقات کیوں مبرا ہیں؟ اس پر غور کیا جانا چاہیے۔
عام آدمی کا قومی مفاد اس کے روزمرہ کے معاملات میں آسانیاں ہوتی ہیں تاکہ وہ ایک بہتر زندگی گزار سکے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، سیاسی اور معاشی محرومیاں، انصاف کا فقدان، بے روزگاری، جان و مال کے تحفظ سمیت بنیادی تعلیم اور صحت سے محرومی عام آدمی کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ اس لیے قومی اور عوامی مفاد میں مطابقت نظر نہیں آتی۔ یہ سارا مسئلہ کرپٹ اور ظالمانہ طرز کی حکمرانی کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جہاں طاقت ور طبقات کا باہمی گٹھ جوڑ عام آدمی کے لیے استحصال پر مبنی سیاست کو طاقت فراہم کرکے اپنی مفاداتی سیاست کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس سے عام آدمی کمزور ہوتا ہے اور طاقت ور طبقات کی حکمرانی صرف اور صرف ظالمانہ نظام کو ہی طاقت فراہم کرتی ہے، جو ملک کے مفاد میں نہیں۔
بعض لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ یہاں لوگ جمہوریت کے حق میں بڑی جدوجہد نہیں کرتے۔ اس کی وجہ بھی حکمرانی کا جاری یہ نظام ہے جو لوگوں کے مفادات سے کٹا ہوا ہے۔ لوگ اُسی صورت میں جمہوریت یا اس سے جڑے ہوئے نظام کی بقا کی جنگ لڑتے ہیں جب ان کو واقعی یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ نظام ان کی ضرورتوں کو پورا کررہا ہے، لیکن اگر نتیجہ اس کے برعکس ہو تو لوگ کیوں اس نظام کو بچانے کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کریں گے؟ اس لیے پاکستان میں موجود وہ طبقہ جو واقعی تبدیلی چاہتا ہے اُسے قومی مفاد کی بحث کو نئے سرے سے سمجھنا ہوگا۔ یہ بحث محض سیکورٹی اور بڑے بڑے قومی یا بین الاقوامی معاملات تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا ایک براہِ راست تعلق عام آدمی کی سیاست سے جڑا ہونا چاہیے، جس میں اس کو فوقیت حاصل ہو۔ یہ واقعی ہمارے حقیقی قومی مفاد سے جڑا ہوا سوال ہے کہ ہم عوام اور بالخصوص کمزورطبقات کو کتنا طاقت ور کرتے ہیں اور ان پر کتنی مالی اور انتظامی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب قومی مفاد ہے کہ عام آدمی پر سرمایہ کاری کیے بغیر ہم ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں! یہ سفید جھوٹ ہے، اس سے قوم کو خود بھی باخبر ہونا چاہیے اور دوسروں کو بھی خبردار کرنا چاہیے کہ وہ قومی مفاد کی اس بحث میں اپنے خلاف ہونے والا استحصال قبول نہیں کرتے، یہی سوچ حقیقی قومی مفاد سے جڑی ہوئی ہے اور یہی ہمارا قومی ایجنڈا بھی ہونا چاہیے۔