اسامہ تنولی
2018ء میں ہونے والے انتخابات قریب آتے ہی سندھ میں بھی سیاسی سرگرمیوں نے زور پکڑلیا ہے۔ وہ سیاست دان اور منتخب عوامی نمائندے جو قبل ازیں اپنے علاقے کے عوام کو ڈھونڈے سے بھی کہیں دکھائی نہیں دیا کرتے تھے اور انہوں نے اپنا مستقل مسکن کراچی، اسلام آباد، لندن یا پھر دبئی وغیرہ کو بنا رکھا تھا اب پھر سے اپنے آبائی علاقوں کی یاد ستانے کے باعث اپنے اپنے حلقوں میں نظر آنے لگے ہیں۔ ان کے رویوں میں بھی اب بجائے کبر و نخوت کے، عاجزی و انکسار در آیا ہے۔ ایسے میں حال ہی میں ضلع خیرپور کے علاقے فیض گنج میں اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے پٹھان برادری کے منعقدہ ایک اجلاس میں ایک شخص کی جانب سے یہ اعتراض سن کر کہ ’’جب بھی الیکشن نزدیک آنے لگتے ہیں آپ سب سیاست دانوں کو ہم عوام کی یاد صرف اس لیے ستانے لگتی ہے کہ ان سے ووٹ حاصل کیے جاسکیں‘‘۔ جواباً عالمِ برہمی میں اسپیکر موصوف کا یہ کہنا کہ ’’میں ووٹ پر پیشاب کرتا ہوں‘‘ ایک ہنگامہ سا برپا کرگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس مکالمے کے منظرعام پر آنے کے بعد اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی عوامی اور صحافتی حلقوں میں شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ صوبے کے مختلف شہروں اور مقامات پر اسپیکر سندھ اسمبلی کے مذکورہ ناروا جملے اور رویّے کے خلاف سیاسی اور سماجی تنظیموں نے مظاہرے کیے ہیں اور ان سے اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے معافی طلب کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے، جس پر چاروناچار آغا سراج درانی کو بالآخر اپنے الفاظ واپس لینے اور معافی مانگنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ یہ صوبۂ سندھ کے بدلتے ہوئے سماجی اور سیاسی منظرنامے کا ایک ایسا نیا مظہر ہے جو لائقِ توجہ ہے اور قابلِ غور و فکربھی کہ کس طرح عوام کی جانب سے ایک معروف سیاسی رہنما کے غلط رویّے اور ناروا الفاظ کے خلاف شدید عوامی ردعمل نے اسپیکر موصوف کو عوام سے معافی طلب کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے بیشتر عوامی نمائندے اور وزراء کیوں کہ مختلف قبائل اور برادریوں کے جدی پشتی اور آبائی رئیس، وڈیرے یا سردار وغیرہ واقع ہوئے ہیں لہٰذا وہ اپنے اہلِ علاقہ یا حلقۂ انتخاب کو وقت دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے ووٹرز سے الیکشن جیتنے کے بعد ملنا گوارا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں اور اس میں وہ کافی حد تک حق بہ جانب بھی ہیں کہ خواہ ہم کچھ بھی کرلیں، ہماری قوم، قبیلہ یا برادری کے ووٹ ہمیشہ اسی طرح ہر انتخابات میں ہمیں ملتے رہیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ صوبہ سندھ کے بیشتر شہر مبالغہ آرائی سے قطع نظر ترقیاتی کام نہ ہونے کے باعث ایک طرح سے کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اب یہ لگتا ہے کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات نے اہلِ سندھ کی روایتی سوچ کو بھی تبدیل کرنا شروع کردیا ہے اور اب بتدریج مقامی عوام میں اپنے دیرینہ رہنمائوں اور عوامی نمائندوں کے برے رویّے اور ان کی بے عملی کے خلاف ردعمل جنم لے رہا ہے، جو بہرحال ایک مثبت علامت ہے۔ ایسے میں ’’تبدیلی پسندوں‘‘ کے سرخیل اور سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے مدیر علی قاضی نے بھی اہل سندھ میں شعور اجاگر کرنے اور بذریعہ ووٹ تبدیلی کے نعرے کے تحت سندھ بھر میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ لیکن پی پی پی کی قیادت شاید علی قاضی کی اس مہم جوئی سے اتنی پریشان نہ ہوسکے گی جتنی مضطرب وہ متوقع طور پر سندھ میں ایک مرتبہ پھر سے گرینڈ نیشنل الائنس المعروف ’’جے ڈی اے‘‘ اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے متحرک اور فعال ہونے کے نتیجے میں ہوسکتی ہے، جس کا ایک مظہر ایک ہی روز23 اکتوبر 2017ء کو سیہون میں تحریک انصاف کے ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد اور کراچی میں کنگری ہائوس پیر صاحب پگارا کی رہائش گاہ پر منعقدہ ’’جی ڈی اے‘‘ کا وہ اجلاس ہے جس میں ایک مرتبہ پھر اس پرانے الائنس کو فعال بناکر آئندہ الیکشن ایک ہی مشترکہ انتخابی نشان پر لڑنے سمیت دیگر کئی اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔سیاسی مبصرین کی رائے میں شاید اِس مرتبہ ’’مقتدر حلقے‘‘ پی پی پی کو الیکشن میں ’’کھلا میدان‘‘ مہیا کرنے کے بجائے ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب ’’جی ڈی اے‘‘ کو بھی ازسرنو فعال کردیا گیا ہے۔ ’’جی ڈی اے‘‘ کے مذکورہ اجلاس میں 5 نومبر کو سانگھڑ میں تقریب، مورو میں ریلی، اور 25 نومبر کو سکھر میں ایک بڑے جلسہ عام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ عوامی تحریک کے رہنما ایاز لطیف پلیجو کو اتحاد کا جنرل سیکرٹری، جبکہ سردار رحیم کو سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔ ’’جی ڈی اے‘‘ کے سربراہ پیر صاحب پگارا سندھ کے ضلع سانگھڑ، ضلع خیرپور سمیت کئی اضلاع میں مؤثر حمایت رکھتے ہیں۔ اجلاس میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی جانب سے مناسب وقت پر اپنے صاحب زادے حسنین مرزا، اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب رکن قومی اسمبلی اُن کی اہلیہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے مستعفی کروانے کے اعلان کو بھی خاصا معنی خیز اور پیپلز پارٹی کے لیے آئندہ کچھ عرصے میں اس حوالے سے پریشان کن حالات پیدا کرنے کی تمہید قرار دیا جارہا ہے۔ جی ڈی اے کے اس اجلاس میں سابق وزرائے اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ، سید مظفر حسین شاہ اور ڈاکٹر ارباب غلام رحیم سمیت پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما اور بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی ڈاکٹر صفدر عباسی، جتوئی قبیلے کے سرخیل غلام مرتضیٰ جتوئی اور عرفان اللہ مروت نے بھی شرکت کی۔ اطلاعات ہیں کہ اس الائنس میں دیگر پارٹیوں کو بھی شامل کروایا جائے گا اور پیپلز پارٹی مخالف انتخابی ماحول کو مؤثر اور بھرپور بنانے کی اِس بار پوری سعی کی جائے گی۔
اسی اثناء میں واٹر کمیشن نیسندھ میں فراہم کردہ پانی پر بے اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کے اخراج سمیت ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں پیش کردہ رپورٹوں پر دوبارہ عدم اطمینان کا اظہار برملا طور پر کرکے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی نااہلی پر ایک اور مہر تصدیق ثبت کرڈالی ہے۔ دوسری جانب سندھ میں لگ بھگ 7 ہزار بند پڑے اسکولوں کے حوالے سے نئی رپورٹیں بھی منظرعام پر آئی ہیں۔ اہلِ سندھ نے سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ہٹائے جانے کے بعد نئے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے اوائل میں اُن کے دعووں اور اعلانات کے باعث کافی امیدیں وابستہ کرلی تھیں، لیکن حالات ہیں کہ بد سے بدترین ہوتے چلے جارہے ہیں۔ صوبہ سندھ میں ایک عام فرد کی جان، مال اور صحت دائو پر لگی ہوئی ہے لیکن ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ایسے میں سندھ کے ہزاروں بے روزگار نوجوانوں میں اس اطلاع نے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے کہ نئی کی جانے والی بھرتیوں میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا کوٹہ بھی رکھا جائے گا۔