اردو لغت بورڈ کے مدیراعلیٰ عقیل عباس جعفری کا انٹرویو

فرائیڈے اسپیشل: اردو لغت بورڈ کیا ہے اور اس کی سربراہی کیسے ملی، یہ کام کس قدر ایک چیلنج ہے؟
عقیل عباس جعفری: یہ ادارہ حکومتِ پاکستان کی ایک قرارداد کے نتیجے میں14 جون1958ء کو قائم ہوا۔ لسانیاتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آکسفرڈ ڈکشنری (کلاں) کے نمونے پر اردو ڈکشنری مرتب کرنا اس کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ اس سے اگلے سال ایک کمیٹی قائم ہوئی جس نے تجاویز مرتب کیں۔ ڈاکٹر عبدالحق اس کے پہلے مدیراعلیٰ اور جوش ملیح آبادی پہلے ادبی مشیر مقرر ہوئے۔ ادارے کی کوئی لائبریری نہیں تھی، اس کے لیے بہت سے حضرات نے اپنی خدمات پیش کیں، اور جناب شان الحق حقی کی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ اس ادارے کی پہلی جلد کا آغاز الف کے برابر اور الف مقصورہ سے کیا گیا۔ پہلی جلد کے مسودے پر بہت نظرثانی ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری، جناب نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھ پوری، حفیظ ہوشیار پوری، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اورنسیم امروہوی کے نام بہت نمایاں ہیں۔ بالکل آغاز میں عبدالحفیظ کاردار اس کے اعزازی معتمد مقرر ہوئے لیکن وہ جلد ہی اس ادارے سے الگ ہوگئے۔ یہ ادارہ قائم ہوئے ساٹھ سال ہوچکے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ادارہ بہت نظرانداز ہوتا رہا۔ 59 برسوں میں بہت کچھ ہوسکتا تھا لیکن غیر فعال رہنے کی وجہ سے اس ادارے سے وہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا جو اٹھانا چاہیے تھا۔ اردو لغت بورڈ میں یہ عہدہ گزشتہ چھے سال سے خالی پڑا تھا، اور جب یہ محکمہ ’قومی ورثہ اور تاریخ‘ کے نام سے الگ ڈویژن بنا اور عرفان صدیقی اس کے لیے وزیراعظم کے مشیر بنے تو انہوں نے ایک ریسرچ کمیٹی تشکیل دی جس نے اس شعبے کے لیے کسی مناسب شخص کی تلاش شروع کی اور تین ناموں کے ایک پینل پر غور ہوا، اور اس کے بعد اس شعبے کی سربراہی کے لیے قرعہ فال میرے نام نکلا۔ پہلے یہ خودمختار محکموں میں شامل تھا، لیکن اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اسے صوبائی حکومت سے باہر نکال کر مرکز میں شامل کردیا گیا۔ یہ محکمہ بہت پرانا ہے اور اسے قائم ہوئے ساٹھ سال ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک اس کے بنیادی مسائل اور وسائل اس کی ضرورتوں کے مطابق زیر بحث نہیں آئے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس ادارے کی تشکیل کا بنیادی مقصد کیا ہے؟
عقیل عباس جعفری: بنیادی طور پر یہ محکمہ اردو کی لغت مرتب کرنے لیے قائم کیا گیا، اور یہ ادارہ معروف شاعر جوش ملیح آبادی کی تجویز پر حسین شہید سہروردی نے قائم کیا۔ مقصد یہ تھا کہ اردو ادب کی ترویج کے لیے باقاعدہ منظم کوشش ہونی چاہیے۔ اس سوچ کے نتیجے میں یہ ادارہ قائم ہوا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق اس کے پہلے سربراہ بنائے گئے اور پھر اردو لغت کے لیے کام ہوا۔ اردو لغت کا پہلا والیم بھٹو دور میں شروع ہوا اور ضیاء الحق کے دور میں 1978ء میں مکمل ہوا۔ باون برسوں میں اس کے بائیس والیم مرتب ہوچکے ہیں۔ اب تک کا آخری والیم فہمیدہ ریاض کی سربراہی کہہ لیں یا نگرانی کہہ لیں‘ میں مکمل ہوا۔ فہمیدہ ریاض اپنے شعبے میں بہت شہرت یافتہ ادیبہ تھیں اور انہیں بہت کمانڈ حاصل تھی۔ بائیسویں جلد کے بعد تئیسویں جلد بھی مکمل ہوچکی ہے اور یہ پروف کے مرحلے سے گزر رہی ہے، اور یہ بھی عرض کردوں کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تاریخی اصول پر اردو زبان کے ارتقائی سفر کو محفوظ بنانے کے لیے اردو لغت کی بائیس جلدوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور غلطی جہاں رہ گئی ہے اسے درست کرلیا جائے اور جو الفاظ شامل ہونے سے رہ گئے ہیں انہیں بھی شامل کرلیا جائے۔ اردوکی سمعی لغت بھی مرتب کی جارہی ہے تاکہ تلفظ اور الفاظ کی ادائی سے آگاہی حاصل ہو۔ پہلی جلد جناب ابواللیث صدیقی کی سربراہی میں1977ء شائع ہوئی، اس کے 1236 صفحات ہیں۔ جلد اول کی دوسری اشاعت 2006ء میں ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی نگرانی میں ہوئی، اور تیسری اشاعت محمد عارف کی نگرانی میںہوئی۔ جلد دوم 1979ء میں، تیسری 1981ء، چوتھی 1982ء، پانچویں1983 ء اور چھٹی جلد 1984ء میں ابواللیث صدیقی کی نگرانی میں شائع ہوئی۔ اسی طرح ساتویں جلد ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی نگرانی میں1986ء، اور آٹھویں جلد انہی کی نگرانی میں1987ء میں شائع ہوئی، اور دسویں جلد تک کا کام ان کی نگرانی میں ہوا۔ ان کے بعد محمد عارف آئے، ان کے بعد ڈاکٹر یونس حسنی، ڈاکٹر روئوف پاریکھ اور فرحت فاطمہ رضوی نے بھی اپنے اپنے وقت میں خوب کام کیا۔ ان سب کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مزید کام بھی ہورہا ہے؟
عقیل عباس جعفری: چینی زبان اور اردو کی لغت مرتب کی جارہی ہے۔ جرمن زبان میں بھی ہم نے بہت کام کیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والا یہ منفرد کام ہے۔ اردو لغت کو مکمل اسناد اور پوری صحت کے ساتھ تیار کرنا بہت مشکل کام تھا لیکن ہماری ٹیم نے یہ کام کرکے دکھایا ہے۔ ہم سے پہلے بھی بہت کام ہوا ہے۔ ہم علاقائی زبانوں میں لغت مرتب کرنا چاہتے ہیں۔ اردو لغت بورڈ کے کتب خانے میں موجود کتب کو آن لائن کیا جارہا ہے، اس سے نایاب کتب محفوظ بھی ہوجائیں گی اور افادۂ عام بھی ہوگا۔ انسائیکلوپیڈیا پر بھی کام ہورہا ہے۔ یہ ایک جامع انسائیکلو پیڈیا ہوگا، اس کی پندرہ جلدیں ہوںگی، یہ انٹرنیٹ اور موبائل فون پر ایپ کے ساتھ دستیاب ہوگا۔ اردو لغت بورڈ کے کتب خانے میں اٹھارہ ہزار کتب کا ذخیرہ ہے۔ اردو لغت کی تاریخی اصول پر ترتیب اور تدوین میں حوالہ جات اور اسناد پر بہت توجہ دی گئی ہے اور ان کتب سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ یہ کتب خانہ جوش ملیح آبادی کے نام سے منسوب ہے۔ اسی طرح دیگر ادیبوں اور شاعروں کے نام بھی منسوب کیے گئے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اس کا مطلب ہوا کہ یہ کام پھر باون سال کا وقت لے گا؟
عقیل عباس جعفری: نہیں، اس کے لیے ہم کام بانٹ سکتے ہیں۔ والیم مختلف لوگوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں بہت سے ریٹائرڈ اساتذہ کی خدمات مل سکتی ہیں، اور یہ کام بیرونِ ملک مقیم افراد سے بھی لیا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک والیم میں اگر دس لاکھ الفاظ بھی ہوں تو یہ بڑا کام ہوگا اور بجٹ بھی چاہیے ؟
عقیل عباس جعفری: جی ہاں اس کے لیے بڑا بجٹ چاہیے ۔ امید ہے کہ ہم یہ حاصل کرلیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: آج کل تو الیکٹرانک کا دور ہے، کمپیوٹر زندگی کا حصہ بن چکا ہے، سب کچھ الیکٹرانک کے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ کیا آپ کے ذہن میں بھی کوئی ایسی تجویز ہے کہ جدت کی جانب پیش قدمی کی جائے؟
عقیل عباس جعفری: ہم صوتی لغت کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں تاکہ تلفظ کی بھی اصلاح ہوتی رہے کہ لفظ کیسے ادا ہونا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور کوشش کی جارہی ہے، وہ بھی منفرد ہوگی کہ ہم ای بک کی طرف جارہے ہیں۔ اب بہت جلد قاری کمپیوٹر کا بٹن کھول کر اپنی پسند کی کتاب پڑھ سکیں گے۔ نیشنل لائبریری میں اس کے لیے کام شروع ہوچکا ہے اور چھے کروڑ روپے کے فنڈز بھی مل چکے ہیں۔ اس کے علاوہ موبائل فون پر بھی اب صارفین اردو لغت سے استفادہ کرسکیںگے۔ اس کے لیے ہم نے تلاش کے نام سے ایک ایپ متعارف کرائی ہے، اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل میں سافٹ ویئر کا بھی ایک مسئلہ ہے، جب ہمیں اس حوالے سے جدید سافٹ ویئر مل جائے گا تو ہماری کاوش بہتر انداز میں سامنے آجائے گی۔ اس وقت ہمیں کہیں زیر اور کہیں زبر اور پیش جیسے مسائل درپیش ہیں۔ بہرحال اس کے باوجود ہماری کوشش ہے کہ کم وسائل کے ساتھ بہتر کام کیا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ اس ادارے کی اہمیت کے پیش نظر حکومت اس کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرے۔ اس ادارے کو قائم ہوئے ساٹھ سال ہوچکے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ جو آپ نے موبائل فون ایپ کی بات کی ہے، اس کی کوئی قیمت ہوگی؟
عقیل عباس جعفری: اس کے لیے ایک ڈالر قیمت تجویز کی گئی تھی، لیکن اس پر ابھی عمل نہیں ہورہا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس کے لیے تو بجٹ بھی درکار ہوگا؟
عقیل عباس جعفری: جی ہاں اس کے لیے ایک کروڑ روپے کا بجٹ منظور ہوچکا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے ادارے کا ایک رسالہ ’’اردو نامہ‘‘ بھی ہوتا تھا، اس کی اشاعت ہورہی ہے؟
عقیل عباس جعفری: ’’اردو نامہ‘‘ دوبارہ شروع کررہے ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے شائع کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس کے لیے کام شروع ہوچکا ہے اور اسی ماہ نومبر میں لانچنگ ہوگی۔ ایوانِ وزیراعظم میں اس کے لیے تقریب ہوگی اور ہم کوشش میں ہیں کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس تقریب کے لیے وقت عنایت فرمائیں۔ اس پر صرف 54 شماروں تک کام ہوا تھا، اس کے بعد نہیں ہوسکا۔ غالباً بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے صد سالہ یوم پیدائش تک کام ہوا۔ 1976ء کے بعد پھر کام نہیں ہوا۔ اب ہم اسے دوبارہ شروع کررہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ بتائیں کہ بچوں کے لیے کچھ کام ہورہا ہے یا نہیں؟ آج کل اس کی بہت ضرورت ہے۔ میڈیا نے بچوں کی زبان بہت خراب کردی ہے اور اردو کے بجائے ہماری نئی نسل ملی جلی سی زبان بول رہی ہے۔ بچوں کے لیے اردو لغت کے حوالے سے کیا کام آپ کے ذہن میں ہے؟
عقیل عباس جعفری: یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور اس کے لیے ہم بچوں کی کتابوں میں دیے گئے اردو کے مشکل الفاظ منتخب کرکے ان کے معانی لکھ رہے ہیں، اور بہت جلد یہ کام مرتب ہوجائے گا۔ ہم نے صوبائی حکومتوں سے تعلیمی نصاب منگوایا، اس کا جائزہ لیا، اور اردو کے مشکل الفاظ منتخب کیے گئے۔ اور اب ان کے معانی دیے جارہے ہیں۔ یہ کام بھی جلد ہی مکمل ہوجائے گا کیونکہ مشکل الفاظ کے چنائو کے بعد ان کے کارڈ بن گئے ہیں، اب انہیں لغت میں شامل کیا جانا باقی ہے۔ اس پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس کا نام کیا ہوگا، ’’بچوں کی لغت‘‘ یا ’’بچوں کا لغت‘‘؟
عقیل عباس جعفری: جب بچوں کی لغت کے لیے کام تجویز ہورہا تھا تو اُس وقت بھی یہ سوچا گیا کہ اس کو نام کیا دیا جائے، اسے ’’بچوں کا لغت‘‘ کہا جائے یا ’’بچوں کی لغت‘‘۔
فرائیڈے اسپیشل: فیصلہ کیا ہوا؟
عقیل عباس جعفری: فیصلہ ہوا کہ اصل اور درست نام تو ’’بچوں کا لغت‘‘ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اب اردو رومن میں لکھی اور پڑھی جارہی ہے۔ ایسے تعلیمی ادارے جو انگلش میڈیم ہیں، وہاں تو اردو کے لیے اساتذہ تک میسر نہیں ہیں، اور طلبہ کی اردو بھی اچھی نہیں۔ اندرون سندھ میں غالباً رومن اردو کا زیادہ رواج ہے، لیکن ٹی وی چینل کے پرامپٹرز پر بھی اینکرز حضرات کے لیے ایسا ہی کرنا پڑرہا ہے، اردو کو رومن سے کب آزاد کرائیں گے؟
عقیل عباس جعفری: یہ نہیں ہوسکے گا۔ یوں سمجھ لیں کہ اردو نے رومن سے مفاہمت کرلی ہے۔ ہم تو یہ بھی کررہے ہیں کہ صوبوں کی کلچرل زبان اور مقامی رسم ورواج میں استعمال ہونے والے الفاظ کی بھی لغت تیار کررہے ہیں تاکہ پورے ملک میں ان الفاظ سے متعلق آگاہی ہوجائے۔
فرائیڈے اسپیشل: تلفظ کا بھی مسئلہ ہے۔ پھر وہی بات کروں گا کہ ٹی وی چینلز نے اس کا بیڑہ ہی غرق کردیا ہے۔ غلط لفظ نشر ہوجاتا ہے اور کوئی اس جانب دھیان ہی نہیں دے رہا۔
عقیل عباس جعفری: اسی لیے ہم درست تلفظ کے لیے مینوئل تیار کررہے ہیں، اور یہ بھی بتادوں کہ ہم فرائیڈے اسپیشل میں اطہر ہاشمی کے کام کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اردو کے لیے ان کی خدمات واقعی بہت قابلِ قدر ہیں۔ مجھے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں ان کا کالم ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ میری تجویز ہے کہ اب تک جتنا بھی کام ہوا، اسے اب کتاب کی شکل میں شائع ہوجانا چاہیے۔ ہمیں اردو کی بہتری کے لیے اطہر ہاشمی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔