نذرِ شورش

خلیل احمد خلیل
وہ ایک مردِ قلندر خودی کا دیوانہ
خرد پرستوں میں وہ ایک تاجدارِ جنوں
وہ اپنی ذات میں فرزندِ ملتِ اسلام
خطیبِ عشق کہوں یا نقیبِ شوق کہوں
معاشرے کے لیے اور عبادتوں کے لیے
جو عادتیں تھیں سبھی عشقِ مصطفیؐ سے لیں
اساسِ ملک اور اسلامی نظریے کے لیے
صعوبتیں بھی بہت قید و بند کی جھیلیں
بلند شعلہ بیانی سے توڑ ڈالا سکوت
قلم سے ڈالا ہے دیوارِ اہرمن میں شگاف
سیاسی جبر و حراست کے سامنے آکر
چٹان بن کے کھڑا تھا وہ آمروں کے خلاف
میں کیا بتائوں کہ کیا کیا صفات تھیں اس میں
ادب پرست قلم کا دھنی مدبر تھا
شعور مجلسِ احرار کا حریت مند
وہ اپنے وقت کا شعلہ بیاں مقرر تھا
قلم جب اس کا ہوا اس وطن میں سینہ سپر
پھر اشتراکی عزائم بھی ہو گئے مسدود
بلند ختمِ نبوت کا اس سے پرچم تھا
اسی کے دم سے ہے آباد شورش موجود
سدا حریف تھا خود ساختہ خدائوں کا
بلیغ و جامع و حق گوئی تھا علم اس کا
تمام عمر تھا باطل سے برسرِپیکار
کہ حق پرست تھا بے ساختہ قلم اس کا
سدا عدم میں بھی آباد ہو کہ شورشؔ نے
لہو دیا ہے صحافت کا رنگ بھرنے میں
کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اپنی جانب سے
سیاسی قبلہ کو اس نے درست کرنے میں