دبئی سے محترم عبدالمتین منیری کے توسط سے سید محسن نقوی کا بڑا تفصیلی محبت نامہ موصول ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے پچھلے کالم کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’وضاحت پوری نہیں ہوئی‘‘۔ چنانچہ انہوں نے کام پورا کردیا۔ اس طرح اِس ہفتے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی، اور ضرورت پڑگئی تو محترمہ عابدہ رحمانی کے استفسار کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ عبدالمتین منیری بھٹکلی سے گزارش ہے کہ ’’گزرگاہِ خیال‘‘ سے جس کا بھی گزر ہو اُس کے شہر کا نام ضرور دے دیا کریں۔ سید محسن نقوی کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ اس سے پہلے بھی رابطہ کرچکے ہیں، غالباً ممبئی سے۔ ان جیسے اہلِ علم سے یہ گزارش کرنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ ’’لیے، دیے‘‘ وغیرہ پر ہمزہ نہ لگائیں یعنی ’’لئے‘‘۔
اپنے تفصیلی مضمون میں محسن نقوی نے ہماری معلومات میں بیش بہا اضافہ کیا ہے اور عربی فارسی دونوں ہی پڑھا ڈالی ہیں۔ ہمارے ایک قاری فیصل نے فیروزاللغات کے حوالے سے توجہ دلائی تھی کہ اس میں آصف کے ص پر زبر ہے تو ایسا ہی ہے۔ لیکن یہ سہوِ کاتب معلوم ہوتا ہے۔ کئی لغات پر نظرثانی کی جارہی ہے۔ اب جناب محسن نقوی کے فرمودات تحریری شکل میں پڑھیں:
’’اس بار بھی اطہر ہاشمی صاحب کا مضمون بہت پُرلطف ہے۔ لیکن اس دفعہ موصوف نے ایک ہی کالم میں بہت سی باتیں کہہ ڈالی ہیں۔ کچھ باتوں کی وضاحت پوری نہیں ہوئی، اس لیے یہ لکھنے بیٹھ گیا۔
مرنجان و مرنج
فارسی کے دو مصدر ہیں۔ پہلا ہے رنجیدن۔ اس کے معنی ہیں رنج اٹھانا، غم کرنا وغیرہ۔ یہ فعلِ لازم ہے۔ یعنی اس میں مطلب بغیر اسم مفعول لائے ہوئے پورا ہوجاتا ہے۔ اس کا صیغہ نہی ہے مرنج، یعنی تم کوئی غم نہ اٹھائو۔
دوسرا ہے رنجانیدن۔ اس کے معنی ہیں کسی دوسرے کو رنج پہنچانا، تکلیف دینا، غم میں مبتلا کرنا وغیرہ۔ یہ فعلِ متعدی ہے، یعنی اس میں مفہوم کو پورا ادا کرنے کے لیے اسم فاعل اور اسم مفعول دونوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کا صیغہ نہی ہے مرنجان، یعنی کسی دوسرے کو رنجیدہ نہ کرو۔
پوری ترکیب کا ترجمہ ہوگا: نہ تم خود کوئی رنج اٹھائو اور نہ کسی دوسرے کو رنج پہونچائو۔ بیچ میں وائو لانا ضروری ہے۔ اس کے لیے متبادل انگریزی کا محاورہ ہے:
Live and let live
لیت و لعل
یہ دونوں عربی کے الفاظ ہیں۔ اردو میں یہ ترکیب ٹال مٹول کے معنیٰ میں مستعمل ہے جیسا کہ اطہر ہاشمی صاحب نے لکھا ہے۔ لیکن اس کی اصل کیا ہے؟
دنیا کی ہر زبان میں ایک بالکل بنیادی مصدر ہوتا ہے۔ انگریزی میں ہے To be … اردو میں ہونا، اور سنسکرت میں بھو۔ اسی سے ہندی کا لفظ بَھوَن بمعنی ایک بڑی عمارت۔ انگریزی کا لفظ BUILDاور جرمن زبان کا لفظ BAU اِسی سنسکرت مادہ سے ماخوذ ہیں۔
عربی میں یہ لفظ ہے کَانَ۔ اس کا مضارع ہے یَکُونُ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا لفظ ہوتا ہے]ہوجانا[، انگریزی میں ہے To become۔ تو پہلا لفظ کسی شے کی طبعی حالت کو بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا لفظ حالت کے بدل جانے کو بیان کرتا ہے۔ عربی میں اس دوسرے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کئی الفاظ ہیں، ان کو اِخواتِ کانَ کہا جاتا ہے یعنی کانَ کی بہنیں: زَالَ۔کسی چیز کا چلا جانا یا غائب ہوجانا۔ اَصبَحَ۔ اس کے اصل معنیٰ ہیں رات سے دن ہوجانا۔ لیکن محاورۃً حالت کے بدل جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اَمسَیٰ۔ دِن سے شام ہوجانا۔
دامَ۔کسی عمل کا مسلسل جاری رہنا۔
بَقِیَ۔ کسی چیز کا مسلسل باقی رہنا۔
لَیسَ۔ اس کے معنیٰ ہیں وہ نہیں ہے (مذکر)
اس کی شکل مونث میں ہوگی لیَت۔ وہ نہیں ہے۔
لَعَلَّ۔ اس کے معنیٰ ہیں شاید (ایسا) ہو۔
تو اس ترکیب ] لیت و لعل[ کا ترجمہ ہوگا ایسا نہیں ہے، مگر شاید ایسا ہو (بھی سکتا ہے)۔
امام باڑہ آصف الدولہ
اطہر ہاشمی صاحب کی بات بالکل درست ہے کہ لفظِ آصِف کی ’ص‘ میں زیر ہے، زبر نہیں ہوسکتا۔ یہ زیرو زبر کا چکر ہم نے بھی پہلی دفعہ پاکستان آکر دیکھا اور سُنا۔ ہم نے پہلی بار1958ء میں راولپنڈی آکر اپنا نام (محسن) جب ’س‘ پر زبر کے ساتھ سُنا تو بالکل یہ محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے کلیجے میں چھری مار دی ہو۔ پھر ایک دن کالج میں پروفیسر صاحب سے لفظِ ’تعلق‘ کا تلفظ سُنا جو تھا’’تُلّک‘‘۔ ’ت‘ پر پیش اور لام پر تشدید کے ساتھ۔ تو ہم کو جھرجھریاں آگئیں لیکن پھر صبر کرلیا۔ اس کے بعد تو پھر ہم بھی عادی ہوگئے، غَلَط غَلط ہوگیا، یعنی ’ل‘ ساکن کے ساتھ، تلفّْظ تَلَفّظ ہوگیا یعنی ’ف‘ پر زبر آگیا اور نہ جانے کیا کیا۔
خیر بہرحال۔ اب آتے ہیں امام باڑہ پر۔
’’نواب آصف الدولہ‘‘، پیدائش: 1748ء، وفات: 1797ء۔
اردو شاعر اور والیٔ اودھ، نواب شجاع الدولہ کے بیٹے تھے۔ باپ کی وفات پر 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے۔ بعد ازاں لکھنؤ کو دارالحکومت بنایا۔ تعمیرات کا بہت شوق تھا۔ ان کا تعمیر کردہ لکھنؤ کا شاہی محل اور امام باڑہ مشہور عمارتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شعر و شاعری اور دیگر علوم و فنون کے قدردان تھے۔ دہلی کے مشہور شعراء مرزا رفیع سوداؔ، میر تقی میرؔ ، اور سید محمد میر سوزؔ انہی کے عہدِ حکومت میں لکھنؤ آئے اور دربار سے وابستہ ہوئے۔ اردو، فارسی، دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور میر سوز سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے بنائے ہوئے امام باڑے میں دفن ہوئے۔
امام باڑہ آصف الدولہ عرفِ عام میں بڑے امام باڑے کے نام سے موسوم ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کی تعمیر نواب آصف الدولہ کے حکم پر ہوئی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر اور اس کے ساتھ ساتھ رومی گیٹ کی تعمیر میں ایک کہانی ہے۔ ایک بار اودھ میں سخت خشک سالی آئی۔ پیداوار بالکل ختم ہوگئی، لوگ بھوک سے پریشان ہوگئے۔ لیکن اودھ کا خزانہ اب بھی بہت مالدار تھا۔ بادشاہ نے بجائے خیرات بانٹنے کے ایک بڑا تعمیراتی پروگرام شروع کیا۔ مزدور اور کاریگر بلائے گئے، تعمیر شروع ہوگئی، اس طرح بیکاروں کو ذریعۂ معاش فراہم کیا گیا۔ دن بھر مزدور دیواریں اُٹھاتے تھے۔ رات کو اندھیرے میں امرا اور شرفا کو حکم دیا جاتا کہ جاکر دیواروں کو گرادیں۔ اس طرح کام کا دورانیہ بڑھایا گیا۔ یہ کام اُس وقت تک جاری رہا جب تک کہ عوام کی حالت سُدھر نہ گئی۔ یہ عمارت 1784ء میں بن کر تیار ہوئی۔ اس کے آرکیٹکٹ کا نام کفایت اللہ تھا۔ وقت کے بہترین کاریگر جمع ہوگئے تھے اور انہوں نے جان توڑ کے محنت اور دلچسپی سے کام کیا تھا۔ لہٰذا ایک ایسی عمارت تیار ہوئی جو آج تک اپنی مثال آپ ہے۔ امام باڑہ کا ہال تقریباً 50 میٹر (160 فِٹ) لمبا اور16 میٹر (تقریباً 50 فِٹ) چوڑا ہے۔ کہیں لوہا نہیں لگایا گیا ہے۔ یہ اٹھارویں صدی کی ہندوستانی تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اتنی بڑی بغیر لوہے کی چھت کا کوئی ہال دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔ لکھنؤ شہر کے لیے یہ عمارت ایک عجیب چیز ہے اور ہندوستان میں تاج محل کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت تعمیری نمونہ ہے۔ نواب آصف الدولہ نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کو مرنے کے بعد اِسی امام باڑے کے داخلی دروازے کے نیچے دفن کیا جائے۔
ہمیں امام باڑہ کی تفصیلات والدۂ مرحومہ محسنہ بیگم (اللہ مرحومہ کو غریق رحمت کرے اور ان کے درجات کو بلند کرے، ایک خانہ نشین خاتون ہوتے ہوئے بھی نہ جانے کیا کیا علوم و معلومات ہم کو اپنی مختصر حیات میں دے گئیں) نے بتائی تھیں۔ جب ہم نے مرحومہ سے کالج کے ہال کی شہ نشین کا ذکر کیا تو مرحومہ نے فوراً یہ ساری تفصیلات بیان کردیں۔‘‘