آراء قارئین

جمہوریت اور اکثریت کے نام پر آمریت

میاں نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ سے نااہلی ہمارے ملک اور عدلیہ کی تاریخ کا ایک بڑا فیصلہ ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں عام طور پر مقدمات کے فیصلے بہت تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں، اور یہ تاثر بھی عام ہے کہ عدالتیں بڑے لوگوں کے خلاف فیصلے نہیں کرتیں۔ اس لیے نوازشریف کے خلاف فیصلہ عجیب سا لگ رہا ہے، حالانکہ عدلیہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی فیصلہ دے چکی ہے۔ میاں نوازشریف کے خلاف پاناما مقدمہ گزشتہ ایک سال سے عدالت میں زیرسماعت تھا، اس میں انھیں، ان کے بچوں اور ساتھیوں کو صفائی کا پورا موقع بھی دیا گیا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نوازشریف فیملی نے اس کیس کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تھا، اور جب فیصلہ ان کے خلاف آگیا تو وہ اسے ماننے کو تیار نہیں۔ حالانکہ کسی طاقتور کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ ہونا ملک کے لیے ایک اچھی مثال اور روایت ہوتی ہے، اس چیز کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے تھی تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ ملک میں حکمرانوں کے خلاف کوئی قانون نہیں۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ مذکورہ فیصلہ غلط ہے یا صحیح اس نکتہ پر بحث ہوسکتی ہے، اس کے لیے قانون میں ایک واضح طریقہ کار موجود ہے، لیکن یہ بات کسی طور بھی درست نہیں کہ آپ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر عدلیہ اور قانون کے خلاف اعلانِ جنگ کردیں۔ فیصلے درست بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ ان فیصلوں کے خلاف آئین اور قانون میں اپیل کا حق اور طریقہ کار موجود ہے۔ لیکن یہ تو کبھی نہیں ہوسکتا کہ فیصلہ آپ کی مرضی کے مطابق آپ کے حق میں ہی آئے تو قبول ہوگا۔ اکثریت اور جمہوریت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ آئین، قانون، اسلام، اس ملک اور عدلیہ کے خلاف کچھ بھی کرلیں، جمہوریت میں اپنے خلاف فیصلوں کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اسے جمہوریت نہیں آمریت کہا جائے گا۔ آپ کے خلاف فیصلہ آئے تو آپ پورے جاہ و جلال اور پروٹوکول کے ساتھ عدلیہ پر چڑھائی کردیں، تو یاد رکھیں اسے عوام اور تاریخ کبھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرے گی۔ جمہوریت میں اکثریت یا مینڈیٹ کا مطلب ملک اور قوم کی خدمت ہوتا ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اکثریت دینے والے عوام اور ملک کے خلاف ہی اپنی طاقت استعمال کرنا شروع کردیں۔ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں اقتدار اور دولت کے مزے لوٹنے والے اسی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ دیکھا جارہا ہے کہ حکمرانوں میں کچھ لوگ جمہوریت اور اکثریت کا غلط مطلب نکال رہے ہیں۔ اگر آپ کو یہ ملک اور جگہ پسند نہیں تو خدا کے لیے پاکستان کی جان چھوڑ دیں ۔ پاکستان کا نمک کھا کر اس کی نمک حرامی نہ کریں۔ پاکستان کے عوام باشعور ہیں، وہ اس چیز کی اجازت کبھی نہیں دیں گے کہ کوئی اس ملک اور اداروں کے خلاف کسی قسم کی بدزبانی یا بکواس کرے۔ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا۔ اس کے دشمن اور غدار تاریخ کی گرد میں گم ہوجائیں گے۔ پاکستان کے22 کروڑ عوام ملک کے کسی بھی دشمن اور غدار کی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔ پاکستان میں رہنے والے سب لوگوں کو اس کے آئین، قانون، عدلیہ، فوج سمیت تمام اداروں کا احترام کرنا پڑے گا۔ ایک مخصوص طبقے کو اپنی سوچ بدلنا پڑے گی جو اس ملک پر حکمرانی کو اپنا حق سمجھتا ہے لیکن اس ملک میں رہنا گوارا نہیں کرتا۔ ان کے کاروبار،گھربار اور بچے دوسرے ممالک میں رہتے اور تعلیم حاصل کرتے ہیں، اپنا علاج تک امریکہ اور یورپی ممالک میں کراتے ہیں۔ ان کا پاکستان سے تعلق اتنا ہی ہے کہ یہاں کے عوام کو سبز باغ دکھاکر، دلفریب جھوٹے نعروں سے ووٹ اور اقتدار حاصل کریں۔ یہاں حکمرانی کرنی ہے اور لوٹ مار اور کرپشن کرکے پاکستان کا سرمایہ بیرونی ممالک میں لے جانا ہے۔ یہی لوگ اسمبلیوں میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر نہایت دیدہ دلیری سے آئین کا آرٹیکل 62۔63 ختم کردینا چاہتے ہیں جس کے مطابق رکن اسمبلی بننے کے لیے اُمیدوار کو امین اور صادق ہونا چاہیے۔ حالانکہ اسمبلیوں میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو اس آرٹیکل پر پورا نہیں اترتے اور ان کی وجہ سے اس آرٹیکل پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ یہ لوگ ہوسِ اقتدار میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انھوں نے انتحابی اصلاحات کے نام پر الیکشن کے اس حلف نامے کو بھی ختم کردیا ہے جس میں مسلمان امیدوار اس بات کا اقرار کرتا تھاکہ وہ عقیدۂ ختم نبوت پر یقین رکھتا ہے۔ ان کی اس اسلام دشمن سازش سے صرف اور صرف قادیانی فرقہ یا ان کا آقا امریکہ ہی خوش ہوا ہوگا۔ لیکن اللہ کے فضل و کرم سے آئین میں اسلام سے متصادم کوئی بھی شق ختم نہیں ہوگی۔ پاکستان کے آئین سے اسلامی شقیں ختم کرنے کی کوشش کرنے والے ہی ختم اور نیست و نابود ہوں گے۔ پاکستان، جمہوریت، عدلیہ اور خود مسلم لیگ (ن) کے مفاد میں یہی بہتر تھا کہ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیا جائے۔
چودھری عبدالقیوم… سیالکوٹ

سیاست کا المیہ

اس وقت ملک میں نااہل حکمرانوں کی حکومت ہے، جس سے ملک اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پرالزام تراشی کررہی ہیں، ساتھ ہی کہہ رہی ہیں کہ جمہوری نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے، یہ جمہوریت جیسی بھی ہے اس کو چلنا چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس جمہوریت کی بات کررہے ہیں؟ ایسی جمہوریت جس میں عام آدمی کو روٹی، کپڑا، مکان اور دیگر بنیادی چیزیں میسر نہ ہوں؟ مہنگائی کی وجہ سے لوگ دن بدن پستے جا رہے ہوں! مہنگائی سے خودکشیاں کررہے ہوں، ایسی جمہوریت جس میں بجلی، گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ ہو، کارخانوں اور فیکٹریوں میں بجلی چوری ہو لیکن گیس اور بجلی کے زائد بل غریب عوام پر ڈال دیئے جائیں! ایسی جمہوریت جس میں وزیراعظم اربوں روپے کی کرپشن کرے، پیسہ غیر ممالک منتقل کرے اور محلات بنائے، جبکہ اس کرپشن کا ملبہ روزمرہ کی اشیائے خوردنی پر ٹیکس عائد کرکے عوام پر ڈال دے جس سے ان کی رہی سہی سکت بھی ختم ہوگئی ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ غریب، لاچار بزرگ پنشنرز کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہیں ان کی پنشن پر بھی سالانہ ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ اب صرف مُردوں پر ٹیکس لگانا باقی رہ گیا ہے، اس حکومت سے توقع ہے کہ عنقریب یہ ٹیکس بھی عائد کردے گی۔ حکومت اپنی عیاشیوں پر پردہ ڈالنے پر ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں ہر سال 100فی صد اضافہ کردیتی ہے تاکہ وہ حکومت کے کاموں میں دخل اندازی نہ کرسکیں۔ یہ ارکانِ اسمبلی بے چارے بہت ہی ’’غریب‘‘ ہیں جن کو حکومت نوازتی ہے۔ یہ ہے جمہوری نظام جو سیاسی جماعتوں کی نظروں میں بہت اچھا ہے۔ عوام میں کچھ ایسے ناسور موجود ہیں جو میرجعفر کا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ لوگ چند پیسوں کی خاطر نااہل حکمرانوں سے ملے ہوئے ہیں، ان کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہی ٹولہ ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ افسوس ناک خبر ہے کہ نااہل سابقہ وزیراعظم ان دنوں لندن میں مقیم ہے، اس کے رابطے غدار الطاف حسین سے ہیں جو ’’ را‘‘ کا ایجنٹ ہے، جس نے پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا اور پاکستانی پرچم کو جلایا۔ اسی طرح حسین حقانی کے ساتھ بھی رابطہ ہے جو پاکستان کا مخالف ہے، جس پر میمو گیٹ کے تحت کیس چل رہا تھا، اس مقدمے پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابقہ وزیراعظم اپنی اور اپنے خاندان کی کرپشن بچانے کی خاطر ہر حربہ استعمال کررہا ہے۔ فوج اور عدلیہ کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ الطاف حسین اور حسین حقانی سے مل کر پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات بھول کر ختمِ نبوت کے تحفظ اور پاکستان کی بقا کے لیے تخریبی عناصر کی سازشوں کے خلاف اکٹھی ہوکرآواز بلند کریں۔ غریب عوام پر جو ناجائز ٹیکس عائد کیے گئے ہیں ان کو ختم کرائیں، عوام کی بہتری کے لیے مثبت کام کریں اور اس طرح اپنے آپ کو مخلص ثابت کریں ۔
غلام یٰسین…ملتان