علم و دانش

رابعہ بصریؒ

حضرت رابعہ بصریؒ کا زمانہ 714ء تا 801ء بتایا جاتا ہے۔ آپ مشہور عابدہ و صالحہ تھیں اور امام حسن بصریؒ، مالک بن دینارؒ اور امام ثوریؒ جیسے جلیل القدر اشخاص آپ سے فیض یاب ہوئے۔ قحط سالی کے زمانے اور لڑکپن میں غلام بنا لی گئی تھیں لیکن شروع سے ہی عبادت و ریاضت میں مشغول رہیں۔
٭ اگر تم دنیا سے فارغ ہو تو دنیا کی برائی بھلائی کی تمہیں پروا نہیں ہوسکتی۔
٭ مجھے اجر و ثواب کی امید اُس وقت ہوتی ہے جب اپنے اعمال و عبادت کو ہلکا سمجھتی ہوں اور اُس وقت جبکہ میرا اعتماد محض خدائے رحمن کے فضل و کرم پر ہوتا ہے۔
٭ اے نفس تُو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویدار ہے اور اس کی نافرمانی بھی کرتا ہے۔ اگر تُو محبت میں صادق ہے تو اپنے رب کی اطاعت بھی کر۔ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطلاعت ضرور کرتا ہے۔
٭ محبت ازلی و ابدی ہے۔
(گنجینۂ اقوال… مرتب: سعید اے شیخ)

سمجھنے کی بات

کہتے ہیں ایک طوطے اور طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا۔ ویرانہ دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا ’’کس قدر ویران گائوں ہے؟‘‘ طوطے نے کہا ’’لگتا ہے یہاں کسی اُلّو کا گزر ہوا، جس کی نحوست سے بھرا پُرا گائوں ویران ہوگیا‘‘۔ جس وقت طوطا اور طوطی یہ باتیں کررہے تھے ایک اُلّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا، اس نے یہ گفتگو سنی تو رک گیا اور بولا ’’تم لوگ گائوں میں مسافر لگتے ہو، آج رات میرے پاس ٹھیرو، کھانا کھائو، کل چلے جانا‘‘۔ اُلّو کی محبت بھری دعوت کو دونوں نے ٹھکرانا مناسب نہ سمجھا اور رک گئے۔ صبح جب اظہارِ تشکر کے بعد دونوں چلنے لگے تو اُلّو نے طوطی کو روک لیا کہ تم کہاں جا رہی ہو! طوطی بولی ’’طوطے کے ساتھ جا رہی ہوں، مجھے اس کے ساتھ ہی جانا ہے‘‘۔ اُلّو نے کہا ’’مگر تم تو طوطی نہیں میری بیوی ہو، یہاں رہو۔ طوطے کے ساتھ جانے کی ضد نہ کرو‘‘۔ طوطا بہت بگڑا اور کہنے لگا ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو! اپنی ہیئت کذائی، رنگ دیکھو پھر طوطی کو اپنی بیوی کہو۔ ہم دونوں کو پریشان نہ کرو اور جانے دو۔‘‘
معاملہ بڑھا تو اُلّو نے تجویز پیش کی کہ آپس میں جھگڑنے کے بجائے ہم قاضی کے پاس چلتے ہیں، قاضی کا فیصلہ ہم دونوں کو قبول ہوگا‘‘۔ یہ معقول تجویز سن کر طوطا مان گیا۔ تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ اُلّو اور طوطے کی ساری داستان سن کر قاضی نے فیصلہ سنایا کہ بادی النظر میں اُلّو کا مؤقف درست ہے، طوطا معقول شواہد پیش نہیں کرسکا، لہٰذا طوطی، طوطے کے ساتھ جانے کی ضد نہ کرے اور اُلّو کی بیوی بن کر رہے‘‘۔ اس بے انصافی پر طوطا بہت تلملایا، مگر قاضی کا فیصلہ تھا، ماننا پڑا اور طوطی کو چھوڑ کر اپنی راہ لی۔ طوطا ابھی زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اُلّو نے اُسے روکا اور کہا ’’بھائی، اپنی طوطی تو لیتے جائو، جو تمہاری بیوی ہے۔‘‘
طوطا حیران ہوکر بولا ’’اب مزید مذاق کرو، نہ میرے زخموں پر نمک چھڑکو، عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ میری نہیں، تمہاری بیوی ہے‘‘۔
اُلّو نرمی سے بولا ’’نہیں دوست یہ میری نہیں، تمہاری بیوی اور طوطی ہے، تم کو مبارک ہو۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں اور گائوں اُلّو ویران نہیں کرتے۔ ویرانی تب ڈیرے ڈالتی ہے جب ان بستیوں سے انصاف اُٹھ جاتا ہے اور بے انصافی کا دور دورہ ہوتا ہے ؎
گرگ میر و سگ وزیر و مُوش دیواں مے شوند
ایں چنیں ارکانِ دولت، ملک ویراں می شوند

راز کی حفاظت

امیر معاویہؓ (661 ۔680ء) کے ایک درباری ولید بن عتبہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امیر معاویہؓ نے مجھے ایک راز بتایا۔ میں اپنے والد کو بتانے لگا تو انہوں نے روک دیا اور کہا کہ یہ عادت اچھی نہیں ہے، جب تک راز تمہارے سینے میں ہے تم اس کے مالک ہو اور بعد از افشا دوسرا مالک بن جائے گا اور تم اُس کے غلام۔
خودداری
برابرہ (مراکش) کا ایک رئیس و ادیب سلیمان بن وانسوس اندلس کے ایک اموی خلیفہ عبداللہ بن محمد (888ء۔912ء) کے ہاں گیا۔ سلیمان کی داڑھی خاصی گھنی اور لمبی تھی۔ خلیفہ نے اس کی داڑھی پر ایک دو پھبتیاں کس دیں۔ اس پر سلیمان نے کہا: اے امیر! میں یہاں تلاشِ عزت کے لیے آیا تھا، اگر میرے لیے یہاں ذلت کے سوا کچھ نہیں تو پھر میرے لیے میرے گھر کی چار دیواری کافی ہے، اور اگر تم میرے اور میرے گھر کے درمیان حائل ہوئے تو میں موت کی آغوش میں پناہ لوں گا۔ یہ کہہ کر دربار سے نکل گیا۔ (فخری)

اللہ کا ہر فعل رحمت

کہتے ہیں ایک دفعہ نوشیروان (579ء) نے اپنے وزیر بزرجمہر (590ء) کو جیل میں ڈال دیا اور کئی ماہ تک خبر نہ لی۔ ایک دن چند دوست اس سے جیل میں ملنے گئے تو اسے بالکل مسرور و مطمئن پایا۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا:
’’مجھے یقین ہے کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، اس کی مرضی کبھی نہیں ٹل سکتی اور اس کا ہر فعل رحمت ہوتا ہے، اور یہ بھی یقین ہے کہ غم یا خوشی ہر دو ناپائیدار ہیں، اگر خوشی باقی نہیں رہی تو غم کا دور بھی لازماً گزر جائے گا۔‘‘
مرتب: علی حمزہ
۔25 اکتوبر کو ممتاز شاعر، صحافی، مقرر اور بانی مدیر ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ جناب عبدالکریم المعروف آغا شورش کاشمیری کی 42 ویں برسی ہے۔ مجلسِ احرارِ اسلام کے یہ رہنما اور شعلہ بیان مقرر 14 اگست 1917ء کو لاہور میں پیدا ہوئے اور وہیں 1975ء میں ان کا انتقال ہوا۔ شورش صاحب کا کلام نذر قارئین ہے:

ذرا صبر

اک نئے دور کی ترتیب کے ساماں ہوں گے
دستِ جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے
برق خود اپنی تجلی کی محافظ ہوگی!
پھول خود اپنی لطافت کے گریباں ہوں گے
نغمہ و شعر کا سیلاب امڈ آئے گا
وقت کے سحر سے غنچے بھی غزل خواں ہوں گے
ناؤ منجدھار سے بے خوف و خطر کھیلے گی
ناخدا بربط طوفاں پہ رجز خواں ہوں گے
راہ رو اپنی مسافت کا صلہ مانگیں گے
رہنما اپنی سیاست پہ پشیماں ہوں گے
راست گفتار کہ ہیں ناقد اولادِ فرنگ
وقت کہتا ہے کہ پھر داخلِ زنداں ہوں گے
’’تُو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے‘‘