پاکستان کے 70 اور جماعت اسلامی کے 77 سال… ایک تقابلی جائزہ

محمود عالم صدیقی
آٹھواں حصہ
سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن
حکومت نے نومبر کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سیاسی جماعتوں پر لازمی قرار دیا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس اپنے آپ کو رجسٹر کرائیں اور اپنے حسابات بھی پیش کریں۔ چنانچہ جماعت اسلامی نے مرکزی مجلس شوریٰ کے غیر معمولی اجلاس منعقدہ 14 اور 15 ستمبر 1979ء کو طے کیا کہ جماعت کے حساب کے گوشوارے داخل کردیئے جائیں اور رجسٹریشن کرالی جائے تاکہ حکومت کو انتخابات کو پھر ٹالنے کا بہانہ نہ مل سکے۔ اس فیصلے کے مطابق حسابات پیش کردیئے گئے اور رجسٹریشن بھی کرا لی گئی۔ 7 اکتوبر کو صدر نے رجسٹریشن کی پابندی واپس لے لی لیکن انتخابات ملتوی کردیئے۔
انتخابات کا پھر التوا اور سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی
16اکتوبر 1979ء کو صدر ضیاء الحق نے 17 نومبر کے اعلان کردہ عام انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے پھر ملتوی کردیا اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر فوری طور پر پابندی عائد کردی گئی، ان کے دفاتر کو سربمہر کردیا گیا اور سیاسی سرگرمیاں خلافِ قانون قرار دے دی گئیں۔ چنانچہ تحریکی ساتھیوں نے مختلف ناموں سے دینی اور رفاہی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
حکومت نے اخبارات پر سنسر لگا دیا تھا۔ جماعت کے قائدین نے ان اقدامات کی کھل کر مخالفت کی۔ حکومت نے ایک دستوری ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں اور ٹریبونل قائم کیے اور ان کے فیصلوں کے خلاف بھی صرف سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کا محدود اختیار دیا گیا۔
اکتوبر 1979ء میں ہی ان عدالتوں کا قیام عمل میں آگیا اور سرسری سماعت کے بعد انہوں نے مقدمات کے فیصلے سنانا شروع کردیئے۔ ان عدالتوں نے مختلف شہروں میں ملزموں کو کوڑوں کی سزا سنائی اور حکم دیا کہ یہ کوڑے سرِعام لگائے جائیں۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں وسیع میدانوں میں ہزارہا افراد کے سامنے سزا یافتہ لوگوں کو کوڑے لگائے گئے۔ یاد رہے کہ یہ سزائیں اسلامی عدالتوں کے ذریعے نہیں بلکہ فوجی عدالتوں کے ذریعے دی جارہی تھیں اور اس کا مقصد جرائم کی بیخ کنی سے زیادہ پورے ملک میں مارشل لا کی دھاک بٹھانا تھا۔ 7 مئی کی طرح سزائیں پانے والے راشن ڈپو ہولڈر یا معمولی لوگ تھے۔ بڑی مچھلی کی خبر کیا، کوئی درمیانی مچھلی بھی ان عدالتوں کی گرفت میں نہ آسکی۔
پیٹرول کی بچت اور سائیکل
دسمبر میں دوسری مرتبہ پیٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے دیگر اشیائے صرف خودبخود مہنگی ہوگئیں۔ صدر صاحب نے اعلان کیا کہ پیٹرول کی بچت کے لیے اب وہ راولپنڈی میں سائیکل استعمال کریں گے۔ چنانچہ انتظامات کے بعد 17 نومبر 1979ء کو صدر صاحب تمام مخفی حفاظتی انتظامات کے ساتھ اپنے گھر سے دفتر تک سائیکل پر سوار ہوکر گئے۔ پورے ملک میں دھوم مچ گئی کہ اس سے پہلے پاکستان کا کوئی سربراہ سائیکل پر سوار ہوکر باہر نہ نکلا تھا۔ 20 نومبر کو انہوں نے چار گھنٹے تک سائیکل پر اور کبھی کھلی جیپ میں سوار ہوکر راولپنڈی شہر اور چھائونی کا دورہ کیا۔ اس سے ان کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ لیکن ان کے اسلامی نظام کے نفاذ کے دوسرے اقدامات کی طرح یہ اقدام بھی محض نمائشی ثابت ہوا اور اسلامی نظام اور سادگی کے اقدامات کے عملی نفاذ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، اور عوام کو نئی صدی ہجری کے آغاز پر بھی انہوں نے یہ نوید سنائی کہ اسلامی معاشرے میں کوئی ننگا اور بھوکا نہیں رہے گا۔
منصورہ میں دائمی تربیت گاہ کا قیام
منصورہ جو جماعت اسلامی کا نیا مرکز تھا وہاں ایک دائمی تربیت گاہ کے قیام کا فیصلہ ہوگیا تھا جس میں ہر ضلع سے کم از کم ایک فرد کو شریک ہونے اور دس روزہ تربیت دی جائے۔ اس کے نصاب کو مرتب کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ انتظامات کی تکمیل کے بعد یکم فروری 1980ء سے تربیت کا پہلا پروگرام شروع ہوگیا، بعد میں یہ پروگرام ایک ہفتے کا کردیا گیا۔
یہ طے پایا کہ ہر ماہ کی 6 سے 12 اور 20 سے 26 تک یہ تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں۔ یہ سلسلہ بہت مفید ثابت ہوا اور سیکڑوں پروگرام کامیابی سے سرانجام پائے۔ مولانا محمد سلطان صاحب اس تربیت گاہ کے ناظم مقرر کیے گئے۔ کئی ہزار کارکنوں نے جو صوبہ پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے، اس تربیت گاہ سے استفادہ کیا۔ اس کی صوبہ وار تفصیل کے مطابق صوبہ پنجاب میں 1411 کارکن، صوبہ سرحد میں 593 کارکن، صوبہ سندھ میں 375 کارکن، صوبہ بلوچستان میں 178 کارکن اور متفرق اور آزاد کشمیر میں 243 کارکن۔ کل تعداد2800 تھی جو اس تربیت گاہ سے مستفید ہوئے۔
مرکزی دارالعلوم اسلامیہ
مرکزِ تحریکِ اسلامی میں وسط نومبر میں شوریٰ کے فیصلے کے مطابق دینی علوم کے مرکز کے قیام کا فیصلہ ہوگیا تھا۔ اس کے نصاب کو مرتب کرنے کے لیے نامور علماء اور ماہر اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردی گئی۔ مولانا فتح محمد کو اس ادارے کا مہتمم مقرر کیا گیا۔ نصاب کی تیاری کے بعد اور ضروری تعمیرات اور انتظامات کی تکمیل پر پندرھویں صدی ہجری کے آغاز کے بابرکت موقع پر یکم محرم الحرام 1401ھ کو اس دارالعلوم کا آغاز کردیا گیا۔ تقریب کا افتتاح امیر جماعت میاں طفیل محمد نے کیا۔ استاذالعلماء حضرت مولانا محمد چراغ صاحب نے درسِ قرآن دے کر تدریس کے کام کا آغاز کردیا۔
اس مرکز کا مستقل تدریسی شعبہ تخصص فی العلوم الاسلامیہ ہے جس میں درس نظامی سے فارغ التحصیل طلبہ کو پہلے سال میں داخل کرکے تین سالہ تخصص کا کورس کرایا جاتا ہے اور قرآن و حدیث پر گہری اور محققانہ نظر پیدا کرنے کے علاوہ فقہ میں بھی اچھی خاصی دسترس کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔ جدید عربی سکھائی جاتی ہے اور انگریزی اور معاشیات کی بھی ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے۔ تقریر، تحریر اور تحقیق کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ مختلف اہلِ علم کے لیکچر کرائے جاتے ہیں۔ اس مرکز کا دوسرا اہم شعبہ تفسیر کا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں تین بڑے کامیاب دورہ تفسیر کے پروگرام منعقد کیے جاچکے ہیں۔ معروف عالم علومِ قرآنی حضرت مولانا گوہر رحمن، مہتمم دارالعلوم تفہیم القرآن مردان اب تک سیکڑوں حضرات کو تفسیر قرآن کے دورے مکمل کرا چکے ہیں۔ طلبہ کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام مفت ہوتا ہے اور ہر شریکِ دورہ کو قرآن پاک کا نسخہ، نوٹ بکس، پنسل اور سیاہی بھی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ شرکائے دورہ میں تحریک کے کارکنوں کے علاوہ دینی مدارس، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبہ، حفاظ، علماء، اساتذہ، پروفیسر اور وکلا بھی شامل ہوتے ہیں۔
قومی حکومت اور وفاقی کونسل
25 جنوری کو صدر ضیاء نے کہا کہ وفاقی حکومت اور عوام کے درمیان موجودہ خلاء کو پُر کرنے کے لیے انہوں نے ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل ایک وفاقی کونسل بھی قائم کی جائے گی۔ 14 فروری کو پھر کہا کہ وفاقی کونسل اسی ماہ قائم کردی جائے گی۔ 6 مارچ کو ایک کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی لیڈروں کی انتظامیہ میں شرکت زیرغور ہے، سینیٹ کو بحال کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ 23 مارچ کو کہا کہ نئی وفاقی کابینہ 23 مارچ سے قبل تشکیل پاجائے گی جس میں کچھ فوجی، کچھ سابقہ فوجی اور کچھ سویلین وزراء شامل ہوں گے۔ میری کوشش ہے کہ ملک کا نظم و نسق چلانے میں سول انتظامیہ زیادہ اور فوج کم شریک ہو۔ لیکن چند روز بعد 29 مارچ کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کی توسیع میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ اس سے قبل صوبوں میں مشاورتی کونسلیں قائم کی جائیں گی۔
افغانستان پر اسلامی وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس
27 تا 29 جنوری 1980ء کو اسلام آباد میں افغانستان کے مسئلے پر اسلامی کانفرنس تنظیم کے رکن اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ میاں طفیل محمد نے رابطہ عالم اسلامی کے وفد کے رکن کی حیثیت سے اور پروفیسر خورشید احمد نے اسلامی کونسل آف یورپ کے وفد کے رکن کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کی۔ ان دونوں اداروں کو اسلامی ملکوں کی تنظیم میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ ان دونوں حضرات کے علاوہ جماعت اسلامی کے دوسرے رہنمائوں نے اسلام آباد جاکر مختلف ممالک کے وفود سے ملاقاتیں کرکے ان پر اس مسئلے کے بارے میں تحریک اسلامی کا مؤقف واضح کیا۔
جنرل تجمل حسین سازش کیس
مارچ 1980ء میں جنرل تجمل حسین سازش کیس کا انکشاف ہوا۔ سازش کے تمام مرکزی کردار گرفتار کرلیے گئے۔ بی بی سی اور وائس آف امریکہ نے اس کی خوب تشہیر کی۔ صدر ضیاء الحق نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے ایک غیر اہم واقعہ قرار دیا اور کہا کہ اس میں محض ایک شخص ملوث تھا اور اس کی جڑیں گہری نہیں تھیں۔
جماعت اسلامی کا سیاسی مؤقف
مارچ 1980ء اور جون 1980ء میں مشاورت کے بعد جماعت اسلامی نے ایک قرارداد کے ذریعے اپنا مؤقف طے کیا کہ امیر جماعت ایک خط کے ذریعے صدرِ مملکت کو جماعت اسلامی کے مؤقف سے تفصیل سے آگاہ کریں۔ چنانچہ اس فیصلے کے مطابق امیر جماعت میاں طفیل محمد نے 24 جون 1980ء کو صدر کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا کہ ملک و ملت کی خیر خواہی کی خاطر سنسر شپ ختم کی جائے، آزادیٔ اظہارِ رائے اور اجتماع کو بحال کیا جائے، سیاسی جماعتوں پر سے پابندی اٹھائی جائے، جداگانہ طریق انتخاب کے ذریعے اور متناسب نمائندگی کے اصول پر ملتوی شدہ انتخابات جلد از جلد منعقد کیے جائیں اور دستور میں عدالتوں کو مفلوج کرنے والی ترامیم کو فوری ختم کیا جائے۔ اکتوبر 1980ء میں جماعت نے ایک بیان کے ذریعے مارشل لا پر سخت تنقید کی اور ضیاء الحق سے مطالبہ کیا کہ شہری نظام بحال کریں اور اخبارات سے پابندی ہٹائیں، اور انتخابات کرائے جائیں۔ جماعت کی شوریٰ نے اپنے اجلاس میں پارٹی کی پالیسی کا جائزہ لیا اور مارشل لا، آئین کو توڑنے تڑوانے اور سیاسی پارٹیوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کی گئی۔ نومبر1981ء میں اس مؤقف کا جزوی ترمیمات کے ساتھ اعادہ کیا گیا اور تحریک کے حلقوں میں اور پریس میں اس کی اشاعت کی گئی۔
اسلامی ملکوں کی کانفرنس
اپریل 1980ء میں اسلامی وزرائے خارجہ کا معمول کا ایک اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ 17 مئی 1980ء کو اسلام آباد میں معمول کے مطابق اسلامی ملکوں کی ایک، چھے روزہ کانفرنس شروع ہوئی۔ کانفرنس قومی اسمبلی ہال میں منعقد ہوئی اور اسلام آباد، راولپنڈی اور قومی اسمبلی کے ہال کو مزین اور سجایا گیا۔ کانفرنس میں مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس اجلاس میں صدر ضیاء الحق کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے اسلامی ملکوں کا نمائندہ منتخب کیا گیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو
مئی میں صدر ضیاء نے نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو کی اور ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمن کو اس کا چیئرمین مقرر کیا۔ 27 مئی کو کونسل کے ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ضیاء نے قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر تنزیل الرحمن اپنے علم، تجربے اور دینی حمیت کے لحاظ سے اس منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت تھے۔
کونسل نے تیز رفتاری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی شروع کردی۔ سود کی لعنت سے نجات حاصل کرنا ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ قوم کے لیے یہ خبر خوشی کا باعث تھی کہ 15 جون کو نظریاتی کونسل نے قومی معیشت سے سود کے خاتمے پر ماہرین کے پینل کی ایک رپورٹ اتفاقِ رائے سے منظور کرکے اسے حتمی منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو بھیج دیا۔ یہ رپورٹ 118 صفحات پر مشتمل تھی۔ 16 ستمبر کو کونسل نے دسمبر 1981ء تک ملکی معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے ایک ایکشن پلان کی سفارش بھی کردی۔ اپنی سفارشات میں کونسل نے موجودہ بینکوں میں سود سے پاک کائونٹروں کے قیام یا علیحدہ ماڈل بینک قائم کرنے کی مخالفت کی۔
کونسل نے بتایا کہ مروجہ قانونِ شہادت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا کام اگلے سال فروری تک مکمل ہوجائے گا۔ 10 جولائی کو کونسل نے لاٹری ڈالنے کو اسلامی احکام کے منافی قرار دیا اور کہا کہ ملک میں سماجی بھلائی کے نام پر جو لاٹریاں ڈالی جاتی ہیں وہ خلافِ اسلام ہیں۔ لیکن اس واضح رائے کے باوجود حکومت نے لاٹری ڈالنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اس کے علاوہ نظریاتی کونسل کی سفارش کے برعکس سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ موجودہ بینکوں میں بلاسودی کائونٹر کھولنے کے لیے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت
27 مئی کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے لیے پاکستان کے دستور میں ترمیم کی گئی۔ دستور کے آرٹیکل 203 میں ذیلی دفعات شامل کرکے وفاقی شرعی عدالت سے متعلق ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے فوری طور پر وفاقی شرعی عدالت قائم بھی کردی جس کے پہلے چیئرمین مسٹر جسٹس ریٹائرڈ صلاح الدین احمد مقرر کیے گئے۔
اس عدالت کو یہ دستوری اختیار دیا گیا کہ کسی پاکستانی شہری، وفاقی یا صوبائی حکومت کی درخواست پر جائزہ لینے کے بعد وہ فیصلہ صادر کرنے کی مجاز ہوگی کہ کوئی قانون ان اسلامی احکام کے مطابق ہے یا نہیں جو قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ میں منضبط ہیں۔ اگر عدالت کا فیصلہ یہ ہو کہ وہ اسلامی احکام کے خلاف ہے تو پھر صدرِ پاکستان یا صوبائی قانون کی صورت میں متعلقہ گورنر کا فرض ہوگا کہ وہ اس قانون میں ضروری ترامیم کرکے اسے اسلامی احکام کے مطابق بنائیں۔ فیصلے کے خلاف 60 دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق دیا گیا، لیکن سپریم کورٹ پر اپیل کا فیصلہ سنانے کے لیے کسی وقت کا تعین نہیں کیا گیا۔
اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات میں کٹوتی
27 مئی کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے 1973ء کے دستور کے آرٹیکل 199 میں ترمیم کردی گئی جس کے ذریعے ہائی کورٹ کو ایسے معاملات پر کوئی حکم جاری کرنے کی ممانعت کردی گئی جو فوجی عدالتوں، ٹریبونلز، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کے دائرۂ اختیار میں آتے ہوں۔ اس طرح عدالت ہائے عالیہ کو فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف کوئی حکم صادر کرنے سے روک دیا گیا۔ اعلیٰ عدالتوں کو ان معاملات میں کوئی حکم امتناعی جاری کرنے یا مارشل لا انتظامیہ سے متعلق کسی فرد کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں رہا۔ عدالتِ عظمیٰ اور عدالت ہائے عالیہ کے دائرۂ اختیار میں آنے والے بعض معاملات کی سماعت کا حق بھی فوجی عدالتوں کو تفویض کردیا گیا۔
ملک کے بنیادی دستور میں کسی حقیقی ضرورت کے بغیر اس طرح اسلامی نظام عدل کے بالکل برعکس ترمیم کرنے کی کوئی توجیہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات آخر کس بنیاد پر سلب کیے گئے! جبکہ اعلیٰ عدالتوں نے ملک کی تاریخ میں سنگین ترین مواقع پر بھی اپنے فیصلوں میں ہمیشہ ملک کے وسیع تر مفاد کو ملحوظ رکھنے کی شاندار مثالیں پیش کی ہیں۔ اگر فوجی عدالتیں اور حکام قانون، معروف دستوری عدالتی نظام سے بالاتر ہوں تو پھر کوئی مظلوم کسی زیادتی کے خلاف کس سے انصاف کا طالب ہو؟ ان اقدامات کے باوجود صدر ضیاء اپنی تقریروں میں بلا تکلف اپنے اسی دعوے کو دہراتے رہتے کہ اسلامی نظام کا نفاذ اور انصاف کا حصول ان کے اہم مقاصد ہیں۔ 15 جون کو انہوں نے بالکل واضح طور پر کہا تھا کہ ان کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ 1973ء کے دستور کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر برقرار رکھا جائے۔ لیکن ان کی یہ بلاجواز ترامیم اس کے رہے سہے اسلامی تشخص کو بھی مجروح کرنے کا سبب بن رہی تھیں۔ ایک جانب وہ یقین دلاتے کہ انہوں نے خود کو بھی عدلیہ کا پابند بنا رکھا ہے لیکن دوسری جانب وہ صرف خود ہی کو نہیں بلکہ تمام فوجی حکام کو بھی اعلیٰ عدالتوں کے دائرۂ اختیار سے مستثنیٰ قرار دے دیتے۔ اس ترمیم کے بعد صدر ضیاء کا یہ مؤقف کہ وہ عدالتی نظام کو اسلام کے مطابق بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں، بے وزن ہوگیا۔
ضیاء الحق کا دور، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بدامنی
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے رویّے میں بھی تبدیلی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ ان کے عزائم کا عملی اقدامات سے تقابل کرکے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ، عوام کی فلاح و بہبود، انصاف کا حصول اور اسلامی جمہوریت کے قیام کی باتیں دل کش نعروں کے طور پر زیب و زینت کے لیے تو کرتے ہیں لیکن انہیں اپنے عمل کی بنیاد نہیں بناتے۔ اس کے نتیجے میں زندگی کے ہر شعبے میں خرابیاں اور پیچیدگیاں پیدا ہونے لگیں۔ بیوروکریسی نے پھر خود کو مستحکم کرلیا اور عوام گوناگوں مشکلات، پریشانیوں اور اضطراب میں مبتلا رہے۔ ان کی دشواریوں کو حل کرنے کے بجائے دورانِ سال ریل کے کرایوں میں 25 سے 30 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ پیٹرول، مٹی کے تیل اور بجلی کے نرخوں میں دو مرتبہ اضافہ ہوا۔ ہوائی جہاز کے کرائے میں 25 فیصد بڑھوتی کی گئی۔ امن و امان کی بحالی کے بجائے بدامنی میں اضافہ ہوتا گیا۔ مارشل لا کو سخت بنانے کے باوجود دن دہاڑے بینک اور پیٹرول پمپ لوٹنے کی وارداتیں ہونے لگیں۔ پورا ملک اس واردات پر حیرت زدہ ہوگیا کہ 8 اکتوبر کو صبح کے وقت مسلح ڈاکو کراچی میں نیشنل بینک کی کسٹم ہائوس برانچ سے دن دہاڑے 24 لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہوگئے۔
چھوٹے صوبوں کے لوگوں میں اقتدار میں عدم شرکت کی بنا پر احساسِ محرومی اور بے اطمینانی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے دعوے سراب ثابت ہونے سے لوگ مایوس اور بددل ہورہے تھے۔ پڑوسی ملک میں روسی جارحیت کے بعد یہ اور زیادہ ضروری ہوگیا تھا کہ فوج اور قوم مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اپنے اپنے مورچے سنبھالیں۔ فوج سرحدوں کی حفاظت کرے اور عوام کی معتمد علیہ حکومت ملک کا نظام و نسق سنبھالے۔
زکوٰۃ و عشر کے نظام کا اعلان
جون 1980ء میں صدر ضیاء الحق نے پاکستان میں زکوٰۃ و عشر کے نظام کے عملی نفاذ کا اعلان کیا جو ایک مبارک اور خوش آئند اقدام تھا۔ امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے اس اقدام کو سراہا اور جلد از جلد عملی نفاذ کو تکمیل تک پہنچانے کے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
علماء اور مشائخ کنونشن
21 اور 22 اگست کو صدر ضیاء الحق نے ملک میں پہلی مرتبہ ایک عظیم الشان دو روزہ علماء کنونشن منعقد کیا۔ انہوں نے خود گیارہ گھنٹے اجلاس میں گزارے، تمام علماء کی تقاریر غور سے سنیں اور اہم نکات کے نوٹس لیتے رہے۔ اس میں انہوں نے ایک علماء بورڈ تشکیل دیا جو انہوں نے اپنی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مدد کے لیے وسیع اختیارات کے ساتھ قائم کیا۔ انہوں نے ایک علماء عدالت بھی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ کے قیام تک علماء ہی ان کی مجلس شوریٰ ہوں گے۔ 22 نومبر کو اسلام آباد میں ایک ملک گیر مشائخ کنونشن منعقد کیا گیا جس میں ملک بھر سے سو سے زیادہ مشائخ شریک ہوئے۔
جنرل اسمبلی سے خطاب
یکم اکتوبر 1980ء کو نوّے کروڑ مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے صدر ضیاء الحق نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ضیاء الحق کی تقریر سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت کی گئی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں نسلِ انسانی اور عالمِ اسلام کو درپیش سنگین مسائل کی نشاندہی کی اور مؤثر طورپر ان مسائل کے حل کے لیے اسلام کے زرّیں اصولوں کی پیروی کی تجویز پیش کی۔ ان کے اس تاریخی خطاب کو بہت سراہا گیا اور اسلامی ملکوں کے بیشتر سربراہوں نے ان کی تقریر کو پسند کیا، پاکستان میں بھی ان کی تقریر کی خاصی پذیرائی ہوئی۔
(جاری ہے)