پروفیسر زاہد سرفراز
میرا ایک دوست پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر ہے۔ اُس نے دسویں جماعت کے طلبہ کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ جو جواب سامنے آئے، وہ پیش خدمت ہیں۔ املا سے تشریح تک طلبہ نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دیکھیے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ موجود ہے۔
سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
ایک ذہین طالب علم نے لکھا: ’’اس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے، انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں ناں فقیر بن کر پیسہ کمایا جائے، لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر ’چونک‘ میں کھڑے ہوگئے، اُسی ’چونک‘ میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کررہا تھا، شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی ’باجائے‘ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا…!‘‘
اگلا شعر تھا:
رنجش ہی سہی، دل ہی دُکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی: ’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں ’مہندی‘ حسن نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجائو لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں…‘‘
تیسرا شعر تھا:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کردیا… پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ ’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتا ہے۔ اس شعر میں یہ شاعر یہی دعویٰ کررہا ہے کہ وہ دریا ہے، لہٰذا مرنے کے بعد بحراوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا، لیکن ایسا ہوگا نہیں، کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔‘‘
اگلا شعر یہ تھا:
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
ایک سقراط نے اس کو یوں لکھا: ’’اس شعر میں شاعر کوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک ’پونچا‘ ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے، شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام ’دار‘ پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہا ہے کہ بے شک اسے سوٹے مارے جائیں، وہ ہر حال میں ’دار‘ تک پہنچ کر ہی دم لے گا…!‘‘
اگلا شعر یہ تھا:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
جواب تھا: ’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی ’محارت‘ سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں، اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں کہ خدا آرام سے ہم سے پوچھ لے کہ اے میرے بندے آخر اور کتنی ’اُنچی‘ منزلیں بنانا چاہتے ہو…؟‘‘
اگلا شعر پھر بڑا مشکل تھا:
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ ’’اس شعر میں حامد میر نے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے، وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں، رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں، ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی، ہر روز شیو کرتے ہوئے انہیں ’ٹک‘ بھی لگ جاتا ہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیںکہ میرے سرہانے آہستہ بولا کرو۔‘‘
اگلا شعر پھر ایک نیا امتحان تھا:
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ایک محنت کش طالب علم نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا: ’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے، کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر کمند ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں…‘‘
آخری شعر یہ تھا:
نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہو جائے
علامہ اقبال کے اس شعر سے بھرپور انتقام لیتے ہوئے ایک لڑکی نے لکھا:
’’اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتا ہے اور لگتا ہے شاعر کے گھر میں نہ UPS ہے، نہ چارجنگ والا پنکھا، اسی لیے وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر، نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے، اس شعر میں شاعر نے ڈھکے چھپے لفظوں میں واضح کردیا ہے کہ جب تک ’کالا باغ نشیمن‘ نہیں بنے گا، بجلی کا ’ماسالا‘ حل نہیں ہوگا۔‘‘
(بشکریہ: ’’ماہنامہ پیغام آگہی‘‘فیصل آباد)