کر تین درجن سے زائد کتب تصنیف‘ تالیف اور ترجمہ کی ہیں
محمد عثمان ولد محمد چنیھ عباسی جو علمی اور ادبی حلقوں میں محمد عثمان عباسی کے نام سے معروف ہیں، ضلع نوشہروفیروز تعلقہ کنڈیارو کے ایک چھوٹے اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم گوٹھ چنیھانی میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اس پسماندہ علاقہ اور ایک عام سے گوٹھ سے تعلق رکھنے کے باوجود موصوف نے علمی اور ادبی حوالے سے جو نمایاں امور سرانجام دیے ہیں وہ ان کے باعث سچ مچ ایک چھوٹے شہر (بلکہ گاؤں) کے بڑے آدمی کہلوانے کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ محمد عثمان عباسی نے 3 فروری 1960ء کو ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ انہوں نے پرائمری کی تعلیم اپنے آبائی گاؤں چنھیانی ہی سے حاصل کی جبکہ درجہ ششم تا ہشتم کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ مڈل اسکول سیدو باغ میں داخلہ لیا، جس کے بعد درجہ نہم اور دہم کے امتحانات انہوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول کنڈیارو سے پاس کیے۔ بعد ازاں عباسی صاحب نے بی اے گورنمنٹ کالج کنڈیارو سے کرنے کے بعد ایم۔اے اسلامک کلچرکی سند شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے حاصل کی۔ پی ٹی سی مٹھیانی کالج، سی ٹی علامہ اقبال یونیورسٹی مورو سینٹر، بی ایڈ (ریگولر) پائلٹ کالج نواب شاہ اور ایم ایڈ کی اسناد انہوں نے ٹنڈوجام یونیورسٹی سینٹر کنڈیارو سے حاصل کیں۔ موصوف ہائی اسکول میں دورانِ تعلیم اپنے اساتذہ کرام الحاج محمد قابل اجن اور سکھیو خان چنا، کالج میں محمد ہارون سومرو اور مسعود احمد میمن، پی ٹی سی اور بی ایڈ میں محمد حسین نانگراج، غلام محمد سومرو، رانجھوخان زرداری اور نور محمد کھوسے کے پڑھانے کے انداز سے ازحد متاثر ہوئے، اور آج بھی ان کا ذکرِ خیر عزت و احترام اور عقیدت کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
عباسی صاحب کو دورانِ تعلیم فنِ تقریر میں بھی مہارت حاصل تھی جس کی وجہ سے انہیں اساتذہ کرام بھی پسند کرتے تھے۔ میٹرک میں انہیں ایک تقریری مقابلے میں بطور انعام کتاب دی گئی، اور اپنی زندگی کا یہ پہلا تحفہ حاصل کرنا اب بھی ان کی خوشگوار یادوں کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔ اگرچہ انہیں بعد ازاں متعدد انعامات و اعزازات اپنے علمی اور ادبی کاموں پر دیے گئے، لیکن پہلے انعام کی وہ پہلی بار ملنے والی خوشی کا تصور آج تک انہیں مسرت عطا کرتا ہے۔
محمد عثمان عباسی کو اوائل ہی سے پڑھنے اور پڑھانے سے بے حد دلچسپی تھی۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر لکھنے کا آغاز روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ کراچی میں کالم بہ عنوان ’’جھاتیون‘‘ سے بچوں کا ادب کے تحت کیا اور پھر معروف ماہنامہ ’’گل پھُول‘‘ میں بھی لکھنے لگے۔ عباسی صاحب نے اپنی عملی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز 27 جنوری 1982ء کو بطور پرائمری استاد کیا، اور اب بھی اپنے گوٹھ کے سرکاری پرائمری اسکول میں بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔
محمد عثمان عباسی نے تاحال مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر بزبان سندھی تین درجن سے بھی زائد کتب تصنیف، تالیف، مرتب اور ترجمہ کی ہیں جن میں سے چند معروف کتب کے نام یہ ہیں:
(1) مرشدن جاکارنامہ،(2) دنیا ھک آئینو، (3) صدام میدانِ جنگ میں،(4) کامل نماز، (5) سچائی (افسانوی مجموعہ)، (6) دلچسپ کہانیاں،(7) دنیا کی سو عظیم شخصیات (ترجمہ)،(8) گجھارتون،(9) سیرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم، (10) بچوں کی کہانیاں، (11) پرک،(12) سعدی جون رھاٹیون،(13) تقریر سان تقدیر ٹاھیو(ترجمہ)، (14) مسلمان خاوند،(15) غریب ہاری، (16) ذہنی تخلیق، (17) قرآنی دعائیں، (18) عالمی معلومات
غیر مطبوعہ کتب جو اشاعت پذیر ہونے کی منتظر ہیں، وہ یہ ہیں:
(1) علمائے اکابر دیوبند،(2) ابوالکلام آزاد جو خفیہ فائل (ترجمہ)، (3) ریڈیائی تقریرون (ترجمہ)، (4) تاریخ اسلام ۔ وغیرہ
متعدد حاصل کردہ انعامات اور اعزازات میں سے چند کی تفصیل کچھ یوں ہے:
(1) سندھ گریجویٹ ایسوسی ایشن المعروف ’’سگا‘‘ کی جانب سے 2002ء میں ملنے والا ’’بھٹائی ایوارڈ‘‘۔
(2) ’’مچیتا ایوارڈ‘‘ یعنی ’’اعترافِ فن ایوارڈ‘‘ جو انہیں 2007ء میں ’’نوشہرو فیروز ضلع تاریخی آئینہ میں‘‘ کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار کے موقع پر عطا کیا گیا۔
(3) 2012ء میں الابراہیم آئی ہاسپٹل کی جانب سے ’’اسکول اسکریننگ ایوارڈ ‘‘ضلع نوشہروفیروز۔
(4) کنڈیارو آل پارٹیز الائنس کی جانب سے 2011ء میں ’’بہترین استاد‘‘ کا ایوارڈ۔
(5) ’’سندھی ادبی سنگت‘‘ کنڈیارو کی طرف سے 1994ء میں ’’گوبند مالسہی شیلڈ‘‘ دی گئی۔
(6) 2015ء میں کمشنر شہید بے نظیر آباد ڈویژن (نواب شاہ ڈویژن) جمال مصطفی سید کی جانب سے ضلع نوشہرو فیروز کا ’’بیسٹ ٹیچر ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔
علاوہ ازیں بے شمار اسناد اور شیلڈ اس پر مستزاد ہیں۔
محمد عثمان عباسی 25 دسمبر 1993ء کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے اور ان کے 4 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ موصوف بظاہر قدرے سخت مزاج اور غصیلی طبیعت کے ہیں، لیکن ان کے جاننے والوں کے مطابق وہ دل کے بے حد صاف اور کھرے ہیں۔ بباطن من کے اجلے اور ہمدرد طبع۔ دوستوں کے دوست انسان واقع ہوئے ہیں۔ عباسی صاحب کے لیے مشہور ہے کہ وہ حق بات منہ پر کہنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے، اور چاہے ان کے سامنے کوئی کتنا ہی بااثر فرد ہو، وہ دل کی بات بہرطور کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ اسلام، پاکستان اور امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والے فرد ہیں اور اس حوالے سے متفکر اور دعاگو رہتے ہیں۔
nn