ملک میں اگلے عام انتخابات

ملک میں اگلے عام انتخابات کے لیے غیر اعلانیہ تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتوں نے اس کے لیے اپنی اپنی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ اگرچہ ابھی اس حکمت عملی کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا لیکن سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ذہنوں میں اس حوالے سے ایک واضح نقشہ موجود ہے جس کو سامنے رکھ کر وہ آگے بڑھ رہی ہیں، اور وقت آنے پر اس نقشے کی اپنی پارٹیوں کی سینٹرل ایگزیکٹو یا مجالسِ عاملہ جیسی فیصلہ ساز باڈی سے منظوری لے لیں گی۔ ابھی باقاعدہ منظوری اور اعلان سے سیاسی جماعتیں دو وجوہات کی بنا پر گریز کررہی ہیں۔ ایک تو سب کو پاناما کیس کے فیصلے کا انتظار ہے، اور دوسرے ابھی سیاسی جماعتیں اپنے پتّے شو نہیں کرانا چاہتیں، بلکہ پتّوں اور ترپ کی چالوں کو فی الحال خفیہ رکھنا چاہتی ہیں، اور وقت آنے پر حالات کے مطابق اپنے اپنے پتّے شو کرائیں گی اور اپنی اپنی ترپ چال چلیں گی۔ سیاسی و انتخابی صف بندی کے لیے بھی ذہن تیار اور اشارے موجود ہیں، لیکن یہ صف بندیاں حکمران جماعت کی حکمت عملی سامنے آنے کے بعد ہی واضح شکل اختیار کرپائیں گی۔
بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پاناما کیس کا ایسا فیصلہ آسکتا ہے جس میں حکومت 2017ء ہی میں انتخابات کرانے پر مجبور ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کی خواہش ہوگی کہ وہ بجٹ پیش کرکے منظور کرالے اور بجٹ میں عوام کی توقع سے زیادہ ریلیف دے کر انتخاب جیتنے کی کوشش کرے۔ تاہم اگر اس طرح کا فیصلہ نہیں آتا جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو تو پھر انتخابات 2018ء میں اپنے وقت پر ہوں گے۔ چونکہ 2018ء بھی سر پر ہے اس لیے عملاً سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اتر چکی ہیں۔ نوازشریف اور شہبازشریف کے عوامی جلسے، وفاق اور پنجاب کی جانب سے نئے منصوبوں کے اعلانات، دوسرے صوبوں کے لیے کثیر گرانٹ اور فنڈز کا اجرا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ شہبازشریف کی جانب سے اشرافیہ پر تنقید اور ماضی کی خرابیوں کی ذمہ داری اس اشرافیہ پر ڈالنا بھی عام آدمی کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور اس کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ خود وزیراعظم نوازشریف بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں مگر ذرا دھیمے انداز میں۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب اس تنقید میں بھی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنے اجتماعات میں لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ وہ اشرافیہ پر تنقید کے معاملے میں بہت جلد پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے محاورے دہرانے لگیں گے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ اور ان کا خاندان نہ صرف اشرافیہ میں شامل ہے (ایسی اشرافیہ جو اقدار میں نہ بھی ہو تو ملکی معاملات پر اثرانداز ہوتی ہے) بلکہ وہ گزشتہ تیس سال سے اقتدار میں رہنے کے بعد بااقتدار اشرافیہ میں شامل ہوچکے ہیں۔ انہیں قوم کو نیا دھوکا دینے کے بجائے اپنی اور اپنے طبقے کی زیادتیوں پر معافی مانگنے کے ساتھ اعترافِ جرم کے طور پر مستعفی بھی ہوجانا چاہیے، لیکن وہ تو اگلی مدت کے لیے وزارتِ اعلیٰ بلکہ ضرورت پڑنے پر وزارتِ عظمیٰ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اشرافیہ پر تنقید اُن کی نئی انتخابی حکمت عملی ہے جس کے ساتھ وہ انتخابی مہم پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی وہ پنجاب میں ہزاروں نئی اسامیاں پیدا کررہے ہیں۔ پنجاب کے اخبارات آج کل پنجاب حکومت کی کارکردگی ظاہر کرنے والے اشتہارات سے بھرے پڑے ہیں۔ وفاقی حکومت کے بھی اس طرح کے اشتہارات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے بیانات میں بھی تندی و تیزی کے ساتھ امید کا رنگ نمایاں ہورہا ہے۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) عملاً لنگر لنگوٹ کس کر انتخابی میدان میں اتر آئی ہے۔ دوسری جانب عمران خان تو دھرنے کے بعد سے ہی انتخابی مہم پر نظر آرہے ہیں۔ وہ جگہ جگہ ورکرز کنونشن کررہے ہیں، حکومت اور پیپلزپارٹی پر اس قدر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں کہ عرفان صدیقی جیسے نوازشریف اور مسلم لیگ (ن)کے دائمی مشیر بھی اصل اپوزیشن لیڈر انہیں ہی قرار دے رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ عمران خان سمیت ان کی پارٹی بلدیاتی انتخابات میں تین صوبوں میں واضح شکست اور اس سے قبل آزاد کشمیر میں بھی بڑی ناکامی کے بعد اپنے متوقع امیدواروں اور حلقوں پر سنجیدگی سے کام کررہی ہے اور اگلے انتخابات تک پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں عمومی طور پر، اور ان کے شہری حلقوں میں خصوصی طور پر بہتر امیداوار لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ تیسری جانب پیپلزپارٹی بھی اپنے اندر بعض تبدیلیاں لارہی ہے۔ پنجاب میں وہ زیادہ محنت کرتی نظر آرہی ہے۔ بلاول بار بار لاہور کے چکر لگارہے ہیں، جبکہ آصف زرداری آج کل لاہور آکر بیٹھے ہوئے ہیں، وہ پارٹی کے مختلف رہنماؤں سے پارٹی کو پنجاب میں متحرک کرنے، اگلے انتخابات میں اچھے امیدوار لانے، پارٹی کے ناراض کارکنوں کو منانے، پنجاب میں 2013ء کے مقابلے میں بہتر انتخابی حکمت عملی اپنانے اوربہتر نتائج لانے کے لیے صلاح مشورے کررہے ہیں۔ جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خیبرپختون خوا کی حد تک بہت متحرک ہیں۔ وہ عملاً گزشتہ انتخابات کے فوری بعد سے مسلسل رابطۂ عوام مہم پر ہیں۔ بہتر امیدواروں پر ان کی نظر ہے اور وفاقی حکومت کے تعاون سے وہ تحریک انصاف کو خیبرپختون خوا سے نکالنے کے لیے منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ وہ اس میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں یہ آئندہ آنے والے دن بتائیں گے۔ جماعت اسلامی ملک کے تقریباً تمام قومی و صوبائی حلقوں میں گروپ لیڈرز کے نام سے اپنے امیدوار پہلے ہی میدان میں اتار چکی ہے۔ اے این پی اور بلوچستان وسندھ کی علاقائی جماعتیں اپنے اوپر طاری کردہ ’’حالتِ جنگ‘‘ کے باعث بہت پہلے سے رابطۂ عوام اور انتخابی مہم پر ہیں۔
ان حالات میں عام انتخابات 2017ء میں ہوں یا 2018ء میں، اِس وقت یہ طے ہورہا ہے کہ آئندہ انتخابات کن ایشوز پر لڑے جائیں گے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ انتخابات ایشوز پر لڑے بھی جائیں گے یا ماضی کی طرح شخصیات، پیسے، اثر رسوخ، انتخابی سیاست کی مہارت اور تجربے، ذات برادری یا علاقائی، نسلی اور مذہبی تعصب او رجوڑ توڑ کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ اگرچہ ہماری سیاست سے ان عناصر کو یکسر خارج کردینا سردست ممکن نہیں ہے، لیکن لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کچھ ایشوز یقیناًانتخابی فیصلے میں انتہائی اہم کردار ادا کریں گے۔ اگرچہ ماضی کے انداز بھی اپنا کام کریں گے۔
nn