کراچی میں پہلی کلاس سے دسویں کلاس تک کے بچوں پر اسکولوں کے اساتذہ نے بہت بوجھ ڈال رکھا ہے۔ 6 تا 12 سال کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے اسکول بیگ اس قدر بھاری ہوتے ہیں کہ ان کی کمر جواب دے رہی ہوتی ہے۔ ایک تو آج کل غذائیں بچوں کو خالص نہیں ملتیں، اوپر سے اتنا وزنی بیگ اٹھا کر وہ اسکول جاتے ہیں اور پھر گھر واپس آتے ہیں۔ کہیں تو کلاس روم اوپر ہوتے ہیں اور کہیں بچے ایسے گھروں میں رہتے ہیں جو کہ دوسری اور تیسری منزل پر ہوتے ہیں۔ اور پھر واپسی میں وین والے ’’جلدی اترو۔۔۔ جلدی اترو‘‘ کی گردان کررہے ہوتے ہیں۔ بچے بے چارے اپنی پوری قوت سے گھر کے دروازے پر جب اپنا 10 کلو وزنی بیگ ماں کے حوالے کرتے ہیں تو مائیں تڑپ کر رہ جاتی ہیں۔ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ بیگ اُن سے بھی آسانی سے نہیں اٹھائے جاتے۔ خدا کے واسطے آپ مہربانی فرما کر اسکولوں کا جائزہ تو لیں۔ بچوں کے پیٹ میں مسلسل درد رہنے لگا ہے۔ پھیپھڑوں پر الگ اثر پڑ رہا ہے۔
خدارا جلد اس طرف توجہ کریں۔ میں بہت سی ماؤں کی طرف سے آپ سے گزارش کررہی ہوں۔ کیونکہ بچے آئے دن بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ آپ اسکولوں کے اساتذہ سے پوچھیں کہ وہ ہر روز بچوں سے سارا کورس کیوں منگواتے ہیں۔ سلیبس بنائیں، اور اس کے حساب سے بچوں سے کتابیں اور کاپیاں منگوائیں۔ ویسے بھی ہر کام میں جدت اور ترقی ہورہی ہے۔ اس بات کا ضرور نوٹس لیں، اور ہمارے بچوں پر رحم کریں، اللہ آپ پر رحم کرے گا۔ ان شاء اللہ
۔۔۔صالحہ راشد۔۔۔
فرائیڈے اسپیشل ۔۔۔ ایک منفرد جریدہ
فرائیڈے اسپیشل اس لحاظ سے واقعی اسپیشل ہے کہ جس کے دامن میں موجود سیاسی و سماجی موضوعات، حالاتِ حاضرہ،معیشت، شخصیات، ادب اور اردو لسان سے متعلق تحریری مواد قارئین کے اذہان کی سیرابی کا باعث بنتا ہے۔ برقی ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کے اس تیز رفتار دور نے دنیا کو گلوبل ویلیج بنادیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں موجود کسی بھی شخص، ادارے یا تحریری و تقریری مواد تک آپ کی رسائی چند دقیقوں میں ممکن ہے۔ یہ یقیناًانسان کی ایک عظیم الشان کامیابی ہے جس کے بے شمار فوائد سے ہم مستفید ہورہے ہیں، لیکن اس عظیم محاذ کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے میں بھی ’’ذوقِ مطالعہ‘‘ کا گراف بڑی حد تک گر گیا ہے، جب کہ اس ملک کے عام آدمی میں پہلے ہی ’’ذوقِ مطالعہ‘‘ کا فقدان تھا، اب رہی سہی کسر برقی ذرائع ابلاغ، موبائل فون اور انٹرنیٹ اور اس کے روزمرہ مسائل نے پوری کردی ہے۔ ملک کی آبادی کے لحاظ سے عوامی دارالمطالعہ کی شرح پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر تھی، انٹرنیٹ نے اس کی رہی سہی افادیت بھی ختم کردی۔ اب عوامی دارالمطالعہ کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ انٹرنیٹ دن بہ دن اپنی جڑیں مضبوط کرتا جارہا ہے۔ ملک کے تقریباً تمام بڑے اخبارات کے مالکان بھی برقی ذرائع ابلاغ کی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ انہیں مزید منافع بخش بنانے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ مسابقت کی اس میراتھن دوڑ میں فرائیڈے اسپیشل کی انتظامیہ اعلیٰ تحریروں سے مزین ہفت روزہ جریدہ جس استقلال اور تندہی سے شائع کررہی ہے وہ معروضی حالات میں نہ صرف قابلِ ستائش بلکہ قلمی جہاد کے مترادف ہے۔ فرائیڈے اسپیشل کی انتظامیہ سے میری گزارش ہے کہ وہ مختلف سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں جاری بے قاعدگیوں، بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ بھی شروع کرے تاکہ ملک میں کرپشن کے شتر بے مہارکو قابو کرنے کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ نیز ’’آرا قارئین‘‘ جس میں سماجی، اخلاقی اور قومی نوعیت کے مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے، کے لیے ایک کے بجائے دو صفحے مختص کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین کی آواز کو اربابِ اقتدار و اختیار تک پہنچایا جا سکے۔ علاوہ ازیں نئے یا نوآموز قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی صفحے مختص کرنے پر غور فرمایا جائے۔ آخر میں فرائیڈے اسپیشل کے مدیراعلیٰ محترم یحییٰ بن زکریا صدیقی صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اپنی تحریروں کو صرف اداریے تک محدود نہ رکھیں بلکہ حالاتِ حاضرہ اور دیگر اہم موضوعات پر بھی اپنی تحاریر سے قارئین کو مستفید فرمائیں۔
حسن افضال/ فیڈرل بی ایریا کراچی
ملک و قوم کو معاف رکھو
بھولے بھالے معصوم کمانڈو سابق صدر پرویزمشرف کا ایک چینل کو دیے گئے انٹرویو کا یہ حصہ پڑھ کر حیرانی اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا کہ ’’مجھے پتا ہوتا کہ ایم کیو ایم کا ’را‘ سے رابطہ ہے تو اس کو ٹھیک کردیتا‘‘۔
ہمارے سروں پر ایسے حکمراں بھی ہو گزرے جن کے پاس تمام وسائل، اور زمین کی تہہ سے خبریں نکال لانے والی ایجنسیاں موجود تھیں پھر بھی وہ لاعلمی کے اندھیروں بھٹک رہے تھے! اور ایسا بے خبر رہنے والا اس ملک پر حکمرانی اس نعرے پر کرتا رہا کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘۔ اس خبر نے مجھے ون یونٹ دور کی یاد تازہ کرادی جب چاروں صوبوں پر مشتمل مغربی پاکستان ہوا کرتا تھا اور اس کے گورنر ملک امیر محمد خان آف کالا باغ تھے۔ اُس دورِ حکمرانی میں ایک کمشنر کے گھر میں چوری کی واردات ہوگئی۔ چوروں نے گھر کا صفایا کردیا۔ پولیس میں کھلبلی مچ گئی کہ چوروں نے کمشنر کے گھر یہ جرأت کی کیسے؟ خبر میڈیا پر آئی تو گورنر ملک امیر محمد خان آف کالا باغ نے اس کا نوٹس یوں لیاکہ کمشنرکو ایک شوکاز نوٹس بھیج کر جواب طلبی کے ساتھ معطل کردیا۔
کمشنر نے شوکاز نوٹس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں گھر پہ موجود نہ تھا۔ گھر خالی ہونے سے چوروں کو موقع مل گیا اور وہ واردات کرگئے، اس میں میرا کیا قصور ہے ۔
کہتے ہیں کہ گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان آف کالا باغ نے اس جواب کی سمری پڑھ کر دو سطری حکم نامہ جاری کیا کہ کمشنر کو اس عہدے سے برخواست کردیا۔ جو اپنے گھر کو یہ کہہ کر نہیں سنبھال سکتا کہ میں موجود نہ تھا اس وجہ سے چوری ہوگئی، وہ ڈویژن بھر کو کیسے سنبھالے گا! ڈویژن کے حکمران کو اپنے ڈویژن سے مکمل طور پر باخبر رہنا چاہیے۔
وہ بات تو ڈویژن کی سطح کی تھی، اب تو ملک کے حکمران پرویزمشرف جیسے لاعلم ہو گزرے، جو اب کہہ رہے ہیں کہ میں صدر یا خارجہ امور کی مشاورت کرنے کا متمنی ہوں۔ بچے کھچوں کو کیا اپنی بے خبری میں مرواؤ گے؟ رہنے دو اس شوق کو، اور ملک اور قوم کو معاف رکھو۔ قوم تمہاری خدمات کے بغیر لنڈوری ہی بھلی۔
عبدالتواب شیخ