164ر(وانا جنوبی وزیرستان)

پچھلے ایک دوسال سے فاٹا کے انضمام کی بحث زوروں پر ہے۔ کوئی علیحدہ صوبے کی تجویز کو بہتر سمجھتا ہے، کوئی فاٹا کونسل بنانے کا مشورہ دیتا دکھائی دیتا ہے،کوئی خیبر پختون خوا میں انضمام کو نجات قرار دیتا ہے۔ ہر ایک اپنی ہانکتا ہے، لیکن ان سب لوگوں میں قدرِ مشترک ایک ہی مؤقف ہے۔ وہ یہ کہ انگریزوں کے کالے قانون FCR سے قبائلیوں کو چھٹکارا دلایا جائے۔ مگر کسی طرف سے FCR کی تشریح اور اس کے پس منظر کے متعلق کوئی وضاحت سننے میں نہیںآئی۔
موجودہ FCR سابقہ 1846ء تا 1880ء فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کا مخفف ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے Frontier Crimes Regulation By Robert Nichols کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ مختصراً یہ عرض کرتا چلوں کہ انگریز جہاں جہاں نئے علاقوں پر قبضہ کرتے گئے، وہاں وہاں وہ اُن لوگوں میں مروجہ رسم ورواج سے مطابقت رکھنے والے قوانین کا نفاذ کرتے رہے۔ چونکہ نیا علاقہ برٹش گورنمنٹ کی سرحد پر واقع ہوتا، اس لیے اس قسم کے قوانین کو جو نئے علاقوں میں نافذ العمل ہوتے، FCRکہتے۔ یہ قوانین اُنھوں نے پہلے پہل ڈیرہ غازی خان سے شروع کیے۔ جب وہاں اس کے نتائج اچھے برآمد ہوئے تو آہستہ آہستہ آگے نئے مفتوحہ علاقوں میں بھی یہی قوانین مختلف شکلوں میں نافذ کرتے گئے۔
FCR کا قانون ڈیرہ غازی خان کے بعد بلوچستان میں نافذالعمل رہا۔ بلوچوں کے لیے الگ اور پشتون علاقوں کے لیے الگ قوانین ایک عرصے تک رائج رہے۔1893ء تک بلوچستان کے شمال مشرقی آخری شہر ژوب میں بھی FCR نافذ رہا۔
قبائلی علاقہ جات پر قبضہ کرنے کے لیے انگریز نے برطانیہ کی آخری طاقت استعمال کی، لیکن اُسے مُنہ کی کھانا پڑی۔ جنوبی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر وانا کی حدود ژوب کے ساتھ ملتی ہیں۔ وانا کے احمد زئی قبیلے پر جب مخالف قبائل کا زور بڑھ گیا تو آپس میں مشورہ کیا گیا کہ انگریزوں کو وانا آنے کی زبردست خواہش ہے، کیوں ناں ہم اُنھیں کچھ شرائط پر وانا لے آئیں؟ اس سلسلے میں غالباً 24 مشران ژوب جاکر وہاں کے پولیٹکل ایجنٹ سنڈیمن سے ملے، اپنی چند شرائط اُن کے سامنے رکھیں، جن میں قوانین، اپنے رسم و رواج اور بیرونی دشمن کے مقابلے میں امداد سے متعلق شرائط سرفہرست تھیں۔ انگریز وانا آنے کا اتنا متمنی تھا کہ رسم و رواج کو تسلیم کرتے ہوئے بیرونی دشمن سے نمٹنا اپنے ذمے لے لیا۔ اس طرح انگریز 1893ء میں وانا پہنچ کر ایک غلامانہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اُس وقت ایک قبائلی کی انتہائی خواہش انگریزی رائفل ہوا کرتی تھی۔ ایک دن موقع پاکر ایک قبائلی جو احمد زئی قبیلے کی ذیلی شاخ کنگی خیل سے تعلق رکھتا تھا، ایک انگریز سپاہی سے رائفل چھیننے میں کامیاب ہوگیا۔ انگریز نے اپنے طریقہ کارکے تحت اُس کے گھر پر چھاپہ مارکر مجرم کو گرفتار کیا اور رائفل بھی برآمد کرلی۔ اس واقعے پر پوری احمدزئی قوم میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی۔کیونکہ یہ کارروائی اُن کی چادر اورچاردیواری کی بے حرمتی سمجھی گئی، اس پر سب قبائل نے احتجاج کیا، اور انگریز کو چادر اور چار دیواری کے تقدس کا احساس دلایا۔ انگریز نے اُن کے سامنے یہ سوال رکھا کہ پھر ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے تھا؟ اُنھوں نے جواب میں کہاکہ مجرم یا ملزم کی اطلاع ہمیں دیا کریں، ہم خود پیش کریں گے اور فیصلہ بھی ہم خود کریں گے۔ انگریز نے یہ شرط بھی منظورکرلی، کیوں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ سلسلہ چند سال چلا تو پھر ایک ایسا کیس بھی آیا کہ متعلقہ قبیلہ ملزم کو پیش نہ کرسکا۔ حکومت نے پھر جرگے کے سامنے یہ سوال رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ قوم نے فیصلہ سنایا کہ ملزم کے قبیلے کی مراعات بند کردیں اور مطلوبہ افراد اگر ہاتھ آجائیں تو انہیں بھی گرفتار کرنے سے دریغ نہ کریں، لیکن ہماری چادر اور چاردیواری کا لحاظ ہر صورت میں رکھنا ہے۔ چند سال بعد ایک ایسا کیس بھی آیا کہ قبیلے کی مراعات بند کرنے اور گرفتاریوں سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا۔ انگریز نے ان کے سامنے پھر یہ سوال رکھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جرگہ نے فیصلہ دیا کہ اب ہم اُسے ملک بدر کریں گے۔ یہ سلسلہ بھی کچھ عرصہ چلتا رہا، لیکن آخرکار ایک ایسا موقع بھی آیا کہ نہ وہ ملزم کو پیش کرسکے اور نہ ملک بدرکرسکے تو حکومت نے پھر جرگے کے سامنے مسئلے کو رکھا۔ جرگے نے متفقہ فیصلہ دیا کہ اب ہم بے بسی کا انگوٹھا لگاکر ملزم کے ساتھ نمٹنے کی اجازت دیتے ہیں، اورآپ کو ہماری بند مراعات فی الفور کھولنی ہوں گی۔ حکومت نے یہ فیصلہ قبول کیا، کیوں کہ حکومت کی طاقت کے سامنے ایک مجرم کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ جس کالے قانون کے متعلق ہم ہر وقت ظلم ظلم کی رٹ لگاتے ہیں وہ یہی ایک شق ہے جس میں ترمیم ناگزیر ہے۔ کیونکہ اب حالات کچھ ایسے ہیں کہ بہت طاقتور مجرم پیدا ہوگئے ہیں۔ وہ آخری حربے کے طور پر انگوٹھے لگوانے والوں کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور مرعوب ہوکر بے بسی کا انگوٹھا لگوانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اب ہر طرف یہ واویلا کیا جارہا ہے کہ انگریز کا نافذ کردہ قانون کالا ہے۔ اگر انگریز کسی قانون کو ہمارے اوپر نافذ کرنے کا اختیار رکھتا تو کیا آدھی دنیا پر حکومت کرنے والی قوم اتنی پاگل تھی کہ ہمارے اوپر یہ قانون لاگو کرتا؟ ہاں میں تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان بننے کے بعد وہ دیانت دار آفیسر نہیں رہے جو قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے قوانین میں مناسب ترمیم کا مشورہ دیتے تھے، اور نہ وہ ملک صاحبان رہے جن کو قوم کا غم ہوا کرتا تھا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اہلِ بصیرت آپس میں بیٹھ کر FCRکی ظالمانہ شقوں میں ترمیم کریں،کیوں کہ پاکستانی قانون میں بقول عبداللطیف آفریدی اور مولانا نور محمد وزیر شہید کے، FCR پر ایسے مضبوط دائرے کھینچے گئے ہیں کہ اس میں تبدیلیاں کرنے کا نہ اسمبلی کو اور نہ صدر یا وزیراعظم کوکوئی اختیارہے، جب تک ہم خود تبدیلی نہ کریں۔ ان دائروں کو ہٹانے کے لیے پہلے اسمبلی میں بحث کرنے کے بعد ترامیم کی جائیں، اُس کے بعد سینیٹ سے بل پاس ہوگا، پھرصدر دستخط کرکے شاید وہ دائرے FCR سے ہٹا سکیں۔
ہماری مقتدر قوتیں فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کو آسان سمجھ کر بغلیں بجاتی ہیں۔ اُنھیں اُس ہندو کا قصہ سنانا پڑے گا جو مسلمان ہوگیا تھا اور عزیز واقارب اُس سے اسلام سے منحرف ہوجانے پر اصرار کررہے تھے، اُسے سمجھا رہے تھے کہ بھائی، اسلام میں صرف نمازیں ہی نہیں ہیں رمضان کے روزے بھی فرض ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فاٹا کو ضم کرنے کے ساتھ ہی وہ قوانین اور وہ نظام بھی فاٹا میں نافذ کرنا ہوگا جو خیبر پختون خوا میں نافذالعمل ہے۔ فاٹا کی دوسری ایجنسیوں کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن جنوبی و شمالی وزیرستان کی ایجنسیوں کے متعلق مجھے خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ تھانے دار کو تو چھوڑو، پورا تھانہ راتوں رات غائب پائیں گے۔ لمبی پاک افغان سرحد جہاں پہاڑ اور جنگل ہیں، کی حفاظت کے لیے ایک لاکھ سے زائد فوج تعینات ہونے کے باوجود بھی لوگوں کے آر پار جانے کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا تو پولیس والوں کا آپ خود اندازہ کرلیں کہ وہ کس حد تک کامیاب ہوں گے۔
رہا عدالتی نظام، تو اس بارے میں بیان کرتا چلوں کہ مشہور تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی 1990ء یا 1991ء میں وانا آئے تھے، اُس وقت وہ بھی BBC سے وابستہ تھے۔ اُس دورے میں سنجیدہ افراد سے وہ ایک سوال ضرور پوچھتے تھے کہ آپ پاکستان کے مروجہ قوانین کو کیوں نہیں اپناتے؟ یہ سوال مجھ سے بھی پوچھا۔ میں نے جواب میں کہا کہ ہمارے لوگ کاروبار کے سلسلے میں بندوبستی علاقے میں آتے جاتے رہتے ہیں، وہاں کے قانون سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ہم جب جوان ہوتے تو اُس وقت کسی نہ کسی کا پولیس تھانے کے ساتھ سابقہ پڑتا رہتا۔ وہ قصہ بیان کرتے ہوئے ہم ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوجاتے۔ ہمارے پیارے ملک پاکستان کے عدالتی نظام کے ڈرامے آج کل اخبارات کی زینت بن رہے ہیں کہ 20 سال بعد ایک ملزم کی رہائی کا فیصلہ سنایا جاتا ہے، جب کہ پتا چلتا ہے کہ وہ تو دو سال ہوئے اللہ کو پیارا ہوچکا ہے۔ فاٹا میں بھی یہی جج ہوں گے، یہی ہمارے پولیس والے۔ ایسے ٹیڑھے اور آزاد فضاؤں کے پلے بڑھے لوگوں پر قابو پانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
تاریخی حیثیت
میں یہاں فاٹا کا بالعموم اورشمالی و جنوبی وزیرستان کا بالخصوص تاریخی تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ہمارے بااختیار لوگ آئندہ فیصلے محتاط انداز میں کیا کریں۔
ظہیر الدین بابر جس نے ہندوستان فتح کیا، اُس نے جب کوہاٹ تک کا علاقہ فتح کیا تو واپس ٹل ہنگو سے ہوتا ہوا بیرمل پہنچا جسے آج کل انگور اڈہ بھی کہا جاتا ہے۔ بابر نے اپنی 7 مارچ 1505ء کی خودنوشت ڈائری ’بابر نامہ‘ میں لکھا ہے کہ ’’یہاں وزیری قوم آباد ہے۔ یہ بہت بہادر اور جنگجو قبیلہ ہے، انہوں نے مجھے صرف دوسو بھیڑیں دے کر ٹرخا دیا۔‘‘ یاد رہے کہ بابرنامہ کو الفٹن نے انگریز ی میں ڈھالا ہے۔ یہ کتاب آج کل آرکائیوز اسلام آباد میں مطالعہ کے لیے موجود ہے۔ بابر کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اُن کو چھیڑنے کی مجھے کتنی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
میجر ایڈورڈز جب پہلی بار ڈپٹی کمشنر بن کر بنوں وارد ہوا تو اس کی قبائل کے سردار سوہان خان کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ اُس نے 1848ء سے 1849ء کے The Punjab Frontierمیں سوہان خان اور اُس کے وزیر قبیلے کے متعلق جو خیالات لکھے ہیں‘ اُس محسوس ہوتا ہے کہ وہ سوہان خان سے بہت متاثر ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ جب بھی مجھے سوہان خان کی حفاظت میں نکلنا ہوتا تو مجھے دنیا کی کسی طاقت سے خطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ یہ الفاظ عمران خان کے سسر اسمتھ نے میرے سامنے سابق سینیٹر فرید اللہ وزیر شہید کے سامنے بیان کیے، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نہیں سمجھتا کہ تمہارا سسٹم کیا ہے، لیکن اتنا ادراک ضرور رکھتا ہوں کہ ہر قبائلی کے کندھے پر خطرناک ترین اسلحہ ہوتے ہوئے بھی میں ان کے درمیان جو اطمینان پاتا ہوں، لندن کی پُرامن فضا میں بھی وہ اطمینان نہیں ملتا۔ اُس نے اقرار کیا کہ میں دنیا کا آٹھویں نمبرکا امیر آدمی ہوں۔ مجھے ہر وقت خوف محسوس ہوتا ہے، لیکن یہاں مجھے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا۔ آخر میں فرید اللہ صاحب سے بڑے اصرار کے ساتھ درخواست کی کہ اس سسٹم کی حفاظت کریں۔ اُس دن شکئی اور اعظم ورسک میں اسمتھ کے لیے راکٹ لانچر میزائل اور دوسرے چھوٹے اسلحہ کو چلا کر مظاہرہ کیاگیا تھا تو اس پس منظر میں بات ہورہی تھی، ایڈورڈز کی۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر74پر لکھتا ہے:
The Waziris are at once one of the most numerous and The most united of all the Tribes of Afghanistan, and to this, not less then to the strength of their country are they indebted for being wholey independent. They neither own now, nor by their own account have ever owned, any allegeince to any of the kings of kabul.
ترجمہ: وزیر ایک وقت میں افغانستان کے قبائل میں تعداد کے لحاظ سے زیادہ اور سب سے زیادہ متحد تھے اور ملک کی مرکزی قوت سے کچھ کم نہ تھے۔ یہ لوگ ہر طرح سے آزاد تھے، انہیں کبھی خریدا جاسکا اور نہ ہی انہوں نے اپنے کسی مفاد کے لیے کابل کے بادشاہوں کی مدد کی اور نہ اُن سے وفاداری نبھائی۔
اولف کیرو اپنی کتاب The Pathan میں لکھتا ہے کہ ایڈورڈز کا شمار برطانیہ سے بھیجے گئے نالائق افسروں میں ہوتا تھا لیکن دو سال سوہان خان کے ساتھ دوستی نے اتنا اثر ڈالا کہ اُس کا نام برطانیہ کے ہوشیار ترین افسروں میں ہونے لگا۔ روزنامچوں میں اس طاقتور وزیر سردار سے ایڈورڈز کی پہلی ملاقات کا حال بڑے دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔
سوان خان
’’ہمسایہ وزیر قبیلے کا سردار ملک سوان خان میری دعوت پر میرے کیمپ میں مجھ سے ملنے آیا۔ وہ ایک طاقتور سردار ہے اور اس کے ہم وطنوں کا دعویٰ ہے کہ اس نے کبھی کسی بادشاہ کو خراج نہیں دیا بلکہ دوسرے تمام قبیلوں کو لوٹ کر اُن سے مالِِ غنیمت کی شکل میں خراج وصول کرتا رہا ہے۔ سوان خان بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ اس قبیلے کے سردار کو ہونا چاہیے۔ وہ بڑا لمبا چوڑا انسان ہے اور اس کا کلہ شیر جیسا اور ہاتھ برفانی ریچھ جیسا ہے۔ وہ بھاری بوٹ پہنے ہوئے تھا جس کے چھلّوں میں چمڑے کے تسمے پڑے ہوئے تھے۔ وہ دیوتاؤں کی شان سے میرے قالین کو پامال کرتا ہوا آیا۔ ہندوستانی ملازم سکتے میں آگئے اور ڈرنے لگے کہ کہیں زمین شق نہ ہوجائے۔ وہ میلے سوتی کپڑے پہنے ہوئے تھا البتہ اس نے اپنے سینے پر گلابی لنگی ڈال رکھی تھی اور سر پر، جس میں کبھی کنگھی نہیں ہوئی تھی، ایک قیمتی سیاہ رنگ کی شال رکھ چھوڑی تھی۔ میں نے تصنع کے بغیر اس حالت میں ایسا شان دار انسان کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ تعظیم کے لیے نہیں جھکا بلکہ سیدھے طریقے سے سلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا‘‘۔
غالباً اگست 1929ء میں نادر خان نے اپنے بھائی شاہ ولی خان کو بیرمل بھیجا، اُس نے وزیر قوم کے دادا موسیٰ نیکہ کی زیارت پر 14بیل ذبح کرکے ننواتے کیا۔ ’’ہمارے ہاں جب کسی کو کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو کسی طاقتور کے باپ یا دادا کی قبر پر دنبہ، بکرا یا اگر زیادہ بڑا کام ہو تو بیل ذبح کیا جاتا ہے۔ جب شاہ ولی خان نے ننواتے کیا اور کابل کی حکومت حبیب اللہ عرف بچہ سقہ سے چھیننے میں مدد کی درخواست کی اور وزیر قوم نے جب مدد کی ہامی بھرلی تو اُس وقت دہلی سے شائع ہونے والے سب سے کثیرالاشاعت اخبار ’’دی سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ نے سرخی جمائی”Nadir Khan Won Wazir” ۔ اس کی مکمل تفصیل اُس اخبار میں درج ہے۔ تو اس طرح وانا سے اُٹھ کر یہ لشکر شمالی وزیرستان سے ہوتا ہوا کابل پہنچا اور ایک دن میں کابل فتح کرکے تخت نادر خان کے حوالے کردیا۔ بدلے میں نادر خان نے بڑی بڑی جاگیریں اور اعزازی نوکریوں کے وظائف دیئے جوکہ 1980ء تک جاری رہے۔ روسی انقلاب کی وجہ سے وہ مراعات بند ہوئیں۔
پاکستان کی آزادی کی تحریک میں یہ پیش پیش تھے۔ وزیر، محسود اور آفریدی اقوام کے چیف ملک صاحبان کا وزیرستان میں واقع سپینکئی رغزئی میں ایک مشترکہ جرگہ ہوا، جس میں متفقہ فیصلہ جناح کی حمایت میں کیا گیا، اور ایک خط کے ذریعے جناح کو فیصلہ بھیجا گیاکہ ہم قبائل آخری دم تک پاکستان کی حمایت کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ فیصلے کی تفصیل جناح پیپر مارچ1947ء میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
گاندھی اور غفار خان متحدہ ہندوستان کے لیے جب قبائل کی ہمدردیاں حاصل کرنے نکلے تو سب سے پہلے وانا میں اُن کا بہت شرمناک استقبال ہوا، جس کا ثبوت اُس وقت کے اخبارات ہیں۔
14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے فوراً بعد کشمیر کا مسئلہ پیش آیا۔ اُس وقت پاکستان بحیثیت ملک جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح اصول پسند رہنما تھے۔ اس لیے لیاقت علی خان نے چپکے سے جنرل اکبر خان کی ڈیوٹی لگائی کہ فوج سے کچھ رضاکارلے کر سول کپڑوں میں مجاہدین کا رنگ دے کر، اور اگر ہوسکے تو کشمیریوں سے بھی کچھ مجاہد شامل کرکے ڈوگرہ راجا سے کشمیر کو آزاد کروانے کی کوشش کریں۔ دوسری طرف میجر انور کو قبائل کے پاس بھیج کر اسی طرح کا کام لینے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس کی تفصیل جنرل اکبر خان کی کتاب ’’کشمیر کے جیالے‘‘ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ جنرل اکبرخان ایک جگہ لکھتے ہیں کہ 35 سال کے فوجی تجربات میں ان کا طریقہ جنگ پہلی بار دیکھا۔ وہ صاف طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ اگر میجرانور اُن لشکریوں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑتے تو آج سری نگر ہمارے قبضے میں ہوتا۔ اُس وقت کے مذکورہ اخبار کی شہ سرخی کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے کہ’’ انڈیا کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی، وزیر، محسود اور آفریدی حملہ آوروں نے کشمیر پر حملہ کردیا۔‘‘
1979ء میں جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو یہی قبائل تھے جنھوں نے پاکستان کے انچ انچ کی حفاظت کی اور پاکستان کو ایک فوجی بھی نہیں بھیجنا پڑا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نیٹو افواج کی آڑ میں افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ ساری دنیا سمجھتی تھیکہ اس عظیم طاقت کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکے گا۔ لیکن 2004ء کے اخبارات دیکھیں۔ وانا ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔کیوں کہ یہاں کے لوگ غیر ملکی پناہ گزینوں کے حق میں ڈٹ گئے۔ کتنا بڑا آپریشن ہوا، اُس وقت کے اخبارات گواہ ہیں، لیکن یہ حکومت کو ایک بھی غیر ملکی دینے پر تیار نہیں ہوئے۔ مگر 2007ء تک جب ان غیر ملکیوں میں سے کچھ نے پناہ دہندگی کی روایات سے انحراف کیا تو اللہ کے فضل سے وہ دہشت گرد جو حکومت پچھلے تین برسوں میں فاٹا سے نہ نکال سکی، وانا کے وزیریوں نے ایک مہینے میں اپنی حدود سے باہر نکال دیئے، جس کے نتیجے میں فاٹا تو چھوڑیے، پورے سوات میں کیا ہوا اور پاکستان بھر میں کیا ہورہا ہے؟ جب کہ 2007ء کے بعد وانا میں وہ مثالی امن قائم ہوا کہ وہ امن اسلام آباد والوں کو بھی نصیب نہ ہوسکا۔
دنیا میں سب سے سنجیدہ میگزین Timeمورخہ17مئی 2004ء میں Tim Mc Girk لکھتے ہیں:
” For a thousand year the wazir tribesman who rule part of pakistan’s rugged western border with Afghanistan defeated invading armies by drawing them into a labyrinth of mountains to pick off enemy troops one by one. Their weapons have evolved from arrows to rocket propelled grenades, but their deadly tactics have not. The Wazir humbled the Mughals in the 16th century and the British in the 19th and 20th centuries.
(ترجمہ) ’’ہزاروں سال کے لیے وزیر قبیلے کے لوگوں نے پاکستان کی اُس مغربی ناہموار سرحد پر حکومت کی، جو افغانستان کے ساتھ ہے۔ اُنہوں نے ہر حملہ آور فوج کو شکست دی اور انہیں پہاڑوں کی دشوار گزارگھاٹیوں میں دھکیل کر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ان کے ہتھیار تیروں سے اور راکٹ سے چلنے والے گرینائیٹ سے ماخوذ تھے لیکن اُن کے جارحانہ اور ماہرانہ جنگی اصول کسی سے ماخوذ نہ تھے۔ وزیریوں نے مغلوں کو سولہویں صدی عیسوی میں، جب کہ انگریزوں کو انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں شکست سے دوچار کیا۔‘‘
(جاری ہے)

فاٹا کے انضمام کامسئلہ
فاٹا کے انضمام پرآج کل ذرائع ابلاغ کے کچھ لوگ مبارک بادیں دے رہے ہیں اور بعض سخت تنقیدکررہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کا نزلہ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی پر گررہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ وہ ایک جائز جمہوری بات کہہ رہے ہیں کہ قبائل کے فیصلے چند اشخاص نہ کریں، بلکہ ریفرنڈم کے ذریعے کروڑوں قبائلیوں کی رائے معلوم کریں۔ اگرچہ میرا بھی اُن کے ساتھ جمہوری اختلاف ہے، لیکن پاکستان میں مروج جمہوریت کے مطابق وہ کوئی غلط بات تو نہیں کررہے ہیں۔ میری رائے مردہ جمہوریت کے بجائے زیادہ عظیم جمہوریت کے حق میں ہے۔ اولف کیرو، جو سابقہ صوبہ سرحد کا ریذیڈنٹ ٹو گورنر گزرا ہے، اپنی عظیم کتاب ’دی پٹھان‘ میں لکھتا ہے کہ اگر کسی کو عظیم جمہوریت دیکھنی ہو تو وہ وزیرستان کی اسمبلی کو دیکھے۔ وہ لکھتا ہے کہ ہماری مغربی جمہوریت میں صرف پارلیمنٹرین کو بولنے کی اجازت ہے، جب کہ ان کی اسمبلی میں امیر غریب، چھوٹے بڑے سب کو بولنے کی اجازت ہے۔ جب کسی مسئلے پر بحث کے دوران بات نہیں بنتی تو اسمبلی گروپوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اولف کیرو کو گروپ کا پتا نہیں تھا، دراصل چھوٹے چھوٹے قبیلے آپس میں مشورے کے لیے اُٹھ جاتے ہیں، جب یہ گروپس واپس آکر بڑی اسمبلی میں بیٹھتے ہیں تو بولنے والے ایک، دو یا تین رہ جاتے ہیں۔ جب وہ جواب دیتے ہیں تو اولف کیرو کے الفاظ میں وہ جواب برطانیہ کا ہوشیار ترین پارلیمنٹرین بھی نہیں دے سکتا۔
میری ذاتی رائے یہی ہے کہ اس مسئلے کو روایتی جمہوری طریقے سے قوم کے سامنے رکھا جائے۔ بڑے جرگے میں بحث کی جائے۔ جب مسئلہ زیادہ حساس ہو تو مشورے کے لیے تمام قبیلے ایک مہلت رکھ کر جرگہ برخاست کرتے ہیں۔ اور سب قبیلوں سے کہا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو حتمی فیصلے کے ساتھ جرگے میں آجائیں۔ اگر پھر بھی بات نہ بن سکے تو متفقہ طور پر چند سلجھے ہوئے دیانت دار لوگوں کی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے اور اسے حتمی فیصلے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں قوم اُس فیصلے سے اکثر انحراف نہیں کرتی۔ البتہ شاذونادر ایسا ہوتا ہے کہ کمیٹی میں سے چند افراد قوم کے مزاج سے اُلٹ فیصلہ کردیں تو قوم بحیثیتِ مجموعی اٹھ کر اُن کے فیصلے سے انکار کردیتی ہے، جس کی مثال 2004ء میں تشکیل شدہ 35 رکنی کمیٹی کے فیصلوں سے قوم کا انکار کرنا ہے۔ اس کے بعد دو دن میں بڑا جرگہ منعقد ہوا اورکمیٹی کو برخاست کردیا گیا۔
مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں کو اللہ تعالیٰ نے اتنی بھی بصیرت نہیں دی کہ وہ سیاسی سوجھ بوجھ کے تحت کوئی بہتر فیصلہ کرسکیں۔ کیا ہم سوسال سے بھی زیادہ پیچھے کے دور میں وقت گزار رہے ہیں؟ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کی مخالفت بجا ہے۔ وہ دونوں پشتون لیڈر ہیں۔ قبائلیوں کی نشاۃِ ثانیہ کا ادراک رکھتے ہیں۔ مجھے یہ خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ خدانخواستہ ایک غلط فیصلہ قبائل پر تھوپنے سے بڑی بغاوت نہ اُٹھ جائے جس کا ہماری کمزور حکومت بعد میں ازالہ نہ کرسکے گی۔ بعد میں غلطی پر افسوس کرنے سے کیا فائدہ؟ ابھی تو عارضی طور پر بے گھر افراد اپنے اپنے علاقوں میں پہنچے بھی نہیں، اور جو پہنچے ہیں اُن میں سے ہر قبائلی کے گھر کے سامنے ایک فوجی کھڑا ہے۔ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ نااہل سیاست دانوں کی وجہ سے ہماری فوج بیک وقت کئی محاذوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہیں، اُدھر انڈیا بھی آئے روز سرحد کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے، کراچی آپریشن ختم نہیں ہوا کہ پنجاب میں بھی فوج کے لیے نیا محاذ کھل گیا۔ ضرب عضب بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، اوپر سے قبائلیوں کے گھر کے سامنے بھی ایک ایک فوجی کھڑا کردیا۔ فوج کی بربادی ملک کی بربادی ہے۔ فوج کو اس قسم کے معاملات میں گھسیٹ کر حکومت اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ اس مروجہ سیاسی گند میں فوج بھی کرپشن کے زہر سے نہ بچ سکے گی۔

(یہاں تک اسکرین پروف ہے)

1997ء میں جب پہلی بار مولانا نور محمد شہید رُکنِ قومی اسمبلی بن کر اسلا م آباد آئے تو آپ نے عوام سے ہر جلسے میں FCRکو ختم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اُس کی پاسداری کے سلسلے میں کوششیں شروع کردیں۔لطیف آفریدی ایم این اے نے جو اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں اُن کا بھر پور ساتھ دیا۔ پہلے مشاورتی اجلاس میں ایک سوال نے سنجیدہ طبقے کو پریشان کر دیا کہ فرض کریں ہم FCRکو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ کون سا متبادل قانون ہوجس کے سایہ میں ہم بہتر وقت گزار سکیں ؟پہلے آپشن کے طور پر بندو بستی علاقوں میں نافذ قانون کو قبائلی پٹی میں نافذ کرنا اس لیے ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ یہ قانون قبائلی طرز معاشرت سے یکسر متصادم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی قوانین سمیت ہر قانون میں اس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ اگر وہ قانون وہاں کی معاشرتی اقدار و روایات کے ساتھ کسی حد تک ہم آہنگ ہو تو باقی رہتا ہے۔ رہے شرعی قوانین تواس بارے میں عرض ہے کہ اگر مجموعی طور پر پوری پشتون بیلٹ اور خصوصی طورپر قبائلی طرز زندگی کے بنیادی اصولوں پر گہری نظر ڈالی جائے تو اب یہ حقیت سامنے آتی ہے کہ قبائل کی دین داری اور اسلام کے نام پر مرمٹنے کی ان کی شہرت کا حقیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک سراب ہے حقیقت نہیں۔ پشتون دودھ پینے والے مجنوں ہیں حقیقی عاشق نہیں۔ اگر کسی علاقے کے لوگ قرآن کی ایک بڑی سورۃ یعنی سورۃ النساء کے عملاََ انکاری ہوں، بہن بیٹی کے مہر کو مال غنیمت سمجھتے ہوں، میراث کے نام پر عورت کو ایک پائی دینے کو تیار نہ ہوں، بیوہ بھابھی کو دیور اپنی ملکیت سمجھتا ہو،مطلقہ بیوی پر مخصوص علاقوں یا قومیتوں میں دوسری شادی نہ کرنے کی پابندی لگائی جاتی ہو، اوراس فیصلے کو علاقے کے معززین اورا صحاب علم کی ظاہری یا در پردہ آشیرباد بعد حاصل ہو، تو وہاں شرعی قانون نافذ کرنے کے لیے زیادابن ابی جیسے گورنر اور منتظم کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
اس سنجیدہ مسئلے کو انہی الفاظ میں مولانا نور محمدشہید نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے چالیس پچاس آفسروں کے سامنے ایک اجلاس میں رکھا۔ جس میں 17گریڈ سے لیکر21گریڈ تک افسران موجود تھے۔اِن میں ایاز وزیر موجودہ اینکرپرسن خمار خان محسود جو وزیر اعظم نوازشریف کے سیکرٹری رہے چکے ہیں اورسنگی مرجان جو اُس وقت کمشنر پشاور تھے،شامل تھے۔ان افسروں نے مولانا صاحب سے بیک آواز کہہ دیا کہ فی الحال اس مسئلے کو نہ چھیڑیں جب تک اس کا متبادل نہ تلاش کرلیاجائے۔
1980ء سے لے کر آج تک قبائلی پٹی پر بہت سے مشکل حالات آئے، جن کی وجہ سے قبائلی نظم و نسق کا ڈھانچا اور ایف سی آر قانون کی دفعات بری طرح متاثر ہوئیں۔ پرانا جرگہ سسٹم فعال نہ رہ سکا اور پولیٹیکل انتظامیہ بھی ہنگامی حالات کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی۔ اُن کے اختیار ات بھی ہنگامی حالات کی نذر ہوگئے۔آج حالت یہ ہے کہ وزیرستان میں نہ تو ایف سی آر مؤثر طور پر روبعمل ہے اور نہ ہی کسی دوسرے موزوں متبادل قانون کے آثار نظر آرہے ہیں۔ وزیر ستان کے ہر سنجیدہ اور باشعور انسان کو اس خلاء کا بخوبی ادراک ہے۔اور ہرشخص اس خلاء کو پر کرنے کے بارے میں متفکر بھی ہے۔راقم الحروف بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہے۔پچھلی دو دہائیوں سے مجھے یہ خیال پریشان کیے جارہا ہے کہ آخر اس علاقے کا مستقبل کیا ہوگا؟ اوروہ کون سا قانون ہوسکتا ہے جس کے تحت ہر لحاظ سے پسماندہ اور ظلم و ستم کے مارے ہوئے لوگوں، یعنی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم طبقہ کی زندگی کو کیسے آرام دہ منظم اور پُر سکون بنایا جاسکے گا؟
تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جہاں ظلم عام ہو وہاں اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے۔اگرچہ انسان اس کو دنیاوی اسباب میں سے کسی سبب کا نتیجہ قرار دیتاہے۔جہاں قانون اور انصاف کا بول بالا رہا، وہاں کے لوگوں کو چین نصیب ہوا۔ معاشرہ دن دُگنی رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔آج اس قبائلی پٹی میں ظلم کا بازار گرم ہے۔کمزوروں کا حق مارا جارہا ہے۔طاقتور دن بہ دن ظلم و جبر کے رسیا بنتے جارہے ہیں۔ پھر بھی لوگ یہی اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ علاقہ میں مزید قہر خداوندی کسی نہ کسی شکل میں ظہور پذیر نہیں ہوگا۔ ایں خیالاست و محال است و جنوں!
قابل عمل منصوبہ:گرینڈ جرگہ
سوسالہ قا نون ایف سی آر میں تبدیلی کا نہ اسمبلی کو اختیار ہے، نہ صدر کو، نہ وزیر اعظم کو اور نہ ہی سپریم کورٹ کو۔اگر تبدیلی کا اختیار ہے تو صرف گرینڈ جرگہ کو ہے۔اس لیے اس قانون میں ترمیم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایجنسی او رتحصیل میں اہل بصیرت، امانت دار اور راست گو افراد کی فہرست بنائی جائے یا اس مقالے کے آغاز میں جو طریقہ لکھا ہے،اس کے تحت ان لوگوں کی لسٹ بنا کر گرینڈ جرگہ سے ان کی تائید حاصل کی جائے۔ ان کو مکمل اختیار دیا جائے کہ آئندہ کے لیے یہ افراد جو ترمیم ایف سی آر میں اور رسم و رواج میں مناسب سمجھیں کرلیں، ہمیں منظور ہوگا۔ اس جرگہ میں مَلک صاحبان،علما ء حضرات وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے وکلاء اور قومی عمائدین سر جوڑ کر بیٹھیں، مستقبل کا لائحہ عمل بنائیں اور ایف سی آر اور قبائل کے رسم و رواج کی وہ شقیں جو اسلامی تعلیمات سے یکسر متصادم ہیں ان میں ترامیم کریں۔
اختیارات:
یہ کونسل قانون سازی میں خود مختار ہوگی۔البتہ کسی اہم ضرورت یا مشکل حالات میں کونسل پولیٹکل انتظامیہ قبائلی مالکان،جرگہ اور قوم کے سرکردہ عمائدین کو بھی شریک کار کرنے کی مجاز ہوگی۔ایجنسی کے تمام امور میں یہ کونسل حکومت کو صائب مشورے دے سکے گی۔جہاں کسی محکمہ کی کارکردگی میں خرابی نظر آئے، یہ کونسل مجاز ہوگی کہ حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائے۔
عدلیہ:
قبائلی علاقوں میں باقاعدہ عدالتیں موجود نہیں ہیں۔ہر تنازع کے لیے عارضی طور پر جرگہ قائم کرکے فیصلہ سنا دیاجاتا ہے۔یا قاضیو ں کے سامنے فریقین دعویٰ دائر کرتے ہیں۔لیکن بدلتے حالات میں اب وقت کا تقاضا ہے کہ یہاں باقاعدہ طور پر گرینڈ جرگہ کی کونسل خود قاضی عدالتیں اور رواج کی عدالتیں یعنی دو قسم کی عدالتیں قائم کریں۔
1)شرعی عدالت:
یہ عدالت تین سے پانچ دیانت دار قاضیوں پر مشتمل ہو، جن کی تقرری کونسل خود کرے۔ جو لوگ شریعت کورٹ سے فیصلہ کرانا چاہیں وہ یہاں سے کم اخراجات میں مختصر مدت کے اندر انصاف پر مبنی فیصلے حاصل کرسکیں گے۔
2)رواج عدالت :
یہ عدالت علاقے کے مشہور رواجی ثالثان پر مشتمل ہو۔چونکہ ایسے لوگ بکثر ت پائے جاتے ہیں اس لیے ان کی ایک فہرست کونسل کے پاس موجود ہونی چاہیے۔فرض کریں ٹرانسپورٹ سے متعلق تنازع آئے تو ٹرانسپورٹ میں تجربہ رکھنے والے تین یا پانچ افراد کو بلا کر فریقین کے دعویٰ کے مطابق فیصلے کرائے جائیں۔اسی طرح کاروباری اور زمینوں اور پہاڑوں کے تنازعات سمجھنے والے لوگوں کے حوالے متعلقہ تنازعات کیے جائیں۔
3)اپیل کا حق:
اگر کوئی فریق فیصلے کے خلاف اپیل کرناچاہے تو سابقہ منصفان کے علاوہ دو مزید ثالثان شامل کرکے مقدمہ کی ازسر نوسماعت کی جائے۔فریقین میں سے ہر ایک کو صرف ایک مرتبہ اپیل کا حق ملنا چاہیئے۔
4)کونسل کے انتخاب کا طریقہ کار:
کونسل کے انتخاب کا ایک تو مروجہ طریقہ ہے۔جو تمام جمہوری حکومتوں میں رائج ہے۔اس طریقہ کارپر حکومت پاکستان بھی پچھلے ساٹھ سالوں سے عمل پیرا ہے۔نتیجہ ہمار ے سامنے ہے کہ عدل و انصاف کے معاملے میں ہمارا ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جارہا ہے۔اس طریقہ کار کے نتیجے میں وقتاًوقتاًدیکھنے میں آتا ہے کہ اقتدار نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔
دوسرا طریقہ اسلامی یا ہانگ کانگ کا طریقہ ہے اس طریقے میں اہل بصیرت اور دیانت دار لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے۔اوپر کو نسل کے جس طریقہ کا ذکر ہوا ہے اسی کونسل کو مستقل کیاجائے۔خدانخواستہ کوئی فوت ہوجائے یا بیمار ہوجائے یا کرپشن ثابت ہو تو کونسل کی اکثریت اسی قبیلے سے دوسرے اہل شخص کو نامزد کردے گی۔اس طریقے سے کونسل میں باکردار لوگ آتے رہیں گے۔
5)قوت نافذہ:
کسی ضابطے اور قانون کو لاگو کرنے والی قوت کو قوت نافذہ کہتے ہیں۔ یہ قوت ہر معاشرے میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتی ہے۔مثلاََ جنوبی وزیرستان میں تیس چالیس سال پہلے تک، بلکہ کبھی کبھی آج بھی، جب کسی بڑی قوم یا قبیلہ کو اپنا فیصلہ قوم پر نافذ کرنا ہو تو ایک مخصوص لشکر تشکیل دیاجاتا ہے۔ جسے مقامی زبان میں ’’چالو یشتی ‘‘ یا چالیس رکنی لشکر کہا جاتا ہے۔نام کے علاوہ اس لشکر کے افراد موقع محل کے مطابق کم یا زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔کوئی فرد اگر قومی فیصلے ماننے میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہو تو لشکر مذکورہ شخص کو جرمانہ کرتا ہے اور بعض اوقات مجرم کا مکان بھی مسمار کیاجاتا ہے۔جس کی مثال 2007 ء میں وانا سے دہشت گردوں کو نکالتے وقت دنیا بھرکے ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ وہ چالیس رکنی کمیٹی اور چار ہزار ’’چالویشتی ‘‘ یعنی قبائلی لشکر پر مشتمل تھی۔ وہ ددہشت گرد جو حکومت ضرب عضب کے ذریعے تین سال میں نہ نکال سکی وہ اس لشکر نے دو ہفتوں میں اپنے علاقے سے باہر دھکیل دیے۔
لیکن ا ب وقت بدل چکا ہے نہ وہ قومی یکجہتی رہی اور نہ لوگوں کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ قومی جرگہ میں پہلے کی طرح بھر پور شرکت کرسکیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قوم کی 90فیصد آبادی کا ملک صاحبان پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ اس لیے آج دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سے قومی جرگوں اور شرعی ثالثان کے فیصلو ں پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے اس کالازمی نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ فیصلہ گولی کے ذریعے کرنے کاسابقہ کا رجحان ذہنوں میں انگڑائی لینے لگا ہے۔ یہ مستقبل کے لیے نہایت خطرناک صورت حال ثابت ہوسکتی ہے۔
اب میرے ناقص ذہن میں یہ تجویز آرہی ہے کہ کونسل مختلف قبیلوں سے اہل، صحت مند اور دیانتدار جوانوں کا ایک لشکر چن لے، ان کو باقاعدہ پولیس ٹریننگ دی جائے اور یہ لشکر ہمہ وقت کونسل یا عدالت کے ماتحت رہے۔ اگر خدانخواستہ یہ لشکر بے بس ہوگیا تو عدالت حسب سابق پولیٹیکل انتظامیہ سے اختیار ات استعمال کرنے کی درخواست کرے گی۔ ظاہر ہے حکومت کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا۔
6) اخراجات :
کونسل کے ممبروں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات حکومت کے ذمے ہوں گے۔خواہ و ہ باقاعدہ فنانس سے دینا منظور کرے یا پولیٹکل ایجنٹ کے BF فنڈ سے چونکہ ان کی حیثیت قانون ساز اسمبلی کے ممبروں جیسی ہوگی اس لیے ان کے لیے جرگہ ہال یا اسمبلی ہال کا انتظام بھی حکومت کے ذمے ہوگا۔
آخر میں مقتدرہ حلقوں سے ایک بار پھر گزارش کرنی ہے کہ جیسے پہلے ذکر کرچکا ہوں، وانا میں قومی جرگہ نے پچھلے نو سال سے مثالی امن قائم کر رکھا ہے۔اب اگرچہ امن کمیٹی میں کچھ خرابیاں اورکمزوریاں درآئی ہیں،لیکن وہ آسانی سے قابو کی جاسکتی ہیں۔ عرض یہ کرنامقصود ہے کہ ایف سی آر 1893ء میں وانا میں لاگو کرنے کے بعد فاٹا میں نافذ ہوا۔اب وانا کو ایک ٹیسٹ یونٹ کے طور پر موقع دیاجائے تا کہ ذکر شدہ منصوبے کے تحت ایک نظام قائم کیاجائے پھر اُسی رواج کے عدالتی نظام میں بتدریج ترامیم کرکے اسے پاکستانی قومی دھارے کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے بصورت دیگر اگر ان کو اعتماد میں لیے بغیر اُن کی مرضی کے خلاف فیصلے تھوپنے کی کوشش کی تو جلد یابدیر اس کا شدید ردعمل مختلف شکلوں میں سامنے آئے گا۔ پچھلی سو سالہ تاریخ بھی اس کی گواہ ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ فاٹا کے عوام کو اُن کا جمہوری حق دے کر انھیں اپنے فیصلے خود کرنے دیں۔