مقصد ہو اگر تربیتِ لعلِ بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو!
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو!
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو!
1۔ اگر سورج سیدھے راستے سے بھٹک جائے تو اس کی روشنی بدخشاں کے لعل کی تربیت نہیں کر سکتی۔ یعنی ایسے استاد جو اسلام کی راہ سے دور ہوں، طلبہ کی صحیح تربیت کیونکر کر سکتے ہیں؟
2۔ دنیا روایات کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ درس گاہوں اور ان کے استادوں کی دوڑ دھوپ کچھ معنی نہیں رکھتی، یعنی استاذ لکیر کے فقیر ہیں۔ انہیں تحقیق و اجتہاد کی ہوا تک نہیں لگی۔ تلاشِ حق ناپید ہے۔ اس صورت میں اساتذہ طلبہ کی صحیح تربیت کیا کر سکتے ہیں؟
3۔ جو لوگ زمانے کی رہنمائی کا فرض انجام دے سکتے تھے وہ اپنے ہی زمانے کے پیرو بنے ہوئے ہیں۔ یعنی جن لوگوں میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ کتاب و سنت پر عمل کرکے دنیا بھر کے امام بنیں، وہ لکیر کے فقیر ہو کر دورِ حاضر کے اوہام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پھر ایسے لوگ کیونکر قوم کو صراط مستقیم پر لگا سکتے ہیں؟
nn
علم اور تعلیم
تعلیم علم نہیں۔ تعلیم کا تعلق ڈگری سے ہے۔ علم ڈگریوں اور یونیورسٹیوں سے بے نیاز ہے۔ جن لوگوں کی کتابیں یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہیں، وہ خود کس یونیورسٹی کے طالب علم تھے؟ تعلیم ضروری ہے نوکری کے لیے، نوکری ضروری ہے حصولِ رزق اور سماجی مرتبہ کے لیے۔ لیکن علم نوکری نہیں، علم روٹی نہیں، علم حکومت نہیں۔ علم پہچان ہے، عرفان ہے۔ ضرورت کا علم اور شے ہے، علم کی ضرورت اور شے۔
آج کی تعلیم، عیاں راچہ بیاں۔ آج ہی نتیجہ دے رہی ہے۔ طالب علموں کے حالات، تعلیم کے ناقص ہونے کا ثبوت ہیں۔ آج کا طالب علم، علم سے بیزار ہے۔ آج وہ استاد کہاں ملیں گے جو طالب علموں کو فیضِ نگاہ سے آدابِ فرزندگی سکھاتے تھے۔ آج کے طالب علم سے آج کی تعلیم نے علم کی محبت چھین لی ہے۔ ابھی وقت ہے، پانی سر سے نہیں گزرا۔ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ بدعلمی سے بے علمی ہی بہتر ہے۔
پیغمبروں کے پاس تعلیم نہیں، علم ہوتا ہے، بلکہ مکمل علم ہوتا ہے۔ زمانے کے معلم مکتب سے نہیں، رحمان سے علم حاصل کرتے ہیں۔
آج ہمیں اسی علم کی ضرورت ہے۔ وہی ہماری اساس ہے اور وہی عاقبت۔ ہمیں زندگی کا علم چاہیے اور مابعد کا علم بھی چاہیے۔ ہمیں ظاہر کے علم کی بھی ضرورت ہے اور باطن کے علم کی بھی۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ چند روزہ زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا ہے اور پھر اسے چھوڑنا بھی ہے۔ پھیلنا بھی ہے، سمٹنا بھی ہے۔ آج کے تعلیمی اداروں سے محمد بن قاسم پیدا نہیں ہوسکتے۔ یہی تعلیم کا المیہ ہے کہ تعلیم تلاشِ روزگار کے لیے ہے، تقربِ پروردگار کے لیے نہیں۔
[دل دریا سمندر/ واصف علی واصف۔ صفحہ 55]