جناب قطب الدین عزیز مرحوم پاکستان کے ایک معروف اور تجربہ کار سفارت کار اور کئی کتابوں کے مصنف و مؤلف تھے۔ وہ لکھنؤ میں 29 دسمبر 1929ء کو پیدا ہوئے۔ حیدرآباد سے بی اے (آنرز) اور ایم اے مدراس یونی ورسٹی سے پاس کیا۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے بین الاقوامی تعلقات کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد محترم کے ہمراہ 1949ء میں نیوز سروس ’’یونائیٹڈ پریس آف پاکستان‘‘ (UPP) کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کئی بین الاقوامی شخصیات کے انٹرویو کیے جن میں امریکی صدر ٹرومین، عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم چو این لائی، جاپان کے وزرائے اعظم یوشیدا اور ہاتو یاما شامل ہیں۔ روسی وزیراعظم بلگانن کا انٹرویو بذریعہ کیبل ریکارڈ کیا، جو فروری 1956ء میں بین الاقوامی سطح پر شائع ہوا۔ ساٹھ سے زیادہ ملکوں کا سفر کیا، پاکستان کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دینے کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے 1971ء میں ’’تمغۂ پاکستان‘‘ دیا۔ وہ برطانیہ اور امریکہ میں کئی سال پاکستان کے ایک اعلیٰ سفارت کار کی حیثیت سے متعین رہے۔ 1983ء میں جنرل ضیاء الحق کے دورِِ حکومت میں حکومتِ برطانیہ نے جناب قطب الدین عزیز کے توسط سے حکومتِ پاکستان سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا ایک پرانا اسٹیم انجن برطانیہ کے مانچسٹر کے ریلوے کے عجائب گھر کے لیے تحفتاً عنایت کردے کیونکہ برطانیہ میں اب یہ انجن ناپید ہیں اور وہاں عوام کو پرانے اسٹیم (بھاپ) انجنوں سے خاصی دلچسپی ہے۔ جناب قطب الدین عزیز نے حکومتِ پاکستان سے رابطہ کرکے اس سلسلے میں تمام ضروری اقدامات اور کارروائی کی۔ زیرنظر تحریر ان کی انگریزی تصنیف Pakistan and the British Media اور سفارتی معرکے سے ماخوذ ہے۔ ان کی منتخب کتابوں میں مندرجہ بالا دو کتب کے علاوہ The Prophet of Islam، Jinnah and Pakistan، Mission to Washington، Blood and Tears، Defending Islam in the West شامل ہیں۔ ان کا انتقال 5 دسمبر 2015ء کو کراچی میں ہوا۔
مانچسٹر میوزیم کے ڈائریکٹر کی آمد
1981ء کے وسط میں ایک دن مانچسٹر میوزیم آف سائنس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر آر ایل ہل (R.L. Hill) مجھ سے ملنے ہمارے سفارت خانہ لندن پہلے سے وقت لے کر آئے اور اپنی آمد کا مقصد ان الفاظ میں بتایا:
’’چونکہ اب برطانیہ میں بھاپ (اسٹیم) سے چلنے والے ریلوے انجن ناپید ہیں اور عوام کو پرانے ریلوے انجنوں میں بہت دلچسپی ہے، اس لیے مانچسٹر میوزیم نے حکومتِ پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک پرانا اسٹیم ریلوے انجن بطور عطیہ اس میوزیم کو دے دے۔ میوزیم میں اس کی مستقل نمائش ہوگی اور ہماری نئی نسل جو اب بجلی سے چلنے والے ریلوے انجنوں سے واقف ہے، یہ دیکھ سکے گی کہ ماضی میں بھاپ سے چلنے والے ریلوے انجن کیسے ہوتے تھے۔ 1911ء میں یہ اسٹیم ریلوے انجن مانچسٹر کے قریب ولکن فیکٹری میں بنا تھا، اب پاکستان کی ملکیت ہے، وہ ریٹائر کیا جارہا ہے اور بطور اسکریپ جلد فروخت کردیا جائے گا‘‘۔
انوکھی درخواست
انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا حکومت پاکستان اس ستّر سالہ ریلوے انجن کو مانچسٹر میوزیم کو تحفتاً دے سکتی ہے؟ میوزیم کے ڈائریکٹر کی درخواست میرے لیے انوکھی تھی۔ پاکستان میں اسٹیم انجنوں کا استعمال ترک ہورہا ہے کیونکہ پاکستان ریلویز کے زیادہ تر انجن ڈیزل اور کچھ بجلی سے چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہل کا ارشاد تھا کہ ’’انجن کو سمندری جہاز سے برطانیہ لایا جائے گا اور میوزیم کے حکام خود اس کو لیورپول لانے کا انتظام کریں گے اور انجن کو مانچسٹر ریلوے لائن پر چلا کر لائیں گے‘‘۔
دورانِ گفتگو ڈاکٹر ہل نے میرے سامنے اس ستّر سالہ ریلوے انجن کی تمام تفاصیل پیش کردیں۔ اس کو بحری جہاز کے ذریعے بمبئی روانہ کردیا گیا تھا، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اس ریلوے انجن نے بڑی بیش بہا خدمات انجام دیں اور ہزاروں فوجیوں کی نقل و حرکت میں دن رات مدد کی۔ اس انجن نے ہندوستان کا ہر گوشے کو دیکھا اور مسافروں سے لدی ہوئی ٹرینوں کو کھینچ کر اس نے بڑے بڑے ریکارڈ قائم کیے۔ 1947ء کی تقسیم ہند میں یہ ریلوے انجن پاکستان کو دیا گیا اور اس نے پاکستان ریلویز کے مسافروں کی رات دن خدمت جاری رکھی۔ لیکن اب پاکستان کے ریلوے سسٹم میں ڈیزل انجنوں کے استعمال کی وجہ سے اسٹیم انجن کا استعمال ترک کردیا گیا ہے۔ میوزیم کے ڈائریکٹر نے مجھے بتایا کہ اگر حکومت پاکستان یہ انجن برطانیہ کو تحفتاً دے گی تو ایک بڑی تقریب میں اسے سفیر پاکستان کے ہاتھوں سے ملکہ برطانیہ کو میوزیم کے لیے پیش کیا جائے گا اور ابلاغ عامہ میں اس کا بڑا چرچا ہوگا۔ ڈاکٹر ہل نے انکشاف کیا کہ پاکستان سے رابطے سے قبل ان کے میوزیم نے بھارت اور جنوبی افریقہ کی حکومتوں سے رابطہ کیا تھا، لیکن دونوں حکومتوں کا جواب نفی میں تھا۔
اسی زمانے میں اُس وقت کے وفاقی سیکریٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن خان لندن آئے اور میں نے اس درخواست کا تذکرہ ان سے کیا۔ میں نے کہا کہ اس تحفے سے پاکستان کو برطانیہ کے ابلاغ عامہ میں خاصی پبلسٹی ملے گی جس کی قیمت ستّر سالہ اسٹیم انجن کی اسکریپ قیمت سے بہت زیادہ ہوگی۔ ٹوری وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر پاکستان کی اچھی دوست تھیں، پاکستان کی جانب سے مانچسٹر میوزیم کو ایک پرانے ریلوے انجن کا تحفہ خیرسگالی کی نشانی ہوگی اور برطانوی عوام پر اس کا اچھا اثر ہوگا، ریلوے انجن کا تحفہ سیاسی لحاظ سے بھی پاکستان کے امیج کو فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے اس ضمن میں ایک تجویز بناکر جنرل مجیب الرحمن کے حوالے کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کو اس سے آگاہ کردیں تاکہ ضروری کارروائی شروع ہوسکے۔ ہمارے سفیر علی ارشد بھی لندن آچکے تھے اور میں نے ان کو بھی اس سلسلے میں ساری تفصیل سے آگاہ کردیا۔
صدر ضیاء الحق کی ریلوے بورڈ کو ہدایت اور منظوری
چند دنوں بعد مجھے معلوم ہوا کہ صدر پاکستان نے ریلوے بورڈ کو ہدایت کی کہ وہ اس تجویز پر غور کرے اور اس انجن کی اسکریپ کی قیمت کا اندازہ لگائے۔ ریلوے بورڈ کے حکام نے انجن کا اچھی طرح معائنہ کرایا۔ مجھے اطلاع ملی کہ اس کی اسکریپ قیمت پانچ لاکھ روپے کے قریب تھی۔ اصولی طور پر ریلوے بورڈ نے اس اسٹیم ریلوے انجن کو برطانیہ کو تحفتاً دینے کی مخالفت نہ کی اور فیصلہ حکومت پر چھوڑ دیا۔ کچھ عرصے بعد مجھے اطلاع دی گئی کہ صدرِ پاکستان نے اس تجویز کو منظور فرمالیا اور کہا کہ سفارت خانہ مزید کارروائی کرے اور مانچسٹر میوزیم سے کہے کہ وہ مذکورہ انجن کو کراچی سے لیور پول لانے کا خود انتظام کرے۔ اس دوران پاکستان کے وزیر اطلاعات راجا ظفرالحق برطانیہ کے دورے پر آئے۔ میں نے اسلام آباد سے اجازت لے لی کہ انجن کے تحفے کا اعلان راجا ظفرالحق کے ذریعے ایک پریس کانفرنس میں لندن میں کرایا جائے۔ انہوں نے اپنے دورِ وزارت میں میرے سفارتی کام میں بے حد تعاون کیا۔ وہ جب لندن آئے تو میں نے ان کو اس بارے میں مزید تفاصیل سے آگاہ کیا اور مانچسٹر میوزیم کے ڈاکٹر ہل کو لندن بلاکر ان سے ملادیا۔ وہ بھی راجا ظفرالحق کے اخلاق اور خیرسگالی کے جذبے سے بہت متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر ہل نے مانچسٹر میں میوزیم کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔ پاکستان سوسائٹی (برطانیہ) کے صدر سرفریڈرک بینٹ نے جو اُس وقت برطانوی پارلیمنٹ کے رکن تھے، ریلوے انجن کے تحفے کو برطانیہ اور پاکستان کے تعلقات میں ایک سنگِ میل قرار دیا۔
اخبارات اور ریڈیو، ٹی وی پر خبر کی اشاعت
اخبارات کے نمائندوں نے ہم سے اس انجن کی تفصیلات حاصل کیں اور دوسرے دن اس پر خاصی طویل خبر شائع ہوئی اور ٹی وی اور ریڈیو پر بھی اعلان ہوا۔ ہم نے انجن کی ایک پرانی تصویر بھی جاری کی۔ اس انجن پر لاہور میں مغل پورہ ورکشاپ میں تیزی سے مرمت اور رنگ ہورہا تھا۔ ہم کو اطلاع ملی کہ انجن بالکل صحیح حالت میں تھا اور اس کو بلوچستان میں آزمائشی طور پر ایک لمبے سفر پر چلایا گیا اور اس کی کارکردگی پرانا ہونے کے باوجود نہایت اچھی تھی۔
پاکستان نیشنل شپنگ کمپنی کے ذریعے انجن کی لیورپول آمد
ڈاکٹر ہل نے مجھے بتایا کہ ان کا میوزیم برطانوی جہازراں کمپنی پی اینڈ او سے گفت و شنید کررہا ہے کہ وہ انجن کو اپنے جہاز میں لیورپول لے آئے۔ لیکن ایک دن اطلاع ملی کہ اس جہاز راں کمپنی نے کراچی کی سروس بند کردی ہے اور بے چارے ریلوے انجن کی قسمت پر گرہن پڑ گیا۔ ڈاکٹر ہل مغموم حالت میں میرے پاس لندن آئے اور پورا دکھڑا سنایا۔ عین اُس زمانے میں پاکستان کی قومی جہازراں کمپنی PNSC کے سربراہ ریئر ایڈمرل بھومبھل لندن آئے۔ میں نے ریلوے انجن کی داستان ان کو سنائی اور ان سے پوچھا کہ کیا ان کی جہازراں کمپنی اس نیک کام میں مدد دے سکتی ہے؟ ہم نے شپنگ لائن کے اشخاص سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ بحری جہاز سے کراچی تا لیور پول سفر کے لیے جہازراں کمپنی دس ہزار پونڈ تک لیتی ہے۔ ریئر ایڈمرل بھومبھل کی شرافت اور ملک دوستی دیکھیے، کہنے لگے کہ حسابِ دوستاں درد دل اور ان کی کمپنی پاکستان کے اس تحفے کو کراچی سے برطانیہ لے آئے گی۔ صدر ضیاء نے یہ سن کر مسرت کا اظہار کیا اور خود اس انجن کو اس کے کایا کلپ کے بعد دیکھا۔ ستّر سال کی عمر میں اس پر جوانی کا اثر تھا۔ رنگ سیاہ اور چمکدار تھا، پالش نے اس کے حسن کو دوبالا کردیا تھا اور سبز رنگ میں اس پر لکھا تھا کہ یہ برطانیہ کے عوام کے لیے پاکستان کا تحفہ ہے۔ اس کو لاہور سے کراچی لایا گیا۔ اس نے پورا سفر اپنے بل بوتے پر طے کیا اور کوئلہ اور پانی کی خوراک نے اس کو نہایت تازہ دم کردیا۔ کراچی کی بندرگاہ پر بڑی بڑی کرینوں کے ذریعے اس کو PNSC کے جہاز پر چڑھادیا گیا۔ عرشہ پر میخیں لگائی گئیں تاکہ انجن سمندری تلاطم میں ہلے نہیں اور عرشے پر ثابت قدم رہے۔ تین ہفتے کے سفر کے بعد انجن لے کر جہاز لیورپول کی بندرگاہ پہنچ گیا۔ ڈاکٹر ہل بڑی بے چینی سے اس کی آمد کے منتظر تھے، کیونکہ انہوں نے بکنگھم پیلس کو اطلاع دے دی تھی کہ جہاز کے ذریعے انجن پہنچنے والا ہے اور ملکہ سے مانچسٹر میوزیم میں آمد کی تاریخ معلوم کرکے مقرر کردی جائے۔ انجن کا نمبر 3157 ہے جو اس کی پیشانی پر لگا ہوا ہے۔
برطانوی کسٹم حکام کو خفیہ اطلاع
جس شام جہاز لیورپول میں لنگرانداز ہوا ڈاکٹر ہل وہاں پہنچ گئے اور مجھے فون پر اطلاع دی اور کہا کہ آپ دوسرے دن صبح کو بذریعہ ٹرین لیور پول آجائیں اور انجن کو بندرگاہ پر اترتا دیکھ لیں۔ میں بھی بے چین تھا، مگر دوسرے دن علی الصبح ڈاکٹر ہل کا مجھے فون آیا کہ آپ ابھی نہ آئیں۔ وہ خاصے پریشان لگے اور میرے اصرار پر انہوں نے یہ خبر سنائی کہ برطانوی کسٹم انٹیلی جنس کو خفیہ اطلاع ملی ہے کہ ریلوے انجن کے کسی حصے میں ہیروئن کی ایک کھیپ چھپادی گئی ہے اور کسٹم کے حکام اور ہیروئن سونگھنے والے کتے جہاز کا دس بجے صبح سے معائنہ کریں گے اور پھر وہ فیصلہ کریں گے کہ کیا مزید کارروائی کی جائے۔ میں نے ڈاکٹر ہل سے کہا کہ برطانوی کسٹم کو پورا حق ہے کہ وہ انجن کا معائنہ کرے اور سفارت خانے کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس دوران میں نے لندن میں کسٹم انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا۔ ہمارے ان سے اچھے روابط تھے، کیونکہ ہماری حکومت ان سے اسمگلنگ روکنے کے بارے میں تعاون کررہی تھی۔
تربیت یافتہ کتوں کے ذریعے ریلوے انجن کا معائنہ
انہوں نے مجھے بتایا کہ کسی شخص نے کسٹم کو اس بارے میں خفیہ اطلاع دی تھی اور اس پر فیصلہ ہوا کہ ریلوے انجن کا معائنہ ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ کتنی دیر تک یہ عمل جاری رہے گا؟ انہوں نے کہا کہ چار تا پانچ گھنٹوں میں معائنہ مکمل ہوجائے گا۔ سونگھنے والے کتوں کو بوائلر کے اندر بھیجا جائے گا اور اگر کوئی ہیروئن کی کھیپ ہوگی تو وہ اس کو دانتوں سے پکڑ کر اوپر لے آئیں گے۔ کسٹم ایجنٹ بھی پوری تفتیش کریں گے۔ میں نے ان حکام سے کہا کہ جب تک کوئی چیز پکڑی نہ جائے اس کی خبر اخبارات کو نہ دی جائے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ میری ذہنی کیفیت انتشار اور تشویش کا شکار تھی۔ جب میں نے یہ تجویز حکومت کو اسلام آباد بھیجی تھی تو اُس وقت مجھے سان و گمان بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بے چارے انجن پر ہیروئن نوشی کا الزام لگادیا جائے گا۔ میں نے اپنے خاندان اور سفارت خانے میں کسی رفیقِ کار کو اس واقعہ کی اطلاع نہ دی۔ البتہ اللہ تعالیٰ سے بار بار دعائیں کرتا رہا کہ پاکستان اور میری عزت پر آنچ نہ آئے۔ انجن کا معائنہ چھ گھنٹے جاری رہا۔ میں نے دوپہر کا کھانا فراموش کیا اور زیرلب دعاؤں میں مصروف رہا۔ دفتری کام کاج میں نے حسبِ عادت پورے کیے، جو فون آتا اس کو لپک کر اٹھالیتا کہ شاید لیورپول سے کوئی خبر ملے۔
خفیہ خبر جھوٹی تھی، کچھ برآمد نہ ہوا
چھ بجے کے قریب ڈاکٹر ہل کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ کسٹم اسٹاف نے انجن کے چپہ چپہ کا معائنہ کیا اور وہ بے چارہ بالکل معصوم ہے۔ کسٹم کا عملہ شرمندہ تھا کہ اس معصوم جان پر ہیروئن نوشی کا شبہ کیا گیا اور اس کے گہرے اور اندرونی حصوں میں سراغ رساں کتے دوڑا دیے گئے۔ کسٹم انٹیلی جنس کے حکام نے ہمارے ساتھ یہ تعاون کیا کہ اس واقعہ کی پریس کو اطلاع نہ دی اور ہمارا انجن برطانوی ریل کی پٹری پر چل کر مانچسٹر پہنچ گیا اور ڈاکٹر ہل نے اس کو اس کے مستقل گھر یعنی اندرون میوزیم ایک بہت بڑے ہال میں بڑی شان سے کھڑا کرادیا۔
میں نے اس واقعہ کے بارے میں کسی سے تذکرہ نہ کیا۔ میں جانتا تھا کہ ضیاء حکومت کے دشمنوں نے ہم سے جل کر کسٹم حکام کو جھوٹی خبر دی جو معائنے کے بعد بالکل من گھڑت ثابت ہوئی۔
ڈاکٹر ہل کو شاہی محل کی طرف سے ملکہ کی آمد کی تاریخ دے دی گئی اور وہ مانچسٹر میوزیم میں انتظامات میں مصروف ہوگئے۔ میں نے اسلام آباد میں حکامِ متعلقہ کو صرف یہ اطلاع دی کہ انجن صحیح سلامت مانچسٹر میوزیم پہنچادیا گیا اور اس کی صورت میں نیا پن اور وقار اور پاکستانی جھلک نمایاں تھی، خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنے شہرِ ولادت کو واپس آگیا۔
ملکہ برطانیہ اور پرنس فلپ کی آمد اور انجن کی رونمائی
وہ دن آگیا جب ہمارے سفیر علی ارشد، مَیں، برطانوی حکام اور PNSC کے نمائندے مانچسٹر گئے اور میوزیم میں ہم ملکہ اور ان کے پرنس فلپ کا انتظار کرنے لگے۔ وقتِ مقررہ پر ملکہ کی آمد ہوئی، انہوں نے ریلوے انجن کو دیکھا اور خوش ہوئیں۔ پرنس فلپ بعض اوقات ناقابلِ فہم مذاق کرجاتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ہل سے سوال کیا کہ کیا انجن چلتا ہے؟ ڈاکٹر ہل نے میری طرف دیکھا اور فوراً جواب دیا کہ وہ اپنے بل بوتے پر لیورپول سے مانچسٹر آیا اور رواں دواں ہے۔ پرنس فلپ کا ارشاد تھا ’’ہاں! ہمارے آدمیوں نے اس کو بنایا تھا اس لیے اب تک چل رہا ہے‘‘۔ اس پر میں نے کہا ’’محترم شہزادہ فلپ اس امر کو فراموش نہ کیجیے کہ پاکستان نے اس کو نہایت اچھی حالت میں رکھا اور اس کو چلتی ہوئی حالت میں برطانیہ کو تحفتاً دیا ہے‘‘۔
ملکہ کی طرف سے پاکستان اور عوام کا انجن کے تحفے پر شکریہ
ملکہ نے صدر ضیاء، حکومتِ پاکستان اور پاکستانی عوام کا اس تحفے پر دلی شکریہ ادا کیا۔ اس تقریب کو برطانوی ٹیلی ویژن نے متعدد بار دکھایا اور ہمارا یہ ریلوے انجن برطانیہ کے ہر گھر میں دیکھا گیا جو ہم نے نیا کرکے فعال حالت میں برطانیہ کو تحفتاً دیا تھا۔ ولکن کمپنی نے ہزاروں ریلوے انجن بنائے مگر کسی اور کو یہ زبردست شہرت نہ ملی جو پاکستان کے تحفے کو حاصل ہوئی۔ دوسرے دن برطانیہ کے ہر اخبار میں اس انجن کے تحفے کی خبر شائع ہوئی۔ لندن ٹائمز نے تو خاصا بڑا فوٹو اس انجن کا چھاپا۔ تبصرہ کرنے والوں نے اس کو ایک بہترین تحفہ کہا اور ولکن کمپنی سے اس کا پرانا ریکارڈ لے کر انجن کا پورا شجرہ نسب اور اس کی سوانح حیات پر لمبی لمبی خبریں شائع کیں۔ جب یہ خبریں جنرل ضیاء کو ملیں تو وہ بہت خوش ہوئے، لیکن ان کو بھی یہ معلوم نہ ہوا کہ بے چارے معصوم ریلوے انجن پر دشمنوں نے ہیروئن نوشی کی جھوٹی تہمت لگادی تھی۔ 1989ء میں جب میری کتاب ’’پاکستان اینڈ دی برٹش میڈیا‘‘ شائع ہوئی تو اس میں، میں نے اس واقعہ کا انکشاف کیا۔ اس پر لندن کے ایک میگزین کا تبصرہ تھا: ’’حیرانی ہے کہ اس پاکستانی سفارت کار نے کس طرح انجن کی تلاشی کی خبر کو دبادیا تھا اور برطانوی پریس کو اس بات کی کانوں کان خبر نہ ہوئی‘‘۔ اب اس ریلوے انجن کی عمر تقریباً نوے سال ہونے کو آئی ہے۔ بڑی شان سے یہ انجن مانچسٹر میں میوزیم آف سائنس اینڈ انڈسٹری کی عالیشان عمارت کے گراؤنڈ فلور پر کھڑا ہے۔
nn