فیس بک کے استعمال سے وقت کی بربادی کا احساس کم ہورہا ہے

برطانیہ کی یونیورسٹی آف کینٹ میں نیوروسائنس کے ماہرین ڈاکٹر لزارس گونیڈس اور ڈاکٹر ڈنکر شرما نے اپنی تحقیقات اپلائیڈ سائیکالوجی میں شائع کی ہیں۔ اس مطالعے میں انہوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا ایک منفی پہلو پیش کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک کی لت ذہنی اور دماغی طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
2016ء میں پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق فیس بک کے 76 فیصد صارفین روزانہ فیس بک پر آتے ہیں اور ان میں سے 55 فیصد دن میں کئی مرتبہ فیس بک کا دورہ کرتے ہیں۔ جبکہ کینٹ یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق بتاتی ہے کہ انٹرنیٹ اور فیس بک کا بار بار استعمال وقت کے زیاں کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ اس کے لیے سائنس دانوں نے 44 بالغ افراد کو شریک کرکے انہیں مختلف تصاویر دکھائیں جن میں سے 5 فیس بک، 5 انٹرنیٹ سے، جبکہ بقیہ 10 تصاویر عام نوعیت کی تھیں۔ شرکا کو ہر تصویر ایک مخصوص وقت کے لیے دکھائی گئی۔ ہر تصویر دیکھنے کے بعد شریک فرد سے پوچھا گیا کہ اس نے تصویر کو زیادہ دیر تک دیکھا یا کم مدت میں اس تصویر کا مطالعہ کیا۔
ماہرین نے نوٹ کیا کہ اکثر افراد نے فیس بک اور انٹرنیٹ کی تصاویر کو زیادہ دیر تک دیکھا اور انہیں وقت کا احساس نہیں رہا۔ اس مطالعے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ فیس بک اور انٹرنیٹ کی تصاویر اور ان کی براؤزنگ میں ہم بہت وقت لگاتے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
پھر فیس بک پر تو ویڈیوز ہوتی ہیں، چیٹنگ میں وقت گزرتا ہے اور مختلف پوسٹس کے ہائپر لنک بھی کھولے جاتے ہیں، لیکن نفسیاتی طور پر ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔
پہلوٹھی کے بچے ذہین
ایڈنبرگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ پہلوٹھی کی اولاد اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق بڑے بچے کو والدین کی زیادہ توجہ ملتی ہے جس سے پیدائش کے بعد ابتدائی برسوں میں ان کی دماغی سرگرمیاں زیادہ بڑھ جاتی ہیں، جبکہ یہ بچے آئی کیو ٹیسٹ میں بھی دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ اسکور حاصل کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے دوران پانچ ہزار کے لگ بھگ بچوں کا جائزہ لے کر ان کے ہر دو سال بعد مختلف ٹیسٹ لیے گئے۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ بڑے بچے اپنے سے چھوٹوں کے مقابلے میں ذہنی طور پر زیادہ تیز ہوتے ہیں اور ٹیسٹ میں زیادہ نمبر لیتے ہیں۔ اگرچہ دیگر بچوں کو بھی والدین کی جانب سے بڑے بچے جیسی ہی جذباتی معاونت ملتی ہے مگر تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ والدین ان کی ذہنی سرگرمیوں کو جِلا بخشنے والی سرگرمیوں کے لیے کم وقت نکالتے ہیں۔ اس سے قبل نیویارک یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ بڑے بچے مقصد پر توجہ مرکوز کرنے والے اور اپنے والدین کو مطمئن کرنے کے زیادہ خواہش مند ہوتے ہیں اور انہیں قائدانہ کردار ادا کرنے میں بھی دلچسپی ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ اصولوں پر عمل کرنے کے بھی عادی ہوتے ہیں، جس کی وجہ والدین کی ان پر کڑی نظر بھی ہوتی ہے۔

زکام اور فلو سے بچنے کے لیے وٹامن ڈی استعمال کریں
سائنس دانوں نے کہا ہے کہ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ سے برطانیہ میں ہر سال 30 لاکھ لوگوں کو زکام اور فلو سے بچایا جا سکتا ہے۔ تاہم پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق انفیکشن کے خلاف وٹامن ڈی کے مؤثر ہونے کے اعداد و شمار فیصلہ کن نہیں ہیں، البتہ اس نے بھی سپلیمنٹ کی تجویز دی ہے۔ مدافعتی نظام وٹامن ڈی کی مدد سے بیکٹیریا اور وائرس کا خاتمہ کرتا ہے۔ وٹامن ڈی جلد کے اندر دھوپ کے باعث بنتا ہے، تاہم سردیوں کے دنوں میں ناکافی دھوپ کی وجہ سے اس کی پیداوار کم ہوسکتی ہے۔ وٹامن ڈی انفیکشن پر قابو پانے میں کتنا مؤثر ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے سائنس دانوں نے 11321 لوگوں پر کیے گئے 25 مختلف تجرباتی مطالعہ جات کا جائزہ لیا۔ کوئن میری یونیورسٹی آف لندن کی ٹیم نے نظامِ تنفس کے انفیکشنز پر تحقیق کی، جن میں معمولی زکام سے لے کر نمونیا جیسے انفیکشن شامل ہیں۔ معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ استعمال کرنے والے ہر 33 اشخاص میں سے ایک کو انفیکشن سے نجات مل سکتی ہے۔
یہ نتائج فلو کی ویکسین سے بہتر ہیں، جو ہر 40 مریضوں میں سے ایک پر کارگر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ روزانہ یا ہفتہ وار وٹامن ڈی استعمال کرنے کے اضافی فوائد بھی ہیں۔ تحقیق کار پروفیسر ایڈرین مارٹینو نے کہا: ’’برطانیہ کی کل آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے، جن میں سے 70 فیصد کو ہر سال نظامِ تنفس کا کم از کم ایک انفیکشن لاحق ہوتا ہے۔ روزانہ وٹامن ڈی کی خوراک کا مطلب ہے کہ ساڑھے 32 لاکھ لوگ سالانہ کم از کم ایک انفیکشن سے بچے رہیں گے‘‘۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے پہلے ہی عوام کو تجویز دے رکھی ہے کہ وہ سردیوں میں ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے وٹامن ڈی استعمال کریں۔
تاہم اس تحقیق پر خاصا بحث مباحثہ جاری ہے۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے پروفیسر لوئس لیوی کہتے ہیں: ’’وٹامن ڈی اور انفیکشن کے تعلق کے بارے میں شواہد کا ڈیٹا بے ربط اور ناکافی ہے کہ اسے لوگوں میں نظامِ تنفس کے انفیکشن کا خطرہ کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے‘‘۔ تاہم یونیورسٹی آف برمنگھم کے پروفیسر مارٹن ہیویسن کہتے ہیں کہ یہ دریافت ’متاثر کن‘ ہے۔ میں اس تحقیق کے مصنفین سے متفق ہوں کہ یہ تحقیق ہڈیوں کی نشو و نما کے علاوہ دوسری چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے۔