تیزگام و سست گام شفیع نقی جامعی

ڈاکٹر طاہر مسعود
طالب علمی کا زمانہ جو سرگرمیوں کے اعتبار سے نہایت گرم جوش اور مزیدار گزرا‘ اب بھی یاد آتا ہے۔ آج کل کے طلبہ کو دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ دل اور آنکھیں مستقبل کے خوابوں اور کچھ کر گزرنے کی آرزؤں سے خالی ہیں۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تو کیا ہوگی‘ کندھے سے اکثر لٹکے تھیلے یا بستے میں برش‘ صابن اور کریم وغیرہ اہتمام سے موجود ہوتے ہیں کہ حسن ظاہری کو سنوارنے کے کام آتے ہیں۔ رہا معاملہ حسن باطنی کا تو اس کے معنی بھی نہیں آتے۔ بہ قول منیر نیازی:
منیر حسن باطنی کو کوئی پوچھتا نہیں
نگاہ چشم کھو گئی لباس کی تراش میں
تو جب معاشرہ ہی حسن باطنی کو نہ پوچھے تو طلبہ میں بھلا اس کا شعور کہاں سے آئے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں طلبہ نورانی صورت ہوتے تھے اوردرویشی میں مست رہتے تھے۔نوجوانی تو ہوتی ہی پہننے اوڑھنے اور زمانے کے فیشن کو اختیار کرنے کے لیے لیکن اتنا فرق تو تھا ہی کہ تب ہم لوگوں کے ذہن میں ایک آئیڈیل ہوتا تھا‘اپنی ذات کے علاوہ معاشرے کی ناہمواریوں کو ہموار کرنے کے خواب ہوتے تھے۔ اپنی چھپی ہوئی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی ایک للک ہوتی تھی۔ تب حالات بھی سازگار تھے‘ تعلیمی اداروں میں مشاعرے ‘ مباحثے ‘ ادبی عدالتیں‘ معلومات عامہ کے مقابلے اور مقابلۂ بیت بازی کا کلچر تھا۔ یونین کے الیکشن ہوتے تھے۔ الیکشن جیتنے والے غیرنصابی سرگرمیوں کے ذمہ دار بنائے جاتے تھے جس سے ان میں انتظامی صلاحیت‘ قوت فیصلہ اور دوسری بہت سی صلاحیتیں ابھرتی اور نکھرتی ہیں۔ اب یہ سب کچھ نہیں رہا۔ پہلے جس یونیورسٹی کیمپس میں پولیس داخل ہونے کے لیے اجازت کی طلبگار ہوتی تھی اور اجازت کبھی ملتی نہ تھی‘ آج اسی یونیورسٹی گیٹ پر مسلح جوان تعینات ہوتے ہیں اور بغیر تلاشی دیے اور شناخت کرائے لڑکے تو لڑکے لڑکیاں بھی اندر داخل نہیں ہوسکتیں۔ یونیورسٹی جسے ایک کھلا ادارہ ہونا چاہیے‘ آج قید خانے یا علاقہ ممنوعہ کی تصویربن گیا ہے۔ مظلوم اور عبرت انگیز تصویر۔ وائس چانسلر اور اساتذہ گاریوں پر اور پیدل طلبا و طالبات چلچلاتی دھوپ میں طول طویل فاصلے جیسے تیسے طے کرتے ہیں۔ نہ وائس چانسلر اور انتظامیہ کے ذمہ داران ہی کو خیال اٹا ہے کہ کوئی انتظام سہولت کا بھی ہونا چاہیے اور نہ اساتذہ و طلبہ تنظیموں ہی کو گوفیق کہ مسئلے کو حل کرانے کے لیے کوئی آواز اٹھائیں۔ جیسے عوام بھیڑ بکریاں ہیں ویسے ہی عام طلبا و طالبات!
جس زمانے کے تذکرے سے بات چلی تھی اس کا محرک دراصل ایک شخصیت کی یادوں کو تازہ کرنا تھا۔ میری مراد شفیع نقی جامعی سے ہے جو ہمارے دور طالب علمی میں کرشماتی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ کراچی کی تعلیمی زندگی کے ٹھہرے ہوئے تالاب میں جنہوں نے ایک عرصے تک ہلچل مچائے رکھا۔ بہترین مقرر‘ بہترین طالب علم‘ اثر انگیز طالب علم رہ نما۔ تینوں حیثیتوں میں جو غیرمعمولی کامیابیاں انہیں ملیں اس کی وجہ سے مستقبل مین ان کا سیاسی کیریئر نہایت تابناک نظر آتا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ شفیع نقی جامعی اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن سدھارے۔ وہاںُ ندن اسکول آف اکنامکس سے ماسٹرز کی ڈگری لے کر وطن واپس آنے کے بجائے بی بی سی لندن کی ہندی سروس اور پھر اردو سروس سے وابستہ ہوگئے اور اج تک اسی سے منسلک ہیں۔ ان کے وطن واپس نہ آنے کے فیصلے کے اسباب و عوامل سے لاعلمی کی بنا پر ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کے مداحوں کو مایوسی ہوئی جن میں یہ خاکسار بھی شامل ہے کہ حسن اتفاق سے ان ہی اداروں کا طالب علم رہا جن سے شفیع نقی جامعی نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ جامعہ ملیہ ملیر او رجامعہ کراچی ان دونوں درس گاہوں میں مجھے شفیع نقی جامعی کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے قریب سے مشاہدے کا موقع ملا ہے اور میں یہ کہنے پر مجبور ہوں خہ ایا زوردار‘ خود اعتماد اور طلبہ پر اثرانداز ہونے والا طالب علم رہ نما یا مقرر پھر میرے مشاہدے میں نہ آیا۔ کسی نے مجھے بتایا تھا کہ شفیع نقی جامعی نے اسکول کی تعلیم بھی جامعہ ملیہ سے حاصل کی اور بہ قول کسے ان کے پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آنے لگے تھے۔
اساتذہ کرام کی نظر عنایت بھی تب ہی سے ان پر تھی۔ تب ایسے بے نفس اور محبتی اساتذہ بھی درس گاہوں میں ہوتے تھے جو طلبہ سے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے اور ان کی تربیت مین اپنا وقت لگاتے تھے۔ شفیع نقی اساتذہ کی رہ نمائی اور حوصلہ افزائی کے طفیل اور اپنی محنت‘ منصوبہ بندی‘ وقت کے صحیح استعمال اور اپنی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کرکے تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں طے کرتے گئے۔ مثلاً کراچی میں ہونے والے مباحثوں میں شاید ہی کوئی ایسا مباحثہ ہو جس میں انہوں نے انعامی کپ نہ جیتا ہو‘ میٹرک سے ایم اے تک کا کوئی امتحان ایسا نہیں جس میں انہوں نے اول‘ دوم یا سوم پوزیشن نہ لی ہو۔ طالب علم رہ نما کی حیثیت میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل لیکن ان کا امیج تب بھی ’’ٹیٹھ جماعتی‘‘ کا کبھی نہ رہا۔ ان کی شہرت و مقبولیت کی وجہ سے ان کی لبرل سرگرمیوں اور سیکولر طریق زندگی پر اعتراضات کے ابوجود جمعیت بھی ہمیشہ انہیں یونین کے انتخابات میں بہ طور امیدوار کھڑا کرنے پر مجبور رہی جس کا ایک نقصان تو بہرحال اٹھانا ہی پڑا کہ شفیع نقی یونین کا لایکشن جب بھی جیتے‘ ان کی جیت اس درس گاہ میں اگلے برس جمعیت کی ہار کا سبب بنی۔ جامعہ ملیہ کالج میں یہی ہوا او رجامعہ کراچی جہاں جمعیت کی شکست کا کوئی سوال اور گمان تک نہ تھا ‘ وہاں بھی خلاف توقع یہی ’’سانحہ‘‘ رونما ہوا اور ظاہر ہی ایسا شفیع نقی کی ولولہ انگیز قیادت کی ’’برکت‘‘ ہی سے ہوا۔
جب میں جامعہ ملیہ کالج میں داخل ہوا تو شفیع نقی جامعی کے نام کا طوطی بول رہا تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ تب جامعہ ملیہ کالج اپنے بانی ڈاکٹر محمود حسینس ے زیادہ شفیع نقی جامعی کی حوالے سے زیادہ پہچانا جاتا تھا شاید غلط نہ ہوگا۔ ڈاکٹر محمود حسین اس لیے شفیع کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ شفیع نقی نے کالج میگزین کے لیے ڈاکٹر صاحب کا ایک انٹرویو بھی لیا تھا جس کا تعارفی نوٹ اتنا خوبصورت اور دل نشین تھا کہ میں اسے پڑھ کر حیران رہ گیا تھا‘ یہ الگ بات کہ اس حیرت میں تب اور اضافہ ہوگیا تھا جب میں نے مولوی عبدالحق کے خاکوں کی کتاب ’’میرے چند ہم عصر‘‘ میں سرسید احمد خاں پر مولوی صاحب کا خاکہ پڑھا۔ ڈاکٹر محمود حسین اور سرسید احمد خان کے ابتدایئے میں سرمد فرق نہ تھا۔ حیرت میں اضافہ اس لیے ہوا کہ میرا خیال اب تک یہ رہاتھا کہ شفیع نقی غیرنصابی کتابوں کے مطالعے میں کچھ زیادہ رغبت نہیں رکھتے۔ مطالعہ ان کا سرسری اور سطحی ہے‘ البتہ طالب علم مقرروں میں لفظوں سے کھیلنے اور ہم قافیہ لفظوں کی جادوگری سے سامعین کو متار کرنے کی جو صلاحیت پائی جاتی ہے ‘ اس میں شفیع نقی بہ حیثیت مقرر طاق ہیں‘ علاوہ ازیں ان کی پاٹ دار آواز اور دوران تقریر لہجے کا اتار چڑھاؤ ایسا ہے کہ دوسرے مقررین ہی پیچھے نہیں رہ جاتے‘ حاضرین اور مصنفین بھی اس انداز و اسلوب خطابت سے قائل و گھائل ہوجاتے ہیں۔ تو مجھے خوشی ہوئی کہ گمان غلط نکلا اور شفیع نقی نے کالج کے زمانے ہی میں مولوی صاحب مرحوم کی خاکوں کی کتاب پڑھ رکھی تھی‘ تب تک یہ خاکسار اس کتاب کی موجودگی سے بھی لاعلم تھا۔
شفیع نقی کی شخصیت جاذب نظر تھی۔ نکلتا ہوا قد‘ مضبوط کاٹھی کا بدن‘ خوب چوڑا چکلا چہرہ‘ انکھوں پہ دبیز شیشوں کی سنہری کمانی والی عینک‘ تیز تیز قدموں سے ہاتھ میں کوئی فائل سی اٹھائے وہ جب طلبا و طالبات کے سامنے سے گزرتے تھے تو ہر نگاہ کی توجہ کا مرکز بن جاتے تھے۔ مجھے بڑا رشک آتا تھا۔ میں سوچتا تھا آدمی کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے سبب میں ان کی دوستی اور قربت کا بھی عرصے تک خواہشمند رہا۔لیکن طبیعت میں مشہور لوگوں سے ملاقات میں پہل کرنے میں ہمیشہ ایک حجاب سا محسوس ہوتا رہا ہے۔ یہ ’’عادت قبیحہ‘‘ اب بھی ہے۔ سو شفیع نقی سے بھی چاہنے کے باوجود قربت نہ ہوسکی اور میری طبیعت کا یہ تجسس کہ کوئی آدمی کامیابی اور ترقی کی سیڑھیاں طے کرتا ہے تو اس کا راز کیا ہے؟ وہ کون سے اصول ہیں جن پر عمل کرتے ہی شہرت اور ہر دلعزیزی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ میں شفیع نقی کو باہر سے تو دیکھتا ہی تھا‘ وہ تو سب ہی دیکھتے تھے‘ میں قریب جاکر ان کے اندر جھانک کر‘ ان کے جذبات و خواہشات کو ٹٹول کے‘ ان کی قوت عملی اور ان قاعدوں ضابطوں اور معمولات کو جاننے کا آرزو مند تھا جنہوں نے شفیع نقی کی شخضیت او رصلاحیت کو ہم سب کے لیے قابل رشک بنادیا تھا۔ طلبا و طالبات ہی نہیں اساتذہ کرام تک کو ان سے متاثر و مرغوب پاتا تھا۔ بدقسمتی سے اس کا موقع کبھی نہ مل سکا او رمیرے سوالات اور متجسانہ جذبات تشنہ ہی رہ گئے۔ ہاں اتنا ضرور دوسروں کی زبانی معلوم ہوگیا تھا کہ شفیع نقی خود بھی ترقی کی معراج تک پہنچنے کا عزم رکھتے ہیں اور انہیں یہ یقین تھا کہ وہ اپنے عزائم اور ارادوں میں بے شک و شبہ کامیاب رہیں گے۔ غالباً انہوں نے اسکول یونین کا صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی تقریر میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اسکول کے بعد کالج اور پھر یونیورسٹی کی صدارت کا تاج سر پر سجانے کے بعد ایک دن وہ ملک کے منصب صدارتی پر جلوہ افروز ہوں گے۔ ان کی یہ پیش گوئی اپنی کامیابیوں کی بابت یونیورسٹی کی حد تک تو حرف یہ حرف پوری ہوئی۔ اڑان بتاتی تھی کہ ابھی جو ہفت خوان رستم رستم باقی ہیں‘ ان کٹھن مرحلوں کو بھی اپنی صلاحیت و زید کی سے طے کرلیں گے۔ تو ہم سب مداحانِ شفیع نقی جامعی ان کے ملکی منصب صدارت یک جلوہ افروز ہونے کے منتظر تھے تو آج تک منتظر ہی ہیں۔
شفیع نقی جامعی لندن اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے سن اہے انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈگری بھی حاصل کرلی‘ پھر وہیں کسی ’’گوری‘‘ سے بیاہ رچالیا۔ اس ’’گوری‘‘ نے ان کی زدواجی زندگی کی تقدیر کالی کردی۔ معاش او رمقام کے لیے انہوں نے بی بی سی لندن کی ہندی سروس سے وابستہ ہونے کی کوُشش کی۔ وابستگی کے لیے اپنے تقویٰ اور پرہیز گاری کی نفی کی ضرورت پیش آئی تو مجبوراً یا عادتاً یا ارادتاً اس کی نفی بھی کر ڈالی۔ آج بھی ان کی آواز بی بی سی کی کبھی ہندی اور کبھی اردو سروس سے سات سمندر پار سنائی دیتی ہے توگو گزرے ہوئے دن اپنی یادوں کے ساتھ روشن ہوجاتے ہیں مگر اپنی گھن گرج کے باوجود یہ آواز اسیر لندن ہوکر ہی کیوں رہ گئی۔ اپنے وطن کی فضاؤں مین اپنی سالم وجود کے ساتھ کیوں نہ گونجی؟ اس سوال کا جواب کوئی کیا دے ‘ نہیں معلوم شفیع نقی کے پاس اس سوال کا کوئی معقول توجیہہ ہے بھی یا نہیں۔
کالج میں استاد محترم پروفیسر عطا اللہ حسینی شفیع نقی کے مربی و سرپرست رہے تھے۔ وہی ان کی تقریریں لکھواتے تھے۔ اچھی بات یہ ہے کہ شفیع نے اس حقیقت کی پردہ پوشی کی کبھی کوشش نہ کی۔ کبھی کوئی رٹی ہوئی تقدیر کا طعنہ دیتا‘ کوئی کہتا شفیع تم تو تقدیر کا طعنہ دیتا‘ کوئی کہتاشفیع تم تو تقدیر لکھواتے ہو تو ان کا برجستہ جواب ہوتا تھا:’’تقدیر لکھی بنی جاتی‘ کی جاتی ہے‘‘ اور سے بات سو فیصد درست ہے۔ استاد محترم حسینی صاحبمجھ پر بھی شفقت فرماتے تھے اور ازرہ عنایت مباحثوں میں شرکت سے میری دلچسپی دیکھ کر انہوں نے مجھے بھی دو ایک تقدیریں لکھوائیں لیکن میں ناکام رہا کہ اسٹیج پر پہنچ کر یاد کی ہوئی تقدیر کے اکثر اجزا حافظے سے محو ہوجاتے تھے ۔ یہاں تک کہ مایوس ہوکر اس کوچے سے ہی نکل گیا۔ تو شفیع کا یہ کہنا کہ ’’تقدیر کی جاتی ہے‘‘ اس میں ذرا بھی مبالغہ نہ تھا۔
شفیع کے سیاسی کارناموں میں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ ہے ’’پرسنلٹی کلٹ‘‘ یعنی اپنی شخصیت کو سحرانگیزبنانے کا کمال۔ اس کے لیے وہ خطابت کے جوہر کے ساتھ اداکاری کے فن سے بھی مدد لیتے تھے۔ طلبہمسائل یا ’’طلبہ حقوق‘‘ کے حوالے سے میں نے انہیں کالج میں ان کے ہم نام بزرگی پرنسپل شفیع صاحب اور یونیورسٹی میں وائس چانسلر ڈاکٹر محمود حسین کے سامنے خطابت کا مظاہرہ پیش کرتے دیکھا۔ اب کہا بتاؤں کہ اس خطابت میں جذباتی اداکاری کے وہ نمونے انہوں نے پیش کی کہ پاکستانی فلموں کے شہنشاہ جذبات اداکار محمد علی کی جذباتی اداکاری بھی ماند پڑگئی۔ بولتے بولتے پرنسپل صاحب کے جوتوں کو ہاتھ لگانا غالباً قدم بوسی کی ںیت سے کہ شاید اسی طرح پرنسپل صاحب اپنے اصولی موقف سے پگھل کر دستبردار ہوجائیں۔ڈاکٹر محمود حسین کے گھر کے ختب خانے میں جہاں رات گئے جمعیت کے لڑکے یونین کے انتخابات بغیر کسی معقول وجہ کے ملتوی کیے جانے پر وائس چانسلر صاحب سے احتجاج کرنے بس میں بھر کر پہنچے تھے۔ میں بھی شوق تجسس سے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے وہاں۔ بس میں سوار ہوگیا تھا۔ وہاں جو کچھ دیکھا یعنی شفیع نقی کی خطابت جملے اداکاری کا جو مشاہدہ کیا اس نے فلم ’’صاعقہ‘‘ میں اداکار محمد علی کی جذباتی ایکُٹنگ کی یاد تزہ کردی۔ فلم کے جذباتی المیہ منظر میں اداکار محمد علی اپنی فرعون صفت دادی کے سامنے ہیروئن کی مظلومیت ثابت کرنے کے لیے ڈائیلاگ بولتے بولتے گھٹنوں کے بل فرش پر گر جاتے ہیں‘ آنکھوں سے اشک رواں ‘ آواز جذبات سے رندھی ہوئی‘ کچھ ایسا ہی انداز شفیع نقی کا بھی رہا تھا۔ ممکن ہے فلم ’’صاعقہ‘‘ انہوں نے نہ دیکھی ہو حالانکہ فلم بین تو تھے اور وائس چانسلر کے حضور ان کی اداکاری بھی اوریجنل رہی ہو بولتے بولتے وہ بھی اداکار محمد علی کی طرح گھٹنوں کے بل گر پڑے ہاتھ زور سے میز پر جو مارا تو گھڑی ٹوٹ کر دور جاپڑی مگر شفیع نے پرو انہ کی۔ بولتے ہی رہے۔ ڈاکٹر محمود حسین ساکت اس ولولہ انگیز تقریر کو سنتے اور سہتے رہے۔ آخر جمعیت کے عبدالمالک مجاہد سے رہا نہ گیا‘ انہوں نے کہا:’’شفیع! اب بس بھی کرو‘‘ فقرہ یہی تھا یا مفہوم اس کا کچھ ایسا ہی تھا۔ مگر شفیع نے سنی ان سنی کردی اور بولتے ہی رہے خدا جانے بولتے بولتے کیا سوجھی کہ وائس چانسلر کا گھٹنا پکڑ کر ملک مجاہد کی بابت نہایت جوشیلے انداز میں کہا:
’’ان کی نہ سنین انہیں تو میں فٹ بال کی طرح اڑا کر پھینک دوں گا۔‘‘
میں جو کھڑکی سے لگا کھڑا تھا‘ مجاہد بھائی کا ردعمل جاننے کے لیے ان کا چہرہ دیکھنے کی بھی شرم سے ہمت نہ پڑی۔ عبدالمالک مجاہد یونین کے صدر اورشفیع نقی جامعی ان ہی کی پرزور وکالت پر جمعیت کی صدارتی امیدوار بنائے گئے تھے۔ متقی اور دین دار ارکان جمعیت اس کے حق میں نہ تھے لیکن مجاہد بھائی نے شفیع کے سحر میں مبتلا ہوکر ان کی حمایت میں ایسی دلیل دی جسے نقل نہ کرنا ہی بہتر ہے اور یوں شفیع کے حق میں نہ چاہتے ہوئے بھی فیصلہ کرلیا گیا۔ شفیع نے اس شناخت کا صلہد ینے میں دیر نہ کی۔ میں نے شفیع نقی کا دوسرا چہرہ واپسی پر مسجد میں دیکھا جہاں کارکنان جمعیت کے سامنے انہوں نے جوش و جذبات میں کہے گئے غیرمحتاط فقرے کی مجاہد بھائی سے معذرت کی۔ جواز یہ پیش کیا کہ جو کچھ کیا بربنائے مصلحت کیا۔ وہ ’’مصلحت‘‘ شاید مجاہد بھائی کی بھی سمجھ میں نہ آئی‘ آہستگی سے کچھ جواب میں کہا جو میں سن نہ سکا البتہ ان کی طنز والم میں ڈوبی مسکراہٹ جسے زہر خند مسکراہٹ بھی کہا جاسکتا ہے‘آج بھی بھلا نہ سکا۔
یونیورسٹی یونین کے الیکشن میں شفیع نقی کے مقابلے پر این ایس ایف کے امیدوار شاید مدثر مرزا تھے جو جنگ اخبار سے آج کل وابستہ ہیں۔ ان کی شخصیت ویسے ہی غیر موثر تھی۔ شٰیع سمیت جمعیت کا پورا پینل بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ جیتنے کے بعد شفیع نقی نے کیمپس میں اصلاحی اقدامات کے لیے تھینڈر اسکواڈ تشکیل دیا۔ نہیں معلوم یہ نام شفیع نے کیسے اور کہاں سے اخذ‘ اس لیے کہ انگریزی زبان سے واقفیت اس وقتتک ان کی واجبی سی تھی۔ تھنڈر (Thunder) کے لفظی معنی گرج‘ بجلی کی کڑک‘ گڑگڑاہٹ وغیرہ کے ہیں۔ اس کے ایک اور معنی پرزور سرزنش یا مذمت کے بھی آتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ شفیع نے اس اکسواڈ کے نام و قیام کی منظوری جمعیت کے ناظم جامعہ اور مجلس شوریٰ وغیرہ سے کیا کہہ کر کیا بتا کر لی۔ تھنڈر اسکواڈ کے چیف بھائی قیصر خان تھے جو تن و توش سے ہی دیکھنے والے کو سراسیمہ کردینے کے لیے کای تھے۔ اس کے دیگر ممبران بھی صحت مند‘ موٹے تگڑے تھے۔ا ن میں یقیناًنہایت صالح نوجوان بھی تھے۔ جیسے احمد خان جن کے جھوٹے بھائی احمد فواد جو پہلے کارکن جمعیت اور نہایت خوُش فکر شاعر نکلے یا تو احمد خان جیسے سراپا محبت و درگزر والے طالب بھی تھے۔ مگر چونکہ ٹاسک اس کا ترغیب‘ نصیحت اور تلقین کے بجائے ’’برائی کو بزور طاقت‘‘ مٹادینے کا تھا۔ طاقت کے مظاہرے میں وہ بھی حق اور اچھائی دین کے نام پر‘ بڑا پُرخطر فریضہ ہوتا ہے کہ آدمی کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ کہاں نفس اور ان اوغیرہ کی نیک اور اچھے جذبات میں آمیزش ہوگئی۔ اسی لیے اللہ کی آخری کتاب میں حق کی نصیحت کو عمدہ اور دل نشین طریقہ اختیار کرنے سے مشروط کیا گیا ہے۔ اب یہاں معاملہ نصیحت و تلقین کا تو تھا نہیں۔ شفیع نقی نے ببانگ دہل اعلان کیا او ریہ اعلان میں نے اپنے گنہ گار کانوں سے سنا۔ وہ کہہ رہے تھے:
’’سائنس کے جو طلبہ آرٹس فیکلٹی میں تھیوری کی جو کلاسیں لینے آتے ہیں اور آرٹس کے جو جوڑے سائنس فیکلٹی میں پریکٹیکل کی کلاسیں کرنے جاتے ہیں۔ وہ کان کھول کر سن لیں کہ اب یہ سب کچھ نہیں ہوسکے گا۔‘‘
ظاہر ہے یونیورسٹی کے مخلوط کلچر میں تب بھی او راب بھی جو کچھ ہوتا تھا اور ہورہا ہے‘ کسی طرح پسندیدہ نہیں کہلاسکتا۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی کے دور میں طلبہ امور کے نگراں میجر آفتاب حسن نے مخلوط ماحول کو پاکیزہ بنانے کے لیے جو ایک آدھ قدم اٹھایا اسے آج تک ’’تین فٹ کا فاصلہ‘‘ کہہ کر مطعون کیا جاتا ہے۔ تو تھنڈر اسکواڈ کے ذریعے طلبا و طالابت کی آزادی کے حق کو سلب کرنے کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو جو یہ حق رکھتی تھی اسے مجبو ہوکر اپنی حق سے دستبردار ہوجانا پڑا۔ جمعیت کے صدر یونین طلبہ کے ووٹوں سے آئے تھے اور جیت کر یہ بھول گئے تھے کہ انہیں ووٹ طلبہ مسائل مثلاً ٹرانسپورٹ‘ کینٹین وغیرہ کے انتظام کو بہتر بنانا اور غیرنصایبی سرگرمیوں کا انعقدا کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ جیت کر طالب علم نمائندہ بن جانے سے یہ کہاں ثابت ہوتا تھا کہ طلبہ نے انہیں یہ حق بھی دے دیاہے کہ یونیورسٹی کلچر کا پاکیزہ بنانے کے لیے وہ جوڑوں کی پرائیویسی کو تباہ کرنے کی مہم شروع کردیں اور وہ بھی خوف و ہراس کے ذریعے۔ چنانچہ یونیورسٹی کلچر تو ویسا ہی رہا‘ اج بھی ہے۔ البتہ اگلے انتخابات میں طلبہ و طالبات نے جمعیت کے پینل کو مسترد کردیا۔ کوتاہی یہ بھی ہوئی کہ تھنڈر اسکواڈ کے چیف قیصر خان ہی صدارتی امیدوار بنے یا بنوائے گئے چنانچہ جمعیت کے مرکزی عہدیداروں میں صرف جوائنٹ سیکریٹری مخدوم علی خاں جیتے (جو مشرف دور میں اٹارنی جنرل اور ان دنوں نواز شریف کے پانامہ کیس میں وکیل ہیں) جیتنے کے بعد مخدوم علی خاں جنہیں شعر و ادب کا عمدہ ذوق تھا‘ مزاح یوسفی کے دلدادہ تھے‘ اسی لیے مجھ سے بھی ان کی اچھی ملاقاتیں تھیں۔ کوئی ایک ملاقات ایسی مجھے یاد نہیں جس میں انہوں نے اپنے صدارتی امیدوار سے ہٹا کر جوائنٹ سیکرٹری بنائے جانے کا پرزور شکوہ نہ کیا ہو۔ اس قصے کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ مختصراً یہ کہ جمعیت اس سال تھنڈر اسکواڈ کی کارکردگی ہی کے سبب ہاری اور ہارنے کے بعد جمعیت کے ’’یوم تجدید عہد‘‘ سے شفیع نے خطاب کیا‘ تو بھی وہ اسی موقف پر قائم رہے اور شکست جمعیت کا کوئی سچا بے لاگ تجزیہ کرنے کے بجائے جذباتی انداز میں اعلان کیا:
’’کل یہاں آزادی آزادی کی بہت باتیں ہوئیں۔ میں بتادینا چاہتا ہوں خہ جامعہ میں کپڑے پہننے کی آزادی ہی‘ اتارنے کی نہیں۔‘‘
حاضرین طلبہ نے جن میں سادہ دل صالحین کی بُڑی تعداد موجود تھی اس فقرے پر زوردار تالیاں بجائیں۔ اس جلسے کے بعد شفیع پھر یونیورسٹی کے افق پر نہ چمک سکے۔وہ کیمپس ایک آڈھ بار ہی آئے۔ معلوم ہو اکہ لندن اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور انگریزی کی استعداد مین اضافے کے لیے امریکن سینٹر کی لائبریری میں بہ غرض مطالعہ پابندی سے جاتے ہیں۔
ایک دن کسی کام سے میں نے انہیں فون کیا کہ یونین کے زمانے میں ان سے اچھی واقفیت ہوگئیت ھی ان سے میری ہی خواہش پر ریگل کے کیفے جہان میں ملاقات طے پائی۔ وقت مقررہ پر وہ اپنی دیوہیکل موٹرسائیکل پر تشریف لائے۔ دورنا گفتگو انہوں نے پوچھا:
’’جمعیت کی اب کیا پوزیشن ہے؟‘‘
میں نے یقینی انداز میں کہا:’’اب کے انتخابات مین جمعیت جیت جائے گی!‘‘
شفیع نے مزید کوئی استفسار نہ کیا۔ ہوٹل کا بل انہوں نے ہی ادا کیا۔ یہ پہلی ملاقات تھی جسے آج کل کی زبان میں ’’ون ٹو ون ملاقات‘‘ لکھا جاتا ہے۔
اس کے بعد میرا ان سے کوئی ملنا جلنا نہ ہوسکا۔ بس ایک دن اخباری تصویر دیکھی جس میں وہ اور اکرم کلوڑی (جمعیت کے سابق سیکریٹری یونین) مسلم لیگ کے پیرپگارا کے دفترمیں ان سے ملاقات کررہے ہیں۔ یہ گمان عام ہوا تصویر سے کہ دونوں گہرے دوست مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کردیں گے۔ لیکن یہ گمان حقیقت نہ بن سکا۔ پھر ایک اور دن ٹیلی وژن کے ایک کمرشل میں سفیع نقی ایک ماڈل ک یطو رپر نمودار ہوئے‘ اسکرین پر ان کے عقب میں ایک خاتون ماڈل ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔اشتہار کسی سوئٹر کا تھا مگر تب تک صدر ضیا الحق کی اسلامائزیشن کا عمل شروع نہ ہوا تھا۔ راج بھٹو کا تھا جن کے وزیراطلاعات مولانا کوثر نیازی یونیورسٹی کے کسی پروگرام میں تشریف لائے تھے تو شفیع نقی نے اپنے مخصوص اعتماد سے ایک عدد فائل اسٹیج پر چڑھ کر پیش کی تھی۔ اس فائل میں وہ عریاں تصویریں اور فحش مواد تراشوں کی صورت میں جمع کردیا گیا تھا جو اس زمانے کے اخبارات میں تواتر سے شائع ہورہے تھے۔ مگر حکومت کی اصلاح کی کوشش کا یہ واقعہ ان کے صدر یونین بننے سے قبل کا ہے شفیع نقی اشتہار میں کیا آئے‘ ایک دھماکا سا ہوا۔سیاسی وغیر سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں تب جمعیت کی اقدار و روایات موثر تھیں۔ اگلے ہی دن اخبار سے جمعیت کے سابق صدر یونین خی اخراج کی اطلاع ملی اور پھر جو آخری اطلاع ملی وہ شفیع نقی کے لندن پرواز کر جانے کی تھی۔
اب یہ سب باتیں را ت گئی بات گئی کہہ کر بھلائی جانے والی ہیں۔ شفیع لندن سے کئی بار پاکستان آئے۔ ایک مرتبہ ان کی تشریف آوری پر محترم منور حسن نے ہوٹل میں پرانے احباب کو جمع کرکے انہیں چائے پر مدعو کیا۔ خواہش کے باوجود کسی ناگزیر مصروفیت کے سبب شریک محفل نہ ہوسکا‘اس کے بعد میں قلق بھی رہا۔رہا سوال شفیع کے عزم و ارادے کے تشنۂ تکمیل رہ جانے کا تو ساری بات یہ ہے کہ اس کائنات میں ہم غور سے دیکھیں تو ایک الٰہی

Back to Conversion Tool