(پاکستان کا سیاسی نظام ،،،،تبدیلی کی ضرورت(سلمان عابد

پاکستان کا سیاسی نظام ریاستی نظام کی کمزوری اور حکمران طبقات کی نااہلی اور بدنیتی کی وجہ سے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہورہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نظام کی ناکامی کا اعتراف خود حکمران طبقات کی جانب سے بھی ہونے لگا ہے، بالخصوص ہماری عدلیہ بھی بار بار یہ دہائی دے رہی ہے کہ نظام عملی طور پر مفلوج ہوچکا ہے۔ اداروں کی صلاحیتوں کے بارے میں جو الفاظ چیف جسٹس نے ادا کیے ہیں اس سے ان اداروں کی سیاسی ساکھ کو سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ وہی نظام اپنی ساکھ بناتا ہے جو لوگوں کے ساتھ نہ صرف جڑا ہوتا ہے بلکہ ان کی بنیادی نوعیت کی تمام ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ لیکن اگر نظام کو محض سیاسی نعروں، جھوٹے دعووں اور طبقاتی بنیادوں پر قائم کرکے کمزور لوگوں کو مزید کمزور کیا جائے تو لوگ اس طرز کے نظام سے اپنے آپ کو لاتعلق کرلیتے ہیں۔ حکمران طبقہ عوام کو برا بھلا کہتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لوگ نظام کو بنانے میں مدد فراہم نہیں کرتے اور خود قانون شکنی کرتے ہیں۔ یہ بات بجا، لیکن جب لوگ حکمرانوں کو خود قانون کی پامالی کرتے اور اداروں کو اپنے ذاتی مفادات میں استعمال کرتے دیکھتے ہیں تو ان کا بھی اس نظام سے وہی سلوک ہوتا ہے جو خود حکمران طبقات کا مزاج بن چکا ہے۔ بنیادی طور پر جو کوئی بھی سیاسی اور سماجی نظام کے بارے میں تھوڑا بہت فہم یا ادراک رکھتا ہے یا جسے دنیا کے نظاموں کے بارے میں کچھ تجربہ ہے، وہ برملا اعتراف کرتا ہے کہ نظام کی بڑی خوبی عدم مرکزیت سے جڑی ہوتی ہے۔ عدم مرکزیت سے مراد زیادہ سے زیادہ اختیارات، وسائل اور ترقی اور خوشحالی کے مواقع نچلی سطح پر منتقل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا جو حکمرانی کا سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور معاشی نظام ہے اس میں ’’مرکزیت پر مبنی نظام‘‘ غالب نظر آتا ہے۔ یہ نظام حکمران اور بالادست طبقات کی خواہش سے جڑا ہوا ہے، اور یہ طبقات سمجھتے ہیں کہ اس طرز کے نظام سے ان کے ذاتی سیاسی مفادات کوتحفظ ملتا ہے۔ اس لیے لوگوں کے پاس بھی نظام کے حوالے سے جو رول ماڈل ہے اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی وہی کچھ کریں جو حکمران طبقہ کررہا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں سے لے کر عوام تک کون نظام کو شفاف بنائے گا؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اگرچہ ملک میں 18ویں ترمیم کی مدد سے 2010ء میں اختیارات کی مرکزیت کے خاتمے کا بنیادی اقدام کیا گیا تھا اور خیال تھا کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں بتدریج اداروں کو زیادہ خودمختار، فعال اور نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنائیں گی۔ کیونکہ دنیا میں کامیاب سیاسی نظام کے جو تجربے کیے گئے ہیں ان میں اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا گیا ہے، لیکن شاید ہمارا حکمرانی کا نظام اور اس سے وابستہ ریاستی و سیاسی حکمران ٹولہ دنیا کے اچھے تجربات سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ عوامی مفادات اور عام آدمی کی ترقی کے مقابلے میں اپنی ذات، خاندان اور طبقے کی ترقی چاہتے ہیں۔ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزرا سمیت جو بھی اس سیاسی و انتظامی نظام سے جڑا ہوتا ہے وہ مسائل کے حل کے دعوے تو بہت کرتا ہے، لیکن ناکامی کی صورت میں اس نظام کا ماتم کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ کیونکہ اس ملک میں موجودہ نظام مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے اس لیے یہاں وہی کامیاب ہوتا ہے جو انفرادی سطح پر خود کو زیادہ متحرک اور فعال رکھتا ہے، اس لیے اسے نظام کے معاملے میں دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجائے خود کو ہر معاملے میں آگے رکھنا پڑتا ہے۔ اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس سوچ کے ساتھ ہمارا حکمران طبقہ کیوں کامیاب نہیں ہوسکا؟ وزیراعلیٰ پنجاب تو یہ بات بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں کہ یہ نظام ظالمانہ اور کرپٹ وبدعنوان ہے۔ وہ اس نکتہ کو بنیاد بناکر ہر معاملے میں اپنے آپ کو ہی عقلِ کُل سمجھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے نکتہ نظر کے حامل سیاست دان ہی اصل میں بہتر نظام بنانے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سب کام ہمیں ہی کرنے ہیں اور سب کو ان کے دائرۂ کار میں لایا جائے۔ وزیراعظم ہوں یا وزرائے اعلیٰ، سب براہِ راست جاکر لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مداوا افراد نہیں بلکہ نظام کرتا ہے۔ اگر افراد کے مقابلے میں ادارے مضبوط ہوں تو وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کو خود براہِ راست جانے کے بجائے اپنے نظام پر بھروسا کرنا ہوگا۔ ایک مسئلہ نظام کی نگرانی کا ہے۔ ہمارے نظام میں بیشتر منصوبے کاغذوں میں نظر آتے ہیں، لیکن اگر براہِ راست ان منصوبوں کو دیکھا جائے تو وہاں کچھ بھی بہتری کی صورت میں نظر نہیں آتا۔ بنیادی طور پر ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں جن سیاسی، انتظامی اور قانونی اداروں کو نظام کی اصلاح کرکے اسے شفاف بنانا تھا وہ خود ہی اعتراف کررہے ہیں کہ نظام برباد ہوکر رہ گیا ہے۔ اس اعتراف کے باوجود کوئی بھی ادارہ یا فرد اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم مجموعی طور پر ملک میں مسائل کا حل بننے کے بجائے خود مسئلہ بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے افراد کے سہارے اس نظام کو چلانا چاہتے ہیں، جو سوائے ناکامی کے ہمیں کچھ نہیں دے سکے گا۔ اس وقت تعلیم، صحت، انصاف، امن وامان، ماحول، سیکورٹی، روزگار، ٹرانسپورٹ سمیت کسی بھی نظام کا جائزہ لیں، تو اس کے اندر موجود غیر شفافیت اور عدم انصاف حکمران طبقے اور عوام کے درمیان یا اداروں اور عوام کے درمیان ایک بڑی بداعتمادی کو پیدا کرتا ہے۔
مسئلہ محض سیاسی قیادت کا ہی نہیں بلکہ ایک کمزور انتظامی ڈھانچے کا بھی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم یہ دلیل دیتے تھے کہ ہماری انتظامی طاقت یا بیوروکریسی کا عمل خاصہ مضبوط ہے۔ لیکن اب جو ہمارا انتظامی ڈھانچہ ہے وہ ماضی سے بالکل مختلف ہے، اور اب بیوروکریسی بھی مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ بیوروکریسی نظام کو چلانا چاہتی ہے بلکہ وہی بیماری اس طبقے کو بھی لاحق ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے تک محدود رکھ کر نظام کو چلایا جائے۔ یعنی ان کا ادارہ یا ذات ہی مضبوط نظر آئے۔ جب بھی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا مسئلہ ہو، یا عوامی نمائندوں کو زیادہ بااختیار بنانے کا عمل ہو تو ہمیں سب سے زیادہ مزاحمت بھی بیوروکریسی کی جانب سے نظر آتی ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ابھی نچلی سطح پر یا عوامی نمائندوں کی سطح پر صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر ایک طاقتور بیوروکریسی کی مدد سے کیا واقعی ہم نظام کو مضبوط، شفاف اور عوام دوست بناسکے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ کیونکہ بیوروکریسی عوام دوست نہیں۔ اول وہ اپنے مفادات کو تقویت دیتی ہے، دوئم اس کے نتیجے میں انھیں حکمرانوں کی غلامی بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس بیوروکریسی کے نظام میں جس انداز سے ہم نے سیاسی مداخلت کی اور میرٹ کا جنازہ نکالا اس کا نتیجہ کمزور بیوروکریسی اور عوام دشمن پالیسی کی صورت میں نکلا۔ ابھی کچھ دن قبل بعض صوبوں میں ایک بار پھر بیوروکریسی کے نظام کو مضبوط بناتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے نظام کو بحال کیا گیا ہے۔ دلیل یہ دی گئی کہ یہ نظام بہتر تھا۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو پھر اس پر بحث ہونی چاہیے کہ کیوں بیوروکریسی کا نظام ہمارے مقامی مسائل ماضی میں بھی حل نہیں کرسکا تھا؟ دراصل حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ مقامی سیاسی نمائندوں کے دباؤ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتظامی اداروں سے گٹھ جوڑ کرکے ایک دوسرے کے مفادات کو طاقت فراہم کریں۔ حالانکہ ہمارا 1973ء کا آئین شق140-Aمیں ضمانت دیتا ہے کہ صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ بیوروکریسی کے مقابلے میں عوام کے منتخب لوگوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دیں۔ لیکن سب نے دیکھ لیا کہ تمام صوبائی حکومتوں اور مختلف جماعتوں نے صوبائی سطح پر جو مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کروایا ہے اس میں آئین کی شق140کی نفی کرکے زیادہ سے زیادہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو صوبائی سطح یا وزیراعلیٰ تک محدود رکھا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اس وقت چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے نمائندے اپنی صوبائی حکومتوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں کہ ان کو اختیارات دیے جائیں وگرنہ یہ کمزور ادارے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکیں گے۔ ابھی تو خدشہ یہ ہے کہ یہی حکمران سیاسی جماعتیں ان مقامی اداروں کو 2018ء کے انتخابات کے تناظر میں استعمال کرکے انہیں مزید متنازع بنادیں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام میں پانچ معاملات نے بنیادی نوعیت کی خرابیاں پیدا کی ہیں: اول سیاسی مداخلت، دوئم مرکزیت پر مبنی نظام، سوئم جوابدہی اور نگرانی کی عدم موجودگی، چہارم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، پنجم ترجیحات کی تقسیم کا غیر منصفانہ عمل۔ یہ مسائل ایسے نہیں ہیں جو حل نہ ہوسکیں، بلکہ مسئلہ نیتوں کا ہے۔ جو طور طریقے ہم نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ دنیا بھر میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں، لیکن ہم اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دے کر بضد ہیں کہ ہمیں اسی طرز کا فرسودہ نظام چلانا ہے۔ نظام بنیادی طور پر حکمران طبقے یا اداروں کے مفادات کو سامنے رکھ کر نہیں بنایا جاتا، بلکہ بنیادی فوقیت عوام کو دی جاتی ہے جن کے لیے نظام بنایا جاتا ہے۔ بالخصوص معاشرے کے کمزور طبقات کو جن کا استحصال زیادہ ہوتا ہے، حکمرانوں کی ترجیحات کا حصہ بننا چاہیے، اور یہ طبقہ حکومتوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ان کو ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دیں گی۔ مگر اس نظام میں ان کے لیے سوائے چیریٹی یا بھیک کے، کچھ نہیں۔ اس نظام سے مستفید ہونے کے لیے لمبی لمبی قطاریں اور حکمرانوں کی تصویروں والے امدادی پیکیج ہماری غربت کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں، اور لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید یہی ہماری قسمت میں ہے۔
ہمارا المیہ محض حکمرانی کا نظام ہی نہیں بلکہ کمزور سیاسی جماعتیں اور ان کی ذاتی مفادات پر مبنی سیاست بھی ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی مفادات کی سیاست سے بالکل کٹی ہوئی ہیں اور ان کی عمومی سیاسی ترجیحات عوامی مفادات کی سیاست سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ ایک مسئلہ عوامی مشکلات کے باوجود عوامی دباؤ کی سیاست کے کمزور ہونے کا بھی ہے، اس کی وجہ خود معاشرے میں قیادت کا بحران ہے۔ کیونکہ سیاسی جدوجہد سیاسی قیادت کے ساتھ کی جاتی ہے، جبکہ ہماری سیاسی قیادت عوام سے خود کو جوڑنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم محض نظام کا ہی ماتم کریں گے یا واقعی اصلاحات کرنا اور نظام کو شفاف بنانا ہمارا ایجنڈا بھی ہوگا! ہمیں مسائل کے حل کی طرف بڑھنا ہے، کیونکہ ہمارا حکمرانی کا نظام بنیادی نوعیت کی بڑی تبدیلی اور ایک بڑے انتظامی اور سیاسی آپریشن کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ہم قانون کی حکمرانی اور سیاسی عدم مداخلت کو بنیاد بناکر آگے بڑھیں تو کچھ بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ عمل جادوئی طریقے سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے معاشرے کے اندر سے بھی تبدیلی کے لیے عوامی دباؤ کی سیاست کو آگے بڑھانا ہوگا۔ لیکن پہلی اوربنیادی شرط یہ ہے کہ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ جو نظام اس وقت چلایا جارہا ہے وہ فرسودہ بھی ہے، کرپشن اور بدعنوانی پر بھی مبنی ہے اور عام آدمی کے مفادات کے مقابلے میں ایک مخصوص طبقے کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ کیونکہ جب تک ہم اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو قبول نہیں کریں گے، شفاف نظام کیسے قائم ہوگا؟ لیکن مسئلہ سیاسی قیادت کا ہے جو نظام کو ’اسٹیٹس کو‘ کی بنیاد پر چلانا چاہتی ہے۔ جو لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اُن کے سامنے بڑا چیلنج یہی ہے کہ ’اسٹیٹس کوا کی قوتوں کو کیسے کمزور کیا جائے، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور مؤثر حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے، وگرنہ رائج الوقت نظام سے عام آدمی کو سوائے ناکامی، دکھ اور استحصال کے کچھ نہیں مل سکے گا۔
nn