(ہم کتنے غریب ہیں انگریزی سے ترجمہ:(پروفیسر اطہر صدیقی

ایک دن ایک بہت ہی خاندانی رئیس اپنے بیٹے کو ایک دیہی علاقے کی سیر کے لیے لے گئے، یہ دکھانے کے لیے کہ غریب لوگ کیسے رہتے ہیں۔ انہوں نے چند دن اور کچھ راتیں کسی بہت ہی غریب کسان کے فارم پر گزاریں۔ اپنے سفر سے واپسی پر والد نے اپنے بیٹے سے دریافت کیا:
’’سفر کیسا تھا؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’بہت شاندار‘‘۔
والد نے پوچھا: ’’تم نے دیکھا کہ غریب کیسے رہتے ہیں؟‘‘
بیٹے نے جواب دیا:
’’جی ہاں، میں نے دیکھا کہ ہمارے پاس ایک کتا ہے، ان کے پاس چار پانچ کتے تھے۔ ہمارے باغ میں تیرنے کے لیے ایک چھوٹا سا پول ہے، ان کے پاس ایک بہت بڑا تالاب ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہم نے اپنے باغ میں روشنی کے لیے بیرونِ ملک سے درآمد کرکے لال ٹینیں لٹکائی ہیں، ان لوگوں کے پاس ستاروں سے بھری راتیں ہیں۔ ہمارا پیٹیو (Patio) گھر کے سامنے تک ہی محدود ہے، ان کے پاس افق تک جگہ ہی جگہ ہے۔ ہمارے پاس زمین کا ایک مختصر سا ٹکڑا ہے، ان کے پاس کھیت ہیں جو حدِّ نظر سے بھی آگے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس خادم ہیں جو ہماری خدمت کرتے ہیں، لیکن وہ دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔ ہم اپنا کھانا خریدتے ہیں لیکن وہ لوگ اپنا کھانا اگاتے ہیں۔ ہمیں حفاظت دینے کے لیے ہمارے گھر کے چاروں طرف دیواریں ہیں، ان کے پاس دوست ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ یہ سب سن کر والد لاجواب ہوگئے۔
تب ان کے بیٹے نے کہا:
’’آپ کا شکریہ والد صاحب مجھے یہ دکھانے کے لیے کہ ہم کتنے غریب ہیں؟‘‘
کسی بھی ’حالت‘ کی صحیح قدروقیمت کا احساس کس قدر تعجب خیز حقیقت ہے؟
یہ بات آپ کو حیرت زدہ کرتی ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اگر ہم اس کے لیے شکر گزار ہوں تو ہمیں کیسا محسوس ہو، بجائے اس پر پریشان ہونے کے یا افسو س کرنے کے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ شکر بھیجیے ہر اُس شئے کے لیے جو آپ کے پاس ہے!!
’’خاص طور سے آپ کے دوست!
زندگی بہت مختصر ہے اور دوست بہت کم ہیں‘‘۔
nn