کاہتھ بخوبی دیکھا جاسکتا ہے

ٹرمپ کی کامیابی کے پیچھے امریکی اسٹیبلشمنٹ (Depp State) کاہتھ بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ ہیلری کلنٹن جو صدارتی الیکشن میں ڈونلڈٹرمپ کے مدمقابل تھیں اپنی شکست کا ذمہ دار FBI کے ڈآئریکٹر جیمز کومی کو قرار دے چکی ہیں جنہوں نے ان کے نزدیک‘ غیرضروری طور پر Email کے قضیہ کو دوران الیکشن بار بار ہوا دی اور ہیلری کو دنیا کے سامنے ایک غیر معتبر رہنما کے روپ میں پیش کیا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ سے ایسا کیا کام لینا چاہتی ہے جو کوئی اور امریکی رہنما انجام نہیں دے سکتا تھا؟
امریکی کرتا دھرتاؤں کے سامنے دو ایسے چیلنجز موجود ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے متعصب‘ ناقابل اعتبار (Unpredictable) اور متنازعہ شخص کی امریکی قصرصدارت میں موجودگی انتہائی ضروری تھی۔
امریکی ریاست کو درپیش پہلا چیلنج اندرونی ہے۔ یہ چیلنج سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خامیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور اب بڑھتے بڑھتے اس نے امریکی معاشرے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کرلی ہے۔ امریکی معیشت دنیا کی سب سے بڑی اور ترقی یافتہ معیشت ہونے کے باوجود چند لوگوں کے ہاتھوں گروی رکھ دی گئی ہے۔ امریکہ کی ترقی کا مطلب ان چند لوگوں کی دولت و سرمائے میں ترقی ہوتا ہے۔ امریکی عوام کی بڑی اکثریت پچھلے 25/30 سال میں ہونے والیغیرمعمولی معاشی ترقی کے نتیجے میں کچھ بھی حاصل نہیں کرسکی ہے جبکہ امریکی ارب پتی اب کھرب پتی ہونے جارہے ہیں۔
CNN کی 18 اگست 2016 ء کی رپورٹ کے مطابق امریکی آبادی کا 10 فیصد طبقہ امرا ملک کی 76 فیصد دولت پر قابض ہے۔ اگر امریکی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو نچلی آمدنی والے 50 فیصد عوام امریکہ کی دولت کا محض 1 فیصد ہی حاصل کرسکے ہیں۔ مزید گہرائی میں جای اجائے تو دولت کی اس غلیظہ تقسیم کے مزید ہولناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ یعنی امریکی آبادی کا 25 فیصد حصہ امریکی دولت مندی سے ہر طرح سے محروم بلکہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
امریکہ کے چوٹی کے کمانے والے کل آبادی کا 1 فیصد بنتے ہیں۔ان کی اوسط آمدنی 80 کی دہائی میں تقریباً سوا چار لاکھ ڈالر سالانہ تھی جو 2016 ء میں بڑھ کر 13 لاکھ ڈالر سالانہ (فی کس) ہوچکی ہے جبکہ امریکی آبادی کا 50 فیصد حصہ 1980 ء میں اوسطاً1600 ڈالر سالانہ کماتا تھااب 2016 ء کے اعداد و شمار کے مطابق 50 فیصد امریکی آبادی اب بھی 1600 ڈالر سے زیادہ نہیں کماتی۔
امریکی دولت پر طبقہ امراء کے اس غاصبانہ قبضہ کے خلاف امریکی عوام میں بھرپور ردعمل موجود ہے۔ قدرتی طور پر ردعمل ظالموں اور مظلوموں (Haves & Harenots) کے درمیان کشمکش کا سبب بنتا جارہا تھا۔جس کے نتیجے میں پوری امریکی سوسائٹی افراتفری کا شکار ہوسکتی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست نے کچھ دیر کے لیے ہی سہی ان کشمکش کا رخ موڑ دیاہے۔ انہوں نے امریکہ کے ایک مظلوم طبقہ کو دوسرے مظلوم طبقہ کے خلاف صف آرا کردی اہے۔ عوام کی بڑی تعداد کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہا ن کی نوکریاں دراصل میکسیکو اور دیگر ممالک سے در آنے والے غیرقانونی تارکین وطن لے اڑے ہین‘ جن سے چھین کر وہ یہ نوکریاں واپس امریکیوں کو دلوائیں گے۔ اسی طرح وہ گلوبلائزیشن کو مجرم گردانتے ہیں جس کی وجہ سے امریکن نوکریاں دوسرے ممالک خصوصاً چین چلی گئی ہیں۔ ان کا وعدہ یہ ہے کہ وہ ان نوکریوں کو واپس لائیں گے۔ ان کے نزدیک مسلمان امریکی معاشرے کے دشمن ہیں اس لیے ان کی آمد کو روک کر ملک میں پیدا ہونے والی نوکری کے مواقع صرف امریکیوں کو دیے جائیں گے۔ اس طرح ٹرمپ کے ذریعے امریکی عوام کے دلوں میں غاصب امریکی امراء کے خلاف جذبات کا رخ فی الحال موڑ دیا گیا ہے۔ امریکی دنیا بھر میں مظلوم طبقہ کو تقسیم کرکے آپس ہی میں ایک دوسرے سے لڑا دینے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے اس کی قریب ترین MQM کی ہے۔ وہ شہر جو ملک بھر کے مظلوموں کی دادرسی کرنے والا تھا‘ حکمرانوں سے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے والا تھا۔ یکایک ایسا تبدیل ہوا کہ اسے اپنے حقوق کے دشمن اپنے جیسے مظلوم ہی نظر آنے لگے۔30 برس گزرنے کو آئے ہیں کراچی کے عوام کبھی کسی حکمران کے خلاف اعلان بغاوت نہ کرسکے حالانکہ اس عرصہ میں کراچی سمیت پورے ملک کے عوام کتنی ہی آزمائشوں سے گزر گئے۔
نفرتوں کی اس آگ کو امریکی حکمران طبقہ اپنے گھر تک لے آیا ہے فی الحال تو وہ اس سے ہاتھ تاپ رہا ہے کہ ان ہی کا ایک ارب پتی ہم نوالہ اس تقسیم کا سرخیل ہے۔ یہ آگ آئندہ کیا رنگ بدلتی ہے اس پر امریکہ کے مستقبل کا دارومدار ہے۔
امریکی ریاست کو درپیش دوسرا بڑا چیلنج بیرونی ہے۔ چین کی بے مثال معاشی ترقی نے اسے توقع سے بہت جلد ایک بڑی طاقت بنادیا ہے۔ چینی حکمرانوں کی مستقل مزاجی نے اب یہ رنگ دکھایا ہے کہ روس اور پاکستان چین کے ساتھ مل کر ایک متوقع متبادل عالمی قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ایسی طاقت جو بیک وقت ایران‘ ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ امریکہ کے لیے یہ صورتحال تباہ کن ہے۔ اس اتحاد کے مضبوط ہوجانے کی صورت میں وسطی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ سے امریکی عمل دخل ختم ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کی پوری انتخابی مہم کے دوران ان پر روس کی حمایت کا الزام لگتا رہا۔ ان کی طرف سے سیکرٹری آف اسٹیٹ کے لیے ایگزان موبل کے سربراہ کے انتخاب کو بھی ان کے روس کی طرف جھکاؤ کا تسلسل بتایا جارہا ہے۔ پھر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران نیٹو پر بھی تنقید کی اور اس کے وجود کے جواز پر سوالات اٹھائے۔ ان کی مخالفین نے روس کی طرف سے ٹرمپ کے حق میں انتخابات کے نتائج پر بیکنگ کے ذریعہ اثر انداز ہونے کا بھی الزام لگایا۔ اسی طرح اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ چین پر تو بہت گرجے برسے لیکن روس کے خلاف انہوں نے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ حالانکہ روس امریکی مفادات کے خلاف فوجی ایکشن تک لے چکا ہی اور وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور ناٹو کے مقابلے میں متبادل فوجی قوت کے طور پر موجود ہے جبکہ چین سے امریکی کشمکش ابھی تک معاشی کھینچا تانی تک ہی محدود ہے۔
یہ امریکی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے روس کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کے تحت عالمی معاملات کو ڈیل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اوباما کی روس کے لیے مشہور ’’ری سیٹ‘‘ Re-Set پالیسی اپنے خاطر خواہ نتائج نہیں لاسکی اور روس اور چین ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے گئے۔ اب ایک نئی ترکیب Reipe کے ساتھ ٹرمپ میدان میں اترے ہیں۔ کیا وہ روس کو اپنے جال میں پھانسنے میں کامیاب ہوسکتیں گے؟ اس سولا کے جواب سے اس خطے اور مسلم دنیا کا مستقبل وابستہ ہے۔ اگر روسی امریکی چارے کا شکار ہوگئے تو پاکستان سمیت مشرق وسطیٰ کے بیسٹر ممالک اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
ٹرمپ حکومت کے ابتدائی دس دن میں اٹھائے جانے والے اقدامات یہ بتارہے ہیں کہ امریکہ فیصلہ ساز ادارے جلد ہی بہت سارے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ چاہے اس کے لیے انہیں اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر ہی کارروائی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اور چاہے اس کے نتیجے میں اس کے کچھ اتحادی وقتی طور پر اس سے ناراض ہی کیوں نہ ہوجائیں۔
ٹرمپ کا یہ اعلان کہ امریکہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا صدر مقام تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کردے گا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مستقبل کی امریکی پالیسی میں اسرائیل رول بھی بڑھ جائے گا۔ اس طرح اس اعلان سے یہ بات بھی عیاں ہوگئی ہے کہا مریکہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی 1980 ء کی اس قرارداد کو بھی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہے جس میں اس نے مشرقی بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ کو ناجائز قرار دیا تھا۔ مئی 2016 ء میں ٹرمپ کے پاس یہ موقع ہوگا کہ وہ 1995 ء کے امریکی کانگریس کے فیصلے کے مطابق امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرسکیں۔ امریکہ کی جانب سے اس اقدام کے بعد علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام مزید دشوار ہوجائے گا کیونکہ مجوزہ فلسطینی ریاست کا صدر مقام مقبوضہ مشرقی بیت المقدس ہی کو بنناتھا۔
دوسری طرف پاکستان پر اچانک شکنجہ کسنے کا عمل شروع کردیاگیاہے۔ اب تک اقوام متحدہ کے ذریعہ جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیم نہیں قرار دلوایا جاسکا تھا۔ وجہ چین کا ویٹو تھا۔ اب ایک دوسرے راستے کا انتخاب کرکے وار کیا گیا ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ کے ایک ادارے ایشیا پیسفک گروپ APG نے جو خود کئی اداروں کے اشتراک کے ذریعہ وجود میں آیا ہے‘ جماعت الدعوۃ کی کچھ مالیاتی ٹرانزیکشنز کو منی لانڈرنگ کے زمرے میں شمار کرتے ہوئے اس کے بینک اکاؤنٹ منجمد کرنے اور اس کے مالکان کے خلاف ایکشن کی سفارش کی تھی۔ امریی نائب وزیر خارجہ نے پاکستان کو 31جنوری تک کا وقت دیا تھ اکہ وہ کوئی کارروائی کرے ورنہ اس کے خالف دنیا بھر میں بینکنگ ٹرانزیکشنز روک دی جائیں گی۔ پاکستانی حکومت نیف وری اقدام کرتے ہوئے امریکی حکم پر جماعت الدعوۃ کے ابتک اکاؤنٹ مجمد کردیے ہیں اور حافظ سعید اور ان کے چار دیگر عہدیداران کو ان کے گھروں ہی میں نظربند کردیا ہے۔ طاہر ہے کہ یہ شروعات ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کے پاس روس‘ چین ‘ پاکستان اتحاد کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کا ممبع قرار دے کر اس پرپابندیاں لگائی جائیں اور اسے عالمی برادری میں تنہا کیا جائے۔ یہی CPEC سمیت اس اتحاد کے ڈیگر منصوبوں کو روکنے کا طریقہ ہوسکتا ہے۔ ایسے میں سوال یہی ہے کہ چین اور روس اپنے اتحادی کو سبوتاژ کرنے کی امریکی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے کس حد تک سامنے آتے ہیں؟
ورنہ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدہ کرچکے ہیں کہ امریکیوں کی مدد کرنے کے الزام میں پاکستان کی قید میں موجود ڈاکٹر آفریدی کو ایک فون کے ذریعے امریکہ لے آئیں گے۔اس طرح ان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ اگر پاکستان غیرمستحکم ہوا تو بھارت میدان میں آئے گااور پاکستان کا علاج کرے گا۔
آئندہ آنے والے دنوں میں امریکی خارجہ پالیسی میں اسرائیل‘ بھارت اور برطانیہ کا اہم رول واضح طور پر دیکھا جاسکتا۔
ممکن ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بارے میں تجزیہ نگاروں کو شک رہا ہو لیکن ان کے اقتدار کے محض 11/12 دن دنیا کو یہ سمجھادینے کے لیے کافی ہیں کہ ان کا دور اقتدار دنیا کے لیے تبدیلیوں‘ کشمکش خون ریزی او رملکوں کے جغرافیوں کی تبدیلی کا دور ثابت ہوسکتا ہے۔
عالمی طاقتوں کی کشمکش اور جنگ کا میدان فی الحال مسلم دنیا ہی ہے۔ ٹرمپ کے فلسفہ کے مطابق پوری مسلم دنیا کو چھوٹے چھوٹے مہاجر کیمپوں میں تبدیل ہوجانا چاہیے اور مسلم دنیا کے وسائل امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے قبضہ میں آجانے چاہئیں۔ شام سے وہ اس منصوبہ کا آغاز کرنا چاہتے ہیں‘ ان کی خواہش ہے کہ دنیا بھر سے شام کے مہاجرین واپس آئین اور اپنے ہی ملک میں مہاجریت کی زندگی گزاریں۔
اہم ترین سوال مسلم دنیا کے حکمرانوں کے سامنے یہ ہین کہ کیا وہ شیعہ سنی‘ بریلوی‘ وہابی کی تقسیم چھوڑ کر امت کے دشمنوں کی سازشوں کے توڑ کے لیے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے تیار ہیں؟ کیا مسلم دنیا کا حکمران طبقہ اپنی دشمنوں پر اعتماد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی کوئی صورت نکال سکے گا؟کاش ان سوالوں کا جواب ۔۔۔؟؟؟؟؟/؟؟؟؟؟