ایک فکری کتاب
آفرینش اور ایشیائے کا بے زمانی نظام
نام کتاب
:
آفرینش اور اشیا کا بے زمانی نظام
(اسلام کے عرفانی فلسفے سے متعلق مضامین)
مصنف
:
علامہ تشہکو از تسو (جاپان)
مترجم
:
جناب محمد عمرمیمن
صفحات
:
210 قیمت 250 روپے
ناشر
:
ڈاکٹرتحسین فراقی۔ ناظم مجلس ترقی ادب۔ 2کلب روڈ۔ لاہور
فون نمبر
:
042-99200856
042-99200857
ای میل
:
majlista2014@gmail.com
ویب گاہ
:
www.mtalahore.com
اس کتاب کے مترجم جناب محمد عمر میمن کا کچھ تعارف ہوجائے۔ میمن صاحب عربی زبان کے نابغۂ روزگار ادیب، محقق اور عالم عبدالعزیز میمن کے صاحبزادے ہیں۔ ہماری ملاقات بیدل لائبریری شرف آباد کلب بہادرآباد میں بیدل لائبریری کے فاضل لائبریرین جناب زبیر صاحب کی ذرہ نوازی سے ہوئی۔ جب بھی کوئی اہلِ علم کراچی آتے ہیں تو ان کو چائے کے بہانے بلاتے ہیں اور ہم لوگوں کو بھی اطلاع کردیتے ہیں۔ اس طرح ان سے ملاقات ہوجاتی ہے اور ان کے ملفوظات بالمشافہ سننے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک دو ملاقاتوں میں میمن صاحب کے ارشادات سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کے کیے ہوئے تراجم تو نظر سے گزرتے رہے، اب ہماری خوش قسمتی اور ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کی مہربانی سے کتابی شکل میں منصۂ شہود پر آئے ہیں۔ ڈاکٹر تحسین فراقی تحریر فرماتے ہیں:
’’مسلم فکریات میں عرفان و تصوف ایک نہایت قابلِ قدر عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عنصر وجودِ اسلامی میں کہیں اوپر سے ڈالی ہوئی شے نہیں بلکہ اسی کا قیمتی جوہر ہے اور اس کا خاص تعلق قلبِ انسانی سے ہے۔ اقبال نے کس قدر درست کہا تھا کہ طریقت و تصوف شریعت ہی کو دل کی گہرائیوں سے ماننے جاننے کا نام ہے۔ اہلِ علم آگاہ ہیں کہ اس سدا بہار موضوع پر مختلف زبانوں خصوصاً السنۂ اسلامیہ میں آداب و آثار کا ایک بحرِ زخار وجود میں آچکا ہے جس سے تشنگانِ حقیقت صدیوں سے سیراب ہورہے ہیں۔ عرفان و تصوف کے موضوع سے مستشرقین کی غیر معمولی دلچسپی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہی مستشرقین میں خصوصیت سے ایک لائقِ ذکر نام تُشِہِکو اِزُ تُسُو (م 1993ء) کا بھی ہے جو مسلم فلسفے، مشرقِ بعید اور تقابلی فلسفے کے میدانوں کے مرد تھے۔ وہ مسلم فلسفے کے نہایت زیرک عالم تھے۔ پیچیدہ مباحث کو پانی کردینے کی غیرمعمولی صلاحیت سے متصف تھے اور متعدد زبانوں کے عالم تھے۔ ان سے متعدد کتب یادگار ہیں جن میں ’’تصوف اور تاؤازم۔ کلیدی فلسفیانہ تصورات کا تقابلی مطالعہ‘‘ (1984ء)، ’’’مسلم دینیات میں تصورِ ایمان‘‘ (1980ء)، ’’قرآن کا تصورِ الٰہ و انسان‘‘ (1980ء) اور اسلام کے عرفانی فلسفے سے متعلق مضامین کا مجموعہ ’’آفرینش اور اشیا کا بے زمانی نظام‘‘ (Creation and the Timeless Order of Things) خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ مؤخر الذکر کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پیش نظر اردو ترجمہ اسی انگریزی کتاب کا ہے جو ممتاز دانشور، عالم اور مترجم ڈاکٹر محمد عمر میمن کے قلم سے نکلا ہے۔ کتاب کے چند مشمولات کے اردو ترجمے قبل ازیں ’’مباحث‘‘ (لاہور) اور ’’صحیفہ‘‘ (مجلس ترقی ادب) میں بھی شائع ہوچکے ہیں اور اہلِ نظر سے خراج توصیف وصول کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر میمن اردو دنیا میں ایک نامور مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ انہوں نے پیش نظر کتاب کے ترجمے میں اصل متن کی لفظاً لفظاً پیروی کی ہے اور اسے اردو میں کامیابی سے منتقل کیا ہے۔ علمی، عارفانہ اور فلسفیانہ اصطلاحات کے اردو متبادل کی کمی سے اہلِ علم بخوبی آگاہ ہیں۔ وضعِ اصطلاحات بڑی جانکاہی اور وسیع لسانی پس منظر کی متقاضی ہے۔ چنانچہ بعض ادق اصطلاحات کے متبادل کے سلسلے میں فاضل مترجم نے زیرنظر کتاب کے فارسی ترجمے (’’آفرینش، وجود و زمان‘‘ از مہدی سررشتہ داری، تہران 2005ء) سے بخوبی استفادہ کیا ہے اور نظم و نثر کے بعض اصل فارسی متون کے ضمن میں بھی مذکورہ کتاب سے خوب مدد لی ہے۔ یوں انہوں نے قارئین کو اصل مآخذ تک رسا کردیا ہے۔ کتاب کے آخر میں انگریزی اصطلاحات کے متبادلات کی موجودگی کے باعث قارئین کرام اس کتاب سے بیش از بیش استفادہ کرسکیں گے۔
فاضل مترجم کے ارشاد کی تعمیل میں راقم السطور نے زیرنظر کتاب کے مسودے کو نہ صرف پڑھا اور اس سے فیض اندوز ہوا بلکہ کچھ مقامات کی نشاندہی بھی کی جو نظرثانی کے محتاج تھے۔ میمن صاحب نے میرے بعض مشوروں کو پذیرائی بخشی جس کے لیے راقم اُن کا ممنون ہے۔ مجلس ترقی ادب ڈاکٹر میمن کی شکر گزار ہے کہ انہوں نے اس اہم کتاب کی اشاعت کی اجازت مرحمت کی۔ امیدِ واثق ہے کہ اس کتاب سے فلسفہ و عرفان سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب بخوبی استفادہ کریں گے اور میمن صاحب کی غیر معمولی استعدادِ ترجمہ کی داددیں گے۔‘‘
کتاب کے فاضل مترجم ’’عرضِ مترجم‘‘ کے زیرعنوان تحریر فرماتے ہیں:
’’گو ابن العربی کا نام میں نے کراچی میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہی سن رکھا تھا، اور شاید کہیں یہ پڑھا بھی تھا کہ ان کے عرفانی فلسفے ’’وحدت الوجود‘‘ پر اے۔اے۔ عفیفی نے بھی ایک کتاب بعنوان The Mystical Philosophy of Muhi-ud din Ibnul Arabi لکھی ہے۔ ابن العربی کی بابت پڑھنے کا اتفاق اس کے بہت بعد میں کہیں جاکر ہوا اور وہ بھی بالواسطہ، یعنی جب میں ابن تیمیہ کی کتاب ’اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ اصحاب الجحیم‘‘ پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہا تھا۔ ظاہر ہے ابن تیمیہ کو ابن العربی سے ہی نہیں بلکہ تمام فلاسفہ اور ماہرینِ منطق سے شدید اختلاف تھا۔ ابن تیمیہ کی مذکورہ کتاب میں ابن العربی پر تنقید کے سلسلے میں ظاہر تھاکہ اولاً خود ابن العربی کی فکر سے کم از کم عمومی طور پر ہی واقفیت حاصل کرلی جائے تاکہ ابن تیمیہ کی تنقید بہتر طور پر سمجھ میں آسکے۔ اس کی تحصیل کے لیے آر۔ اے۔ نکلسن، عفیفی اور دیگر محققین کی کتابیں پڑھیں لیکن ابن العربی کی فکر کے نقوش ذہن میں حسب ضرورت اجاگر نہ ہوسکے۔ خیر ’’فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘‘ کے مصداق جو بن پڑا، کیا، لیکن ایک تشنگی اور ابن العربی کی شخصیت سے ایک انس سا باقی رہ گیا۔ بہت بعد میں جب میں دانش گاہِ وسکانسن (میڈیسن) میں استاد تھا تو تصوف کی بابت اپنے کورس کی تیاری کے وقت میں نے تشہیکو ازتسو کی Sufism and Taoism کا مطالعہ کیا جس سے ابن العربی کی عارفانہ فکر کے بہت سے گوشے روشن ہوگئے۔ اس کے کئی سال بعد جب اسلام کے عارفانہ فلسفے سے متعلق ان کے چند مضامین پر مشتمل کتاب “Creation and the Timeless Order of Things: Essays in Islamic Mystical Philosophy” شائع ہوئی تو یہ مجھے اس لیے بہت پسند آئی کہ اس میں فلسفۂ وحدت الوجود کا سارا نظام نہایت منضبط شکل میں اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود بے حد واضح اور دل نشین عبارت میں سامنے آگیا تھا۔ چنانچہ میرا جی چاہا کہ کبھی اس کا اردو میں ترجمہ کیا جائے۔
ذاتی کوتاہیوں کے علاوہ ترجمے میں ایک بڑی مشکل کا باعث فلسفے اور خاص طور پر عرفانی فلسفے سے متعلق مناسب مصطلحات کا عدم وجود یا بلکہ میری لاعلمی ثابت ہوئی۔ میں نے کتاب کا آدھے سے زیادہ ترجمہ کرلیا تھا کہ کسی قدر غیبی امداد میسر آئی۔ میرے عزیز دوست مشرف علی فاروقی صاحب نے جو مصطلحات فلسفہ کے اردو متبادل کی دریافت کے سلسلے میں مدد کررہے تھے، پتا لگایا کہ ایران میں جہاں فلسفے اور عرفانی فکر کی روایت ہنوز زندہ و تابندہ ہے، مہدی سررشتہ داری اسی کتاب کا ترجمہ بہ عنوان ’’آفرینش، وجود و زمان‘‘ (تہران: انتشارات مہر اندیش،2005ء) کرچکے ہیں۔ بدقت کتاب کی فوٹو کاپی حاصل کی گئی۔ اسے پڑھتے وقت مجھے احساس ہوا کہ بعض اصطلاحات کا جو ترجمہ میں نے کیا تھا، اردو کے مذاق سے قریب ہونے کے باوجود شاید اتنا مناسب نہیں تھا۔ سو میں نے بارہا ان اصطلاحات سے کام چلایا ہے جو مہدی سررشتہ داری نے استعمال کی ہیں۔
آخراً‘ ازتسو نے محمود شبستری، محمد لاہیجی، عین القضات ہمدانی، ابن العربی وغیرہ کے اشعار یا نثری قطعات کے تراجم کسی قدر آزادی کے ساتھ کیے ہیں،گو اس آزادی سے مافی الضمیر کو کوئی گزند نہیں پہنچتی۔ ایسا کرنا یوں ضروری تھا کہ یہ مضامین انگریزی داں (عموماً ’’مغربی‘‘) قاری کے لیے لکھے گئے تھے۔ میں نے ایسے تمام حوالوں کو ازتسو کے ترجمے کے بعد حواشی میں اصل فارسی اور عربی میں دینے کا فیصلہ شروع میں ہی کرلیا تھا۔ خوش قسمتی سے مجھے اس محنت سے مہدی سرشتہ داری نے بچالیا۔ انہوں نے اپنے فارسی ترجمے میں ازتسو کے انگریزی ترجمے کے بجائے اصل فارسی مآخذ ہی استعمال کیے ہیں۔ اگر حواشی میں ان کے اقتباسات کے بعد میں نے لفظ ’’مترجم‘‘ بڑھادیا ہے تو یہ انہیں ازتسو کے اصل حواشی سے علیحدہ کرنے کے لیے ہے۔ اس حقیقت کے اعتراف میں مجھے کوئی باک نہیں کہ ترجمے میں اس نوع کے اشکال دور کرنے کے سلسلے میں، میں کسی ستائش کا سزاوار نہیں بلکہ اس کا سہرا سررشتہ داری صاحب کے سرجاتا ہے۔ وماتوفیقی الاباللہ!
میں مجلس ترقی ادب کے اربابِ علمی کا ممنون ہوں جنہوں نے اس کتاب کو اپنے مؤقر ادارے کے تحت شائع کرنے کا اہتمام کیا۔‘‘
پیش لفظ ولیم سی۔ چٹک ماؤنٹ سائی نائی، نیویارک نے لکھا ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’پروفیسر ازتسو سے میری پہلی ملاقات 1971ء میں ہوئی۔ اُن دنوں وہ اور پروفیسر ہرمن لینڈ ولٹ میکگل یونیورسٹی کے ادارۂ مطالعاتِ اسلامیہ کی تہران شاخ میں تحقیق کی غرض سے آئے ہوئے تھے جو پروفیسر مہدی محقق کے زیر نگرانی 1969ء میں قائم ہوئی تھی۔ اُس وقت میں تہران یونیورسٹی میں ادبیات اور فارسی زبان کی تحصیل کے بعد اپنے پی ایچ۔ ڈی کے مقالے پر کام شروع کرچکا تھا، جو عبدالرحمن جامی کی تصنیف ’’نقد النصوص فی شرح نقش الفصوص‘‘ کا تنقیدی ایڈیشن تیار کرنے پر مبنی تھا۔ جب پروفیسر ازتسو نے سال میں تین مہینے تہران رہ کر تحقیق کرنے کا انتظام کیا تو ہم تین افراد۔۔۔ مَیں، غلام رضا اعوانی اور نصراللہ پور جوادی، جو دونوں اب ایران کے مشہور و معروف محققین میں سے ہیں۔۔۔ نے ان کے ساتھ ابن العربی کی ’’فصوص الحکم‘‘ پڑھنے کی درخواست کی۔21 اپریل 1972ء سے ہم نے ہفتے میں ایک بار ملنا شروع کردیا۔ ہر نشست میں ہم متن کے مختصر پارے بڑی سخت کوشی سے پڑھتے اور پھر ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے۔ پروفیسر ازتسو ان کی تصحیح کرتے اور انہیں ابن العربی کی فکر کے سیاق و سباق میں ڈھالتے۔1974ء کی خزاں میں پروفیسر ازتسو میکگل یونیورسٹی چھوڑ کر شاہی انجمن فلسفہ سے متعلق ہوگئے جو نئی نئی سید حسین نصر کی ادارت میں قائم کی گئی تھی۔ ہم نے انجمن میں رسمی جماعت کے طور پر ’’فُصوص‘‘ کا مطالعہ جاری رکھا، یہاں تک کہ مارچ 1978ء میں کتاب اپنی انتہا کو پہنچی۔ اس مدت میں کئی اور طلبہ بھی درس میں ہمارے ساتھ شریک ہوتے رہے۔
پروفیسر ازتسو کو عربی زبان کی پیچیدگیوں پر غیرمعمولی گرفت حاصل تھی۔ فُصوص کا شمار اسلامی فکر کی مشکل ترین نصوص میں ہوتا ہے، تنہا اس کے خیالات کی اندرونی پیچیدگی کے سبب ہی نہیں، بلکہ اس کے بے شمار مبہم حصوں کی صرفی و نحوی مشکلات کے سبب بھی۔ ازتسو جنہوں نے فصوص کی اہم ترین شرحوں کا بڑی دقتِ نظر کے ساتھ مطالعہ کیا ہوا تھا، عموماً مختلف تفاسیر ہمارے سامنے پیش کرتے اور اس کے بعد خود اپنی تفسیر مع دلائل پیش کرتے، جو اکثر وبیشتر شارحین کی آرا سے غیر متوافق ہوتی۔ ان کے ملاحظات ہمیشہ روشن، بے کم و کاست اور جچے تلے ہوتے۔ کسی اور چیز کے مقابلے میں ازتسو کے شاگرد فلسفے اور تصوف کے متون کی صرفی و نحوی او رلسانیاتی وضع کے دقیق تجزیے کی اہمیت کے لیے ان کے زیادہ احسان مند ہیں۔
ایک مرتبہ ہم لوگوں نے پروفیسر ازتسو سے پوچھا کہ انہیں اسلامی متون کے مطالعے کا اتفاق کیسے ہوا؟ بولے کہ جب نو عمر تھے تو ایک بار ان کے والد نے انہیں زبردستی زازین (zazen) انجام دینے کے لیے کہا۔ اس تجربے نے انہیں سخت برگشتہ کیا۔ نتیجتاً انہوں نے مصمم ارادہ کرڈالا کہ ایسے موضوع کا انتخاب کریں گے جو واقعت کی بابت زین کی روش سے حتی الامکان کوسوں دور ہوگا، چنانچہ انہوں نے لسانیات کا انتخاب کیا۔ وہ کئی اجنبی زبانوں کی تحصیل میں جت گئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں دانش گاہ کی سطح پر روسی زبان پڑھانے لگے۔ اولین موقع ملتے ہی انہوں نے عربی، بلکہ فارسی، ترکی اور متعدد یورپی اور ہندوستانی زبانیں بھی سیکھ لیں۔ عربی سیکھنے کی دیر تھی کہ انہوں نے قرآن کی لسانیاتی وضع کی بڑی جزرس تحلیل کرڈالی ، مثلاً God and Man in The Koran: Semantics of the Koranic Weltanshauung
اسے ہماری خوش نصیبی ہی کہنا چاہیے کہ پروفیسر ازتسو کی زین سے بے زاری جلد ہی رخصت ہوگئی، جس کی وافر نشان دہی ان کی Tawards a Philosophy of Zen Buddhism اور Celestial Journey: Far Eastern Ways of Thinking جیسی تصنیفات سے ہوتی ہے۔ ان کی لسانیاتی مہارت، ساتھ ہی ساتھ دینی اور عرفانی آثار کی تہ میں کارفرما خیالات اور محرکات نے ہمیں قرآن، تصوف اور اسلامی فلسفے سے متعلق مطالعات کا ایک بے مثال سلسلہ پیش کیا ہے۔ اس جلد میں شامل ان کے مقالات سے ان کا نبوغ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ ایسے محققین کی کمی نہیں جو متون کی باریکیوں اور ان کے زیرو بم پر توجہ دینے کے بجائے اسلامی فکر کی بابت ہمیں صرف جاروبی عمومیات ہی پیش کرتے رہے ہیں۔ ا گر پروفیسر ازتسو واشگاف فیصلے دینے کے معاملے میں پیچھے نہیں ہٹتے تھے، لیکن جس صفائی اور ہمدردی کے ساتھ انہوں نے اسلامی فلسفیانہ تفکر کی جہات اور وضعوں کی تفتیش کی ہے اس کے لیے وہ خاص قدر شناسی کے مستحق ہیں۔ ہر کس جسے اسلامی تفکر کے عمیق ابعاد سے دلچسپی ہے، وہ ان مقالات کو بہم پہنچانے کے لیے وائٹ کلوڈ پریس کا ممنون ہے۔‘‘
زین بدھ مت کی مرکزی ریاضت کو ’’زازین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نشستی مراقبہ ہوتا ہے جس کا مقصد ایسی تمام فکر کو التوا میں ڈال دینا ہوتا ہے جو چیزوں کے بارے میں آدمی سے فیصلے کرواتی ہے، اس طرح کہ آدمی مکمل یکسوئی کے عالم میں تاثرات، پیکروں اور خیالات کو ان میں کسی اعتبار سے ملوث ہوئے بغیر روانی سے گزرتا ہوا دیکھے۔ جیسے ہی ذہن اپنی تمام تہوں سے آزاد ہوجاتا ہے عامل کو اپنی حقیقی بدّھائی طبیعت نظر آنے لگتی ہے۔ اس مراقباتی عمل کا مقصد جسم اور ذہن کو اتنا یکسو کرنا ہے کہ حقیقتِ وجود کی بصیرت اور نتیجے میں ’’نروانا‘‘ حاصل ہو۔ ] مترجم[
(باقی صفحہ 41)
کتاب کے تعارف میں ہم نے طوالت اس لیے اختیار کی ہے کہ فکری کتابیں کم ہی آتی ہیں۔ اس کے مضامین درج ذیل ہیں:
فصل اول: اسلام میں مابعد الطبیعیاتی تفکر کی بنیادی وضع
فصل دوم: شبستری کی ’’گلشنِ راز‘‘ میں تناقضِ نوروظلمت
فصل سوم: وحدتِ وجود کا تجزیہ: بہ سوے فرافلسفۂ فلسفہ ہاے شرقی
فصل چہارم: عین القضات ہمدانی کی فکر میں، تصوف اور تشابہ کا لسانیاتی مسئلہ
فصل پنجم: آفرینش اور اشیا کا بے زمانی نظام: عین القضات ہمدانی کے فلسفۂ عرفانی کا مطالعہ
فصل ششم: عرفانِ اسلامی اور زین بدھ مت میں تصورِ خلقِ مدام
فصل ہفتم: وجودیت: مشرق و مغرب، فرہنگِ الفاظ و اصطلاحات
کتاب فلسفیانہ تصوف اور فلسفے کے باذوق حضرات کے لیے تحفہ ہے۔ اردو کے خزانے میں قیمتی اضافہ ہے۔ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔ مجلّد ہے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔