(کتاب (محمود عالم صدیقی

:
ڈیورنڈ لائن کا قیدی
مصنف
:
فیض اللہ خان
صفحات
:
232 قیمت550 روپے
ناشر و طابع
:
زاہد علی خاں
ویب گاہ
:
www.zak.com.pk

ZAK Books, ۔3 اور4 مدینہ اپارٹمنٹ، پلاٹ نمبر 13-B، بلاک نمبر 2-Bکراچی۔
ٹیلی فون
:
021-36604052,0300-8224645
ای میل
:
zakprint24@gmail.com
فیض اللہ خان معروف ٹیلی وژن نیٹ ورک اے آر وائی کے ایک جانے پہچانے صحافی ہیں۔ یہ کتاب ان کی صحافتی مہم جوئی کی داستان ہے۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان قبائلی علاقے سے مشہور ڈیورنڈ لائن عبور کرنے کے جرم کی پاداش میں افغان فوج کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ننگرہار جیل میں پُرآشوب روز و شب گزارے۔ اس داستان میں انہوں نے اپنی ذات پر ہونے والے روحانی اور جسمانی دکھوں کا ذکر اور گھر کی یادوں کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان، تحریک طالبان پاکستان، افغان فوج اور حکومت، افغانستان کی ننگرہار جیل، عملے کی سنگدلی اور بدعنوانیاں، افغان سراغ رساں ایجنسیوں اور ججوں کی کھلے عام رشوت ستانی، جیل میں مقید پاکستانیوں اور افغانوں کے بارے میں آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا جو حال قلم بند کیا ہے وہ ’’دنیا‘‘ اخبار کے سنڈے میگزین میں پہلے قسط وار شائع ہوتا رہا جو ایک مقبول سلسلہ بن گیا تھا۔ فیض اللہ خان نے افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان میں خاص کر غیر پشتون افغانیوں میں موجود پاکستان مخالف جذبات اور بیزاری کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ ان کے جیل کے دن اور راتیں اتنی تلخ اور کٹھن تھیں کہ یہ ناخوشگوار یادیں ان کے ذہن سے کبھی نہ نکل سکیں۔ فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے احسان اللہ احسان نے اسکائپ پر کال کرکے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری اعلیٰ قیادت کا انٹرویو لیں۔ وہ اے آر وائی کی طرف سے طالبان قیادت کا انٹرویو لینے پاکستان کے شمال میں افغانستان سے متصل آزاد قبائلی علاقے میں گئے تھے، جہاں طالبان پاکستان کی قیادت نے ان کو بلایا تھا۔ وہاں پہنچ کر ان سے کہا گیا کہ یہ انٹرویو افغانستان میں لیے جائیں گے۔ وہ افغانستان میں طالبان رہنماؤں سے انٹرویو لینے کے لیے اپنے طالبان میزبانوں کے ساتھ قدیم ڈیورنڈ لائن پار کرکے افغانستان میں داخل ہوگئے اور ڈیورنڈ لائن کے بعد کئی چیک پوسٹوں سے بچ کر ننگرہار میں تحریک طالبان پاکستان کے میڈیا مرکز پہنچ گئے جہاں پاکستانی ٹی وی چینلز کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات چلائے جاتے ہیں۔ چار دن کے بعد، اور طالبان کے رہنماؤں سے انٹرویو کے بعد افغانستان کی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے جنہوں نے انہیں جاسوس گردان کر ننگرہار جیل میں ڈال دیا۔ ان کی گرفتاری 22 اپریل 2014ء کو عمل میں آئی۔ پاکستانی طالبان کے انٹرویو کی ریکارڈنگ کی U.S.B جو فیض اللہ خان نے اپنے موزوں میں چھپائی تھی افغان فوج کے محکمہ سراغرسانی کے اہلکاروں کے ہاتھ لگ گئی، البتہ ان کے ہمراہ طالبان کے دو کارکن جو فیض اللہ خان کے ہمراہ گرفتار ہوئے تھے، جہادی وڈیوز پر مشتمل اپنے میموری کارڈ انتہائی مہارت سے اپنی چپلوں کے خفیہ خانوں میں چھپا چکے تھے اور افغان فوج کے محکمہ سراغرسانی کے اہلکار اپنی ذہانت اور مہارت کے باوجود برآمد نہ کرسکے۔ فیض اللہ خان کی تمام چیزیں یو ایس بی، موبائل فون، شناختی دستاویزات اور رقم افغان فوج کے ہاتھ لگ چکی تھی۔
گرفتاری کے بعد ان کے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر اور چہرے پر سیاہ غلاف چڑھا کر ان کو جلال آباد کے افغان انٹیلی جنس کے دفتر لے جایا گیا۔ شدید گرمی اور پشت پر بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ کئی گھنٹے بعد ایک عمارت میں پہنچے تو ہاتھ آزاد کردیے گئے، مگر یہ خوشی فوراً ہی کافور ہوگئی کیونکہ پیروں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال دی گئیں اور ہاتھوں میں بھی ہتھکڑیاں پہنادی گئیں۔ انہیں مستقل کھڑا رکھا گیا جس سے ان کی حالت بد سے بدتر ہوگئی، دن بھر کھڑا رکھنے کے بعد انٹیلی جنس حکام نے تفتیش شروع کردی۔ فیض اللہ خان نے لکھا ہے کہ تفتیشی افسر نے مجھے دیکھتے ہی کہا ’’او پاکستانی جاسوس، ہمیں تمہارا ہی انتظار تھا‘‘ جبکہ میں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں صحافی ہوں جاسوس نہیں۔ اس نے میری سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ بتاؤ آئی ایس آئی نے تمہیں کیوں یہاں بھیجا ہے؟ میں نے تردید کی تو کہا کہ ہم جلد معلوم کرلیں گے کہ تم واقعی صحافی ہو یا جاسوس۔ اور کچھ مزید سوالات کے بعد مجھے جیل کے سیل نمبر 16 میں منتقل کردیا۔ یہ آٹھ فٹ لمبی چار فٹ چوڑی کوٹھڑی تھی جس کی چھت کافی اونچی تھی۔ کوئی پنکھا نہ تھا۔ ایک بڑا زرد بلب دن رات روشن رہتا تھا۔ اگلے پندرہ دن انتہائی تکلیف دہ تھے۔ راتیں کچھ زیادہ ہی اذیت ناک تھیں۔ شدید گرمی، مچھروں، کھٹملوں اور پسوؤں سے لڑتے ہوئے سونا بہت مشکل تھا۔ کچھ روز بعد دوبارہ تفتیشی افسر نے بلاکر تفتیش کی۔ دس دن بعد پہلی مرتبہ بغیر ہتھکڑی لگائے باہر لے جایا گیا۔ وہاں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کا کارڈ لگائے ایک گورا موجود تھا، اس نے اپنا تعارف بنجمن کہہ کر کرایا۔ اس نے میری کہانی سنی اور نوٹس لیے۔ بعد میں اس نے اپنا کارڈ مجھے دیا کہ میں اس سے رابطہ کرسکتا ہوں۔ لیکن میں نے کارڈ واپس کردیا اور بتایا کہ یہاں ہر وقت تلاشی ہوتی رہتی ہے۔ اس ملاقات کے بعد اگلے روز ایک ڈاکٹر مجھے دیکھنے آیا اور میرا کان کا معائنہ کیا جس میں کئی روز سے سخت تکلیف تھی۔ معائنے کے بعد مجھے دوائی فراہم کردی گئی۔ اس سے پہلے پندرہ دنوں میں ایک بار بھی نہانے کی اجازت نہیں ملی جس کی وجہ سے پورے جسم سے پسینے کی سخت بدبو آرہی تھی۔
فیض اللہ خان کو جلال آباد جیل کے جس بلاک میں منتقل کیا گیا اسے وہاں کے قیدی گوانتاناموبے جیل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہاں دو سے ڈھائی ہزار قیدی تھے جن میں خواتین کا الگ بلاک بھی شامل تھا۔ اس میں پاکستانی خواتین بھی اپنے بچوں سمیت قید تھیں۔ ان کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔
پاکستان میں فیض اللہ کی گرفتاری کا علم چار پانچ دن بعد ہی ہوگیا تھا۔ یہ اطلاع ان کی اہلیہ کو معروف اینکر اور صحافی سلیم صافی اور اے آر وائی کے ذریعے حاصل ہوئی تھی، بعد میں یہ بھی پتا چلا کہ رہائی کے لیے دونوں حکومتوں یعنی پاکستان اور افغانستان کے حکام کے درمیان رابطے ہوئے ہیں اور صحافتی برادری نے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور رہائی کی اپیلیں کی ہیں۔
فیض اللہ خان نے اپنی قید کے دنوں کی خاصی دلچسپ تفصیلات اور واقعات لکھے ہیں جن سے افغانستان کے سماجی اور ثقافتی حالات اور وہاں معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں اور بیماریوں کا علم ہوتا ہے۔ ایک ماہ بعد فیض اللہ خان سے حکومتوں کے مابین رابطوں کے نتیجے میں جلال آباد میں پاکستان کے قونصل جنرل حبیب چودھری ملاقات کے لیے آئے۔ اس ملاقات میں افغان وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس کے حکام بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کے ایک ہفتے بعد تک رہائی کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی حالانکہ افغان حکام نے قونصل جنرل سے وعدہ کیا تھا کہ جلد ہی ان کو رہا کردیا جائے گا۔ رہائی کے بجائے کمرۂ عدالت میں قاضی صاحب نے فیض اللہ خان کو بتایا کہ انٹیلی جنس حکام نے تمہارے خلاف صورتِ دعویٰ یعنی چارج شیٹ دی ہے۔ وکیل کا بندوبست کرلو یا سرکاری وکیل کرلو۔ جلال آباد کے قونصل جنرل یہ بات سن کر حیران رہ گئے اور وعدہ کیا کہ وہ جلد وکیل کا بندوبست کردیں گے۔ قونصل جنرل نے وعدے کے مطابق ایک تجربہ کار وکیل حمیداللہ مومن کا بندوبست کردیا۔ انہوں نے فیض اللہ خان کو بتایا کہ افغانستان میں وکلا کو کوئی آزادی حاصل نہیں ہے۔ مقدمات کے فیصلے کا اصل اختیار قاضی کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس حکام کے پاس ہے۔ فیض اللہ خان کو وکیل نے بتایا کہ ان پر لگی دفعات کے حوالے سے وہ زیادہ پُرامید نہیں ہیں اور ان کے خیال میں یہ معاملہ عدالتی سے زیادہ سفارتی ہے۔ فیض اللہ خان پر چونکہ جاسوسی کا سنگین الزام تھا اور اس سلسلے میں جو چارج شیٹ تیار کی گئی تھی اس میں کم سے کم سزا بھی 25 سال بنتی تھی۔ کابل میں پاکستان کے سفیر ابرار حسین کے پریس اتاشی اختر منیر نے ذاتی دلچسپی لے کر تمام اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کیں۔ وہ سول ملٹری افسران، سیاست دانوں، وزراء، حزب اختلاف، سول سوسائٹی اور میڈیا سمیت ہر ایک سے ملے اور رہائی کا کیس بہترین انداز میں لڑا، لیکن ان بہترین سفارتی کوششوں کے باوجود مقدمے کی سنگینی کم نہ ہوئی۔
افغانستان کے اعلیٰ پائے کے وکیل نے جو جیل میں قیدیوں کے مقدمات کے سلسلے میں آتے رہتے تھے، ایک دن فیض اللہ خان سے تنہائی میں ملاقات کی اور بتایا کہ ان سفارتی کوششوں سے کچھ نہ ہوگا، افغانستان میں معاملہ ڈالروں کے ذریعے حل کیا جاتا ہے اور پیسوں کے بغیر ججوں کے حلق سے پانی بھی نہیں اترتا۔ ان ہی دنوں سلیم صافی کے توسط سے حامد کرزئی کے قریبی ساتھی اور رکن اسمبلی میروائس یاسینی نے جیل میں فون کرکے فیض اللہ کو تسلی دی کہ چند دنوں میں ان کو رہا کردیا جائے گا۔ مگر یہ صرف تسلی رہی۔ سلیم صافی کے ساتھ پشاور میں مقیم افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی نے بھی ان کی رہائی کے لیے بہترین کوششیں کیں۔ مسئلہ یہ ہوگیا کہ فیض اللہ خان کے ساتھ جو دو تحریک طالبان پاکستان کے افراد گرفتار ہوئے تھے ان کے کیس بھی ان کے ساتھ جوڑ دیے گئے۔ اب تینوں کی رہائی ایک ساتھ ہی عمل میں آسکتی تھی۔ پیغام رساں کے ذریعے، جن سے پیسوں کا معاملہ ججوں سے طے ہوا تھا، تینوں کے لیے پندرہ سے لے کر اٹھارہ لاکھ یعنی تقریباً چھ لاکھ فی بندہ رقم کا بندوبست کرنا تھا۔
اس نے یہ بھی بتایا کہ ججوں کا کہنا ہے کہ فیض اللہ خان کا معاملہ انتہائی سنگین ہے لہٰذا رہائی تو ممکن نہیں البتہ سزا میں کمی کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد ہائی کورٹ میں اپیل کرکے یہ سزا بھی ختم کی جاسکتی ہے۔ چند روز بعد عدالت پر طالبان نے بھی حملہ کرکے عدالتی عملے کو مار ڈالا اور کئی سپاہی بھی ہلاک ہوئے، البتہ جج بچ گئے۔ بالآخر بعد از خرابی بسیار فیض اللہ خان کو چار سال قید ہوگئی جبکہ سلیم صافی اور رحیم اللہ یوسف زئی کو افغان حکام نے یہ یقین دلایا تھا کہ ان کو فوری طور پر رہا کردیا جائے گا۔ افغان عدالت نے یہ سزا 13 جولائی 2014ء کو سنائی۔ جاسوسی کا الزام ثابت نہ ہوا البتہ افغانستان میں غیرقانونی طور پر داخلے اور احسان اللہ احسان کے انٹرویو اور طالبان کے ساتھ کھینچی گئی تصاویر پر یہ سزا سنائی گئی۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات اور پاکستان میں عمران خان کے دھرنے سے سفارتی کوششیں انتہائی مدھم پڑگئیں البتہ فیض اللہ خان کی اہلیہ سنیعہ نے انتہائی دلیری اور جانفشانی سے اپنی کوششیں جاری رکھیں، وہ پاکستان کے سارے سیاسی رہنماؤں سے ملیں، حکومتی وزرا، صدر ممنون حسین سے ملیں۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق، تحریک انصاف کے اسد عمر، رحمان ملک، افراسیاب خٹک اور اچکزئی، مسلم لیگ کے وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب نے ٹی وی پر پر آکر ان کی رہائی کی اپیل کی۔ بعد میں حزب اسلامی اور مولانا فضل الرحمن نے بھی رہائی کے سلسلے میں صدر حامد کرزئی سے اپیل کی۔ سلیم صافی نے فون پر فیض اللہ خان سے بات چیت بھی کی اور ان کی رہائی کے بارے میں جاری مہم سے انہیں آگاہ کیا اور انہیں یہ خوش خبری دی کہ صدر حامد کرزئی نے ان کی رہائی کا فیصلہ کرلیا ہے، اور یہ کہ وہ ان شاء اللہ عیدالفطر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ منائیں گے۔ پاکستانی میڈیا پر بھی یہ خبر نشر کردی گئی کہ فیض اللہ خان کو عید سے پہلے رہا کردیا جائے گا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، فیض اللہ خان کو ایک بار پھر ننگرہار ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا اور چیف جسٹس کے وعدے کے برخلاف رہائی کے بجائے رہائی کی اپیل مسترد ہوگئی اور چیف جسٹس صاحب اس دن عدالت میں ہی حاضر نہیں ہوئے جبکہ وہ اپنے چیمبر میں موجود تھے اور اپنے قریبی دوستوں کے کہنے کے باوجود جن سے انہوں نے فیض اللہ خان کی رہائی کا وعدہ کیا تھا، عدالت میں نہیں آئے۔
فیض اللہ خان نے اپنی کتاب میں پاکستان میں رہائی کی کوششیں کرنے والوں میں دوسرے سیاسی رہنماؤں، صحافیوں کے ذکر کے ساتھ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق صاحب اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا خصوصی طور پر ذکر کیا کہ انہوں نے افغان حکومت میں موجود اعلیٰ حکام سے حزبِ اسلامی کی سابق قیادت کے ذریعے رابطہ کیا۔ ان کی جانب سے خاصا حوصلہ افزا جواب ملا۔ سراج الحق صاحب نہ صرف میری فیملی سے براہِ راست رابطے میں رہے بلکہ ہر طرح ان کا خیال رکھا۔
فیض اللہ خان کی اہلیہ سنیعہ نے فیض اللہ خان کی گرفتاری کے بعد ’’سنیعہ پر کیا گزری‘‘ کے عنوان سے کتاب میں اپنے حالات لکھے ہیں۔
فیض اللہ خان پاکستان کی تاریخ کے وہ پہلے خوش نصیب صحافی ہیں جن کی رہائی کے لیے حکومتی، سیاسی، صحافتی اور سفارتی ہر سطح پر بھرپور اور کامیاب کوششیں کی گئیں اور بالآخر ساڑھے پانچ ماہ بعد 29 ستمبر 2014ء کو انہیں افغانستان کی جیل سے رہائی نصیب ہوئی اور طورخم کی سرحد پر جب وہ قونصل جنرل کے ساتھ پہنچے تو وہاں انہیں یہ دیکھ کر بڑی خوش گوار حیرت ہوئی کہ وہاں ان کی اہلیہ سنیعہ اور بیٹا ان کے دوستوں کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے۔
یہ کتاب اچھے گیٹ اپ میں اچھے کاغذ پر شائع کی گئی ہے۔ کمپوزنگ اور لے آؤٹ معیاری ہے اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں بہت کم ہیں۔ کتاب کے صفحہ 160 کے بعد آرٹ پیپر پر رنگین تصاویر میں فیض اللہ خان، ان کے والد محمد فرہاد خان، سینیٹر طلحہ محمود، ان کی اہلیہ سنیعہ اور بیٹے، مفتی رفیع عثمانی، سینیٹر پرویز رشید، سید منور حسن، ان کی رہائی کے سلسلے میں اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں معروف صحافیوں کے مظاہروں اور لندن میں فیض اللہ خان کے قیام کے دوران کی تصویریں شامل ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے افغانستان کے سماجی اور ثقافتی حالات اور معاشرے میں رائج برائیوں کا بخوبی ادراک ہوتا ہے۔ صحافیوں اور اس شعبے میں آنے والے نوآموز صحافیوں کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
nn