(ڈونلڈ ٹرپ کا امریکہ(سید وجیہ حسن

نومنتخب امریکی ڈونلڈ ٹرمپ جمعہ کے دن اپنا عہدہ سنبھال لیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے شروع سے ہی متنازع کہے جاتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات کے اظہار میں ابہام سے کام نہیں لیتے، یہی وجہ ہے کہ وہ امریکی معاشرے کے عکاس کے روپ میں بھی سامنے آئے ہیں۔ امریکی معاشرے میں خواتین کا کیا مقام ہے اس کی جھلک ٹرمپ کے خواتین کے بارے میں خیالات میں نظر آتی ہے۔ امریکی معاشرہ غیر امریکی یا رنگ دار امریکیوں کو کس طرح دیکھتا ہے، ٹرمپ کے انتخابی نعرے اس کی مثال پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی معاشرے میں اسلام اور مسلمان کی کیا جگہ ہے اسے جاننے کا بھی ایک اہم ذریعہ ٹرمپ کے اسلام اور مسلمانوں کے ضمن میں کیے گئے انتخابی وعدے ہیں جو انہوں نے برملا مختلف مواقع پر امریکی عوام سے کیے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ٹرمپ کی مخالفت میں بھی لاکھوں امریکی عوام نے ووٹ دیا۔ اس طرح پورے امریکی معاشرے کا عکاس ڈونلڈ ٹرمپ کو کس طرح کہا جاسکتا ہے! لیکن ایسا صرف وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جو امریکی معاشرے کے بارے میں ایسی خوش فہمی کا شکار ہوں۔ دنیا کے سامنے آئندہ چار برس کے لیے امریکہ کا وہی چہرہ ہوگا جو ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے نتیجے میں سامنے آئے گا۔ ممکن ہے کہ امریکی عوام صدر اوباما اور صدر بش کو ٹرمپ کے مقابلے میں تہذیب یافتہ سمجھتے ہوں، لیکن دنیا خصوصاً مسلم دنیا افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی حالیہ تباہی، یہاں ہونے والے لاکھوں انسانوں کے قتلِ عام اور کروڑوں انسانوں کی خانماں بربادی کا ذمہ دار انہی دو تہذیب یافتہ حکمرانوں کے سولہ سالہ اقتدار کو سمجھتی ہے۔
ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ متعصب ہیں، سفید فام نسلی برتری کے قائل ہیں اور امریکہ کو دراصل اس سفید فام طبقے ہی کے مفاد میں چلانے کے خواہش مند ہیں۔ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار اٹھانے، امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں غیر ملکی نوجوانوں کو ملک بدر کردینے اور ملازمتوں میں امریکہ کے ’’اصل شہریوں‘‘ کو دیگر پرفوقیت دینے جیسے انتخابی وعدوں کے ذریعے دنیا کے سامنے ٹرمپ کا متعصبانہ رویہ کھل کر سامنے آگیا۔
ٹرمپ کی اسلام اور مسلمان دشمنی بھی کسی تعریف کی محتاج نہیں۔ موصوف نے اپنی انتخابی مہم کے شروع میں ہی اس بات کا اظہار کردیا تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں ’’امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کردیا جائے گا‘‘۔ جو مسلمان امریکہ میں مقیم ہیں ان کے روزمرہ کے معاملات کی مانیٹرنگ کے لیے ’’ایک رجسٹری قائم کی جائے گی۔‘‘
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکہ کے روایتی سیاست دان طبقے کو بھی نشانہ بنایا۔ امریکہ کے مڈل کلاس طبقے کی زبوں حالی کی وجہ اُن کے نزدیک یہی روایتی سیاست دان تھے جنہوں نے امریکہ کے امیر طبقے کے ساتھ گٹھ جوڑ قائم کیا ہوا ہے۔ نتیجتاً امیر امیر ترین ہورہا ہے، اور مڈل کلاس اور غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ انہوں نے عوام سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ روایتی سیاست دانوں کو اپنی ٹیم سے علیحدہ رکھیں گے۔ اس طرح انہوں نے سیاست میں اپنی ناتجربہ کاری کو ہی اپنی قوت میں بدلنے کی سعی کی اور مخالفین کے اس پروپیگنڈے کے خلاف کہ انہیں امورِ حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں، ایک اچھا توڑ کیا۔
آج جب ڈونلڈ ٹرمپ حکومت سنبھالنے جارہے ہیں تو اُن پر لگنے والے الزامات بھی زبان زدِ عام ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ان الزامات کے سدباب کی بھی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ بلکہ اب تک اُن کی طرف سے اٹھائے جانے والے بیشتر اقدامات اس بات کا مظہر ہیں کہ وہ اپنے کہے پر قائم ہیں۔ مثلاً اُن کی طرف سے امریکی انتظامیہ کی 6 اہم تعیناتیوں میں 4 ایسے افراد شامل ہیں جنہوں نے کبھی حکومتی اداروں میں کام نہیں کیا اور نہ ہی انہیں پبلک آفس کا کوئی تجربہ ہے۔ اس میں ایگزان موبل کے چیف ایگزیکٹو ’’ایرکس ٹلرسن‘‘ کا بحیثیت ’’سیکریٹری آف اسٹیٹ‘‘ تقرر ہے۔ اسی طرح ’’رینس برہب‘‘ وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف او ٹریژری سیکریٹری اسٹین منچن کو بھی اس سے قبل حکومتی امور چلانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ ہاؤسنگ اور شہری ڈویلپمنٹ کا شعبہ ’’بین کارسن‘‘ کے حوالے کیا گیا ہے جو ریٹائرڈ نیوروسرجن ہیں۔ جبکہ ہوٹلوں کا تجربہ رکھنے والے ’’اینڈریو پزڈر‘‘ لیبر سیکریٹری کے فرائض انجام دیں گے۔ سب سے دلچسپ تقرر سابقہ ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کی چیف ایگزیکٹو لنڈا مک موہن کا ہے جنہیں بزنس ایڈمنسٹریشن کا چیف مقرر کیا گیا ہے، جبکہ ’’بیٹی ڈیووس‘‘ کو جن کی واحد قابلیت سماجی خدمت ہے، سیکریٹری ایجوکیشن تعینات کیا گیا ہے۔ اس طرح افریقی نژاد امریکن کانگریس رکن جون لیوس کے خلاف ٹرمپ کے بیان نے ایک بار پھر ان کو متنازع بنادیا ہے۔ اور ’’جون لیوس‘‘ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے 44 ارکانِ کانگریس نے ٹرمپ کی تقریبِ صدارت کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
دوسری طرف ’’ٹائمز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ نے جرمنی کی شام کے شہریوں کو پناہ دینے کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اُن کے بقول ان پناہ گزینوں کو قبول کرکے جرمنی نے یورپ میں دہشت گردی کی راہ ہموار کردی ہے۔ اُن کے نزدیک اس کا بہترین حل یہ تھا کہ شام ہی میں ان مہاجرین کے لیے کیمپ قائم کرائے جاتے۔ ٹرمپ کا یہ بیان اُن کی مسلم دشمنی کی عکاسی کررہا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں مسلمانوں کے شہری حقوق کی سب سے بڑی تنظیم نے ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے ایونجلسٹ ’’فرینکلن گراہم‘‘ کو ٹرمپ کی صدارتی عہدہ سنبھالنے کی تقریب سے خطاب کرنے سے باز رکھا جائے ورنہ یہ ٹرمپ کی طرف سے اسلام دشمنی کا اعادہ ہوگا۔ ٹرمپ نے اس درخواست کا جواب بھی دینا مناسب نہیں سمجھا ہے۔ ٹرمپ کے متنازع بیانات اور رویّے کے خلاف امریکہ میں اب تک درجنوں مظاہرے ہوچکے ہیں۔ اب جب وہ عہدۂ صدارت سنبھالنے جارہے ہیں تو ایک بار پھر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔ امریکہ میں دو سو سے زائد تنظیموں نے ہفتہ کے دن مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا مظاہرہ واشنگٹن میں ہفتے کے دن خواتین کی تنظیم کی جانب سے منعقد کیا جائے گا جس میں دو لاکھ افراد کی شرکت کی توقع کی جاہی ہے۔
جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے، وہ ان مظاہروں سے مرعوب ہوتے نظر نہیں آرہے، نہ ہی وہ دنیا کے سامنے بننے والے اپنے اس متنازع امیج کے بارے میں فکرمند ہیں۔ وہ ایک متعصب، خودسر اور ناقابلِ اعتبار حکمران کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں جہاں امریکی اثر و نفوذ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ کم ہوتا چلا جارہا ہے اور خصوصاً مشرق وسطیٰ ، ایشیا اور وسطی ایشیا میں طاقت کے نئے مراکز نہ صرف سر اٹھا رہے ہیں بلکہ تیزی سے حالات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودسر اور ناقابلِ بھروسا فرد کا دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا سربراہ بن جانا خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کے گیم پلان کا حصہ تو نہیں؟
ٹرمپ کے اب تک کے رویوں کو دیکھ کر انگریزی کا محاورہ Method in Madness یعنی ’’پاگل پن میں بھی شعور‘‘ صادق آتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کے پاس موجودہ حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ روس، چین، پاکستان اور ترکی کے اتحاد میں سے روس کو کسی طرح علیحدہ کرے، ورنہ یہ اتحاد ہر جگہ امریکہ کا متبادل بنتا چلا جائے گا۔ ناٹو اورروس ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بلکہ ناٹو کی تشکیل ہی روس کے استعاری عزائم سے یورپ کو محفوظ رکھنے کے لیے کی گئی تھی۔ امریکہ نے پچھلے 15برسوں میں ناٹو کا بھرپور استعمال کرکے افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن تاحال اسے کہیں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ روس کو دانہ ڈالنے چلے ہیں۔ اگر روس اور امریکہ مل کر چلنے پر راضی ہوجائیں تو مسلم دنیا کے وسائل بھی بانٹے جا سکیں گے اور چین کو بھی تنہائی کا شکار کیا جاسکے گا۔ ایران اور بھارت روس کو امریکی ایجنڈے پر لانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
لیکن امریکی یہ بات بھول رہے ہیں کہ وہ سات سمندر پار بیٹھے ہیں جب کہ چین، پاکستان اور ترکی روس کے ساتھ زمینی رابطے میں ہیں۔ تاریخ کی کروٹ نے امریکہ کے جغرافیے کو جو کبھی اُس کے حق میں اہم ہتھیار تھا، یعنی کوئی عالمی جنگ بھی کبھی امریکی سرزمین تک نہیں پہنچ سکی، آج اس کے لیے ایک مصیبت بنادیا ہے۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا خودسر اور ناقابلِ بھروسا ہونا ہی امریکہ کے کام آسکتا ہے۔ ایسا شخص جس کے خلاف لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل چکے ہوں، جو تہذیب یافتہ نہ کہلایا جا سکے، جسے حکومت چلانے کا کوئی تجربہ بھی نہ ہو، وہ حالات کو موافق نہ پاکر اگر طاقت کا بہیمانہ استعمال کر گزرے تو اسے 200 سالہ قابلِ رشک امریکی تاریخ میں ایک چھوٹا سا داغ ہی قرار دیا جاسکے گا۔
اس تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کا اسلام دشمن ہونا مسلم دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجادینے کے لیے کافی ہے۔
کیا مسلم دنیا کے حکمران طبقے کو مستقبل میں پیش آنے والے خطرات کا ادراک ہے؟
nn